تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     20-08-2020

دوست، دوست نہ رہے!

کورونا کے بعد دنیا کی معیشت اور سیاست کا منظرنامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ عالمی ماہرینِ سیاست اور معیشت پہلے ہی اس بات کی پیش گوئی کر چکے ہیں کہ اکیسویں صدی میں علاقائی سیاست کو غلبہ حاصل ہو گا اور پہلی دو دہائیوں میں پیش آنے والے بڑے واقعات‘ جن میں نائن الیون، چین کا ایک مضبوط عالمی معیشت کے طور پر ابھرنا، عراق اور افغانستان میں امریکہ کی شکست وغیرہ شامل ہیں‘ کے پیش نظر قوی امکانات ہیں کہ اب علاقائی سیاست تیزی سے اپنی جگہ بنائے گی؛ تاہم اس کے لیے ابھی مزید کچھ عرصہ درکار تھا لیکن کورونا نے آ کر سب کچھ بدل دیا۔ جیوسٹریٹیجک تبدیلیوں کے جو فاصلے دہائیوں میں طے ہونا تھے وہ اس عالمی وبا کی وجہ سے چند ماہ یا دو تین برسوں میں سمٹتے نظر آ رہے ہیں۔ کورونا جس طرح سے عالمی ساہوکاری نظام اور اس کے ذیل میں چلنے والے اداروں کو بے نقاب کر گیا ہے‘ اس نے ریاستوں کو اپنی پالیسیاں از سر نو تشکیل دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ پرانے اتحاد ٹوٹ رہے ہیں‘ نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں اور اس بار یہ نئے اتحاد بین الاقوامی نظام کے بجائے قومی مفادات کو مرکز نگاہ رکھ کر تشکیل دیئے جا رہے ہیں۔ ریجن میں ہم خیال ممالک مشترکہ مفادات کی میز پر بیٹھنے کیلئے بہت تیزی سے سفارتی عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہوئے ہمیشہ بھارت کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ ماضی قریب میں امریکہ کے ساتھ تعلقات، نیٹو کا غیر علاقائی اتحادی ہونا اور سیٹو‘ سینٹو جیسے معاہدات میں شرکت کے باوجود پاکستان کو کچھ زیادہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے بلکہ اسے ان سارے معاہدات میں شرکت کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھانا پڑا اور بھارت کے ساتھ جنگی معاملات میں ان معاہدات، اتحادی ممالک، خصوصاً امریکہ سے کبھی بھی کوئی مدد نہ مل سکی جس کی وجہ سے پاکستان میں فیصلہ ساز ادارے کافی عرصے سے اس سوچ بچار میں مصروف ہیں کہ ہم کس طرح اپنی سرحدوں‘ مفادات اور سالمیت کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
نائن الیون کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے بعد جس طرح سے امریکہ نے عالمی سیاست کو دہشتگردی کے خلاف جنگ سے جوڑا‘ اس کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ ایک وہ ممالک جو امریکہ کے حلیف تھے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے اور دوسرے وہ جو امریکہ کے حریف تھے اور ان کے خلاف جنگ لڑی جا رہی تھی‘ یوں پوری دنیا خصوصاً ایشیا کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔ ایسے میں چین‘ سارک ممالک، سینٹرل ایشیا، روس، ترکی، ایران اور پاکستان کے قومی مفادات کا ایک دوسرے سے جڑنا ضروری ٹھہر گیا۔ اسی لئے متضاد نظریات کے باوجود سرحد در سرحد ان ممالک اور خطوں کے اپنی اپنی جغرافیائی حدود سے باہر ان کے بڑے قومی مفادات انہیں قربت اختیار کرنے پر مجبور کرتے جا رہے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں 28 جون 2019 کو معیشت اور علاقائی سیاست کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے بڑی اہم بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی ملک تنہا ترقی نہیں کر سکتا‘ یہ خطہ ہوتا ہے جو ترقی کرتا ہے‘ اور ہمیں اپنے خطے کی ترقی کیلئے تقریباً تمام ہمسایوں کے ساتھ وسیع رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔ اور اس کے بعد اگر ہم دیکھیں تو ریاست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محورومرکز خطے کے ممالک نظر آتے ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم کا ویژن بہت واضح نظر آیا ہے جس کے تحت چین، ترکی، ملائیشیا، روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے پرانے اتحادیوں‘ جن میں امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اہم ترین ہیں‘ کا جھکاؤ بھارت کی طرف سے زیادہ نظر آ رہا ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد پاکستان کو یقین تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب اسی لاکھ محصور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر بھارت کی مذمت ضرور کریں گے اور اس بڑے چیلنج میں بھارت کے بجائے پاکستان کی حمایت کریں گے لیکن نہ صرف امریکہ، سعودی عرب بلکہ متحدہ عرب امارات اور انسانی حقوق کے علمبردار یورپی ممالک بھی بھارت کے اس گھناؤنے فعل پر چپ رہے۔ اس دوران بھارت کی جانب سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر دعووں، پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیوں بلکہ گیدڑ بھبکیوں کے بعد بالا کوٹ میں جابہ کے مقام پر درختوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش پر بغلیں بجانے کے عمل نے ایک نئی اور خطرناک صورتحال کو جنم دیا‘ جس کا جواب پاک فضائیہ کی جانب سے 27 فروری 2019 کو بھارتی طیارہ مار گرا کر اور پائلٹ کو گرفتار کرکے دیا گیا۔ بھارت نہ صرف شرمندہ ہوا بلکہ اس کا نفسیاتی غرور بھی خاک میں مل گیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے گرفتار پائلٹ واپس کرکے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ وہ امن کا خواہاں ہے۔ اس ساری صورتحال کے بعد بھارت کی شرانگیزیوں میں اضافہ ہو گیا جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اسے امریکی شہ حاصل ہے‘ جسے پاکستان کی مقتدرہ بہت پہلے ہی بھانپ چکی تھی‘ اسی لیے پاکستان نے چین کے ساتھ جیوسٹریٹیجک معاملات کو مزید گہرا کیا، سی پیک اور گوادر پورٹ جیسے منصوبے چین کے حوالے کیے۔ 
دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی پاکستان کیلئے تشویش کا باعث ہیں کیونکہ پاکستان اصولی طور پر جہاں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا حامی ہے وہاں فلسطینی مسلمانوں کیلئے بھی پاکستان تقریباً ایسے ہی جذبات رکھتا ہے۔ لہٰذا اب اس خطے میں اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بھارت مستقبل کے اتحادیوں کے طور پر نیا الائنس بناتے نظر آرہے ہیں‘ جس کی سربراہی امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی جبکہ امریکہ بھارت کو اس علاقے کا چوکیدار بنانا چاہتا ہے۔ ایسے میں یہ فطری امر ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر چین‘ ترکی، روس اور ملائیشیا کے ساتھ مل کو خود کو مضبوط اور توانا کرے۔ چین کے ساتھ سی پیک ون اور ٹو، گوادر بندرگاہ، ایران کے ساتھ مل کر گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل، ملائیشیا کا جدید معاشی ڈھانچہ، ترکی کے ساتھ سیاحتی معاہدے اور روس کی جدید میزائل ٹیکنالوجی کا حصول پاکستان کے دفاع اور معیشت کو بہت زیادہ مضبوط بنا سکتے ہیں۔ پاکستان چاہے جس بھی الائنس میں جائے اسے سب سے پہلے اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ 
عالمی اور علاقائی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے اپنے معاشی اور سیاسی ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ روایتی معاشی اور سیاسی نظام آنے والی تبدیلیوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں‘ ہمیں ڈیجیٹلائزیشن کی طرف بڑھنا ہے۔ ٹیکسیشن کا نظام مزید فعال اور مضبوط کیا جائے‘ کاروباری مواقع اور آسانیاں بڑھائی جائیں‘ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ اور کارپوریٹ کلچر کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام میں بھی اہم تبدیلیاں درکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں جو کمی دکھائی دیتی ہے وہ درست کام کیلئے درست ٹیموں کا نہ ہونا ہے۔ معیشت، خارجہ پالیسی، بیوروکریسی اور ذیلی تمام محکمہ جات کو ہم آہنگ بنانے کیلئے کسی سیاسی جماعت کے پاس درکار صلاحیت موجود نہیں ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر سب سے پہلے پارٹی جمہوریت پیدا کریں۔ ان کو خاندانی سیاست سے آزاد کیا جائے، باصلاحیت افراد کو پارٹی کی قیادت سونپ دی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو پارٹی برسر اقتدار آتی ہے اس کے پاس نظام کو چلانے کیلئے بہترین ٹیم پہلے سے موجود ہو ورنہ وزیراعظم جتنا بھی باصلاحیت اور ایماندار ہو‘ ٹیم قابل نہ ہو تو نظام چلانا مشکل ہو جاتا ہے‘ لہٰذا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ خود کو کرپشن کے گرداب سے نکال کر اپنا کردار قومی تقاضوں سے ہم آہنگ بیانیہ تشکیل دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved