عوام کی پریشانیوں میں عمران کی
بد انتظامی نے اضافہ کیا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کی پریشانیوں میں عمران کی بد انتظامی نے اضافہ کیا‘‘ حالانکہ ہم نے عوام کو جس حد تک پریشان کر دیا تھا‘ اس میں اضافے کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں تھی اورانہیں اس کی عادت بھی پڑتی جا رہی تھی، لیکن حکومت صرف اُن میں رخنہ اندازی کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ہماری پریشانیوں میں اضافہ اس کے علاوہ ہے کیونکہ بھائی صاحب کو مفرور قرار دیا چکا ہے اور ان کے وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں اور جیل منہ کھولے اُن کا انتظار کر رہی ہے، ان کے لیے اب واپسی کے سوا اور کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ن لیگ مسترد شدہ، عوام اصلیت جان چکے ہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ ''ن لیگ مسترد شدہ، عوام اصلیت جان چکے ہیں‘‘ بلکہ اب انہوں نے آہستہ آہستہ ہماری اصلیت بھی جاننا شروع کر دی ہے تا کہ ہمیں بھی مسترد شدہ قرار دے سکیں لیکن اپوزیشن کی تقسیم اور نا اہلیوں کی وجہ سے اب تک ایسا نہیں ہو سکا حالانکہ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں تھا اور ہماری دو سالہ کارکردگی سے اس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں مریم اورنگزیب کے بیان پر ردعمل ظاہر کر رہے تھے۔
حکومت نے دو سال میں جھوٹ بولنے کا ریکارڈ توڑا: مریم
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''حکومت نے دو سال میں جھوٹ بولنے کا ریکارڈ توڑا‘‘ قبل ازیں یہ ریکارڈ ہم نے قائم کر رکھا تھا اور اس ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے لیے میاں صاحبان کے بیانات ہی کافی تھے۔ ہمارے پارٹی صدر اس کو سیاسی بیان قرار دے کر اس کا نام ہی تبدیل کر چکے تھے جبکہ پارٹی قائد ایک ہی بات کو عدالت، پارلیمنٹ اور عوام میں مختلف طور پر بیان کر چکے تھے اور ملک سے اُس کا فرار ایک عملی جھوٹ تھا جس میں حکومت کو بھی جھانسہ دیا گیا۔ اب ان کی واپسی کے لیے کارروائی جاری ہے تاہم امید ہے کہ اس کا بھی کوئی حل نکل آئے گا کیونکہ حکومت تو وہی ہے نا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
حکومت سخت بیرونی دبائو میں کام کر رہی ہے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت سخت بیرونی دبائو میں کام کر رہی ہے‘‘ اور اگر وہ میرے دبائو کو بھی اس میں شامل کر لیتی تو اس کا کیا بگڑنا تھا؟ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بیرونی کے ساتھ ساتھ حکومت اندرونی دبائو بھی قبول کرے۔ اگرچہ اس دبائو کا اپنے آپ کو دبائو ثابت کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور اگر یہ دبائو مذاق ہی بن کر رہ جائے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہر چار ماہ بعد میرے جانے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہر چار ماہ بعد میرے جانے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے‘‘ جبکہ اس غلط کام میں اتنی باقاعدگی اچھی نہیںکہ اس میں وقفہ کر کے تھوڑی ورائٹی بھی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن میں شوشہ پھیلانے والوں کا شکر گزار ہوں کیونکہ جونہی یہ چار مہینے ختم ہونے کو آتے ہیں میں نئے میدان یعنی آنے والے شوشے کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دیتا ہوں اور اپنے اوپر لگے الزامات کے حوالے سے صرف اتنا کہوں گا کہ آج تک کتنے افراد پر کیس ثابت کیے جا چکے ہیں ؟ آپ اگلے روز لاہور میں اسد قیصر اور پرویز خٹک سے ملاقات کر رہے تھے۔
برہا مچّ مچایا
یہ پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغرا صدف کی پنجابی کہانیوں کا مجموعہ ہے جسے عائشہ پبلی کیشنز لاہور نے خوبصورت گیٹ اَپ میں شائع کیا ہے۔ انتساب اقبال قیصر کے نام ہے۔ پسِ سرورق مصنفہ کی تصویر ہے اور مختصر نوٹ ، جس کے مطابق:''زندگی ایک کہانی ہے جو عمر بھر کہانیوں کو جنم دیتی اور پالتی رہتی ہے۔ گرد و پیش کے تناظر سے بغل گیر ہوتی بیل کی طرح آرزوئوں، آہوں اور شوق کا پُور پیدا کرتی جاتی ہے۔ اپنی بات کروں تو میں پیدائشی کہانی کار ہوں۔ کہانی کو بُننا پہلے سیکھا اور لفظ لکھنا بعد میں۔ اس لیے میری ہر تحریر ایک کہانی ہی ہے، چاہے وہ غزل ہو، نظم ہو یا کالم۔ یہاں تک کہ میرے تنقیدی خیالات بھی کہانی کی لو سے نہیں بچ سکتے۔ میں کہانی میں جیتی ہوں‘ سوچتی ہوں‘ اپنے آپ کو سُنا کر بہلائے رکھتی ہوں۔ یہ وہی کہانیاں ہیں جنہیں میرے دل، فکر اور گیان سے لے کر قلم تک پہنچنے میں بہت وقت لگا۔ کہانی بھی سفر کرتی ہے اور بندہ بھی۔ میں نے آنکھ میں ایکسرے مشین کیا لگائی، سماج کی کوکھ میں پلتے دُکھ سامنے آن کھڑے ہوئے اور پھر وہ الفاظ بن گئے‘‘۔(پنجابی سے ترجمہ)
اور‘ اب گُل فراز کی یہ غزل:
بظاہر دیکھتے ہیں تو زیادہ کام کرتا ہوں
مگر حق بات کچھ یوں ہے کہ تھوڑا کام کرتا ہوں
اب آگے خود سمجھ جائو میں کیسا کام کرتا ہوں
جو کوئی بھی نہیں کرتا ہے ویسا کام کرتا ہوں
محبت میں مجھے باتیں بنانا تو نہیں آتا
کبھی موقع ملے مجھ کو تو سیدھا کام کرتا ہوں
کرانا چاہتا ہوں اس طرح اپنا ہی کوئی کام
یہاں ہر وقت جو میں یہ تمہارا کام کرتا ہوں
نئی ہے پیشکش اور پھر کیا ہے نام بھی تبدیل
حقیقت میں مگر اب بھی پرانا کام کرتا ہوں
وہ میرے ساتھ جو کرتے ہیں ویسا تو نہیں کوئی
وہ اپنا کام کرتے ہیں‘ میں اپنا کام کرتا ہوں
مگر اب لوگ کہتے ہیں بھلا یہ بھی ہے کوئی کام
کبھی یہ لوگ کہتے تھے کہ اچھا کام کرتا ہوں
اب ایسا بھی نہیں ہے جو ملا وہ کر لیا میں نے
مرا معیار ہے اک اور ستھرا کام کرتا ہوں
انہیں وہ چھوڑ دیتے ہیں جو کچھ بھی تو نہیں کرتے
میں پھنس جاتا ہوں گلؔ‘ اتنا ہی جتنا کام کرتا ہوں
میرا نیا پوسٹل ایڈریس: مکان نمر 355، سٹریٹ نمبر 11، عسکری 5، لاہور ۔
آج کا مطلع
کوئی وسیلۂ خواب و خبر نہیں میرا
میں جا رہا ہوں اُدھر‘ رخ جدھر نہیں میرا