تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     20-08-2020

رومن شہنشاہ نیرو کی ماں کا قصور

جولیا اگریپیتا کا شمار روم کی طاقتور ترین خواتین میں ہوتا تھا، وہ رومن شہنشاہ نیرو کی ماں تھی۔ نیرو آرٹسٹ تھا‘ گانا اور موسیقی اسے راحت بخشتے تھے۔ اس میں حکمرانی کی صفات نہ ہونے کے برابر تھیں مگر نیرو کی ماں ہر صورت اسے روم کے تخت پر دیکھنا چاہتی تھی۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لیے نیرو کی ماں نے اپنے شوہررومی شہنشاہ کلاڈیس (نیرو کے سوتیلا باپ) کو زہر دے کر مار دیا۔ یوں نیرو روم کا بادشاہ تو بن گیا مگر پھر اس کی ماں اور روم کا انجام کیا ہوا؟ 
روم جل رہا تھا اور نیرو پہاڑ پر بیٹھا بانسری بجاتا رہا۔ یہی نہیں! ماں کو بھی اس نے اپنی ایک دوست کی خواہش پر مار ڈالا۔ سوال یہ ہے کہ نیرو کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی ماں کو کیا ملا؟
پی ٹی آئی کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر نجانے کیوں مجھے رومن شہنشاہ نیرو کی ماں کا خیال بار بار آ رہا ہے۔پی ٹی آئی کیسے اقتدار میں آئی، عمران خان میں کتنی حکمرانی کی خصوصیات ہیں؟ اس بارے درجنوں کہانیاں اور مفروضے ہم سن چکے۔ ایک بات جو اٹل ہے وہ یہ کہ 2018ء کے الیکشن میں عوام عمران خان کو مسند ِ اقتدار پر دیکھنا چاہتے تھے۔ کتنے فیصد‘ یہ بالکل الگ بحث ہے مگر دیکھنا ضرور چاہتے تھے۔ عوام نے عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ عوام مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو چور‘ ڈاکو ثابت کرنے کی مہم میں پیش پیش رہے۔ تحریک انصاف کو صاف شفاف پارٹی کا لقب بھی عوام کے تعاون سے ہی ملا۔ پھر وہ دن آیا جب عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد ثمر بار ہوئی اور پی ٹی آئی اقتدار میں آ گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ دو سال گزر جانے کے بعد عوام کے حصے میں کیا آیا؟ کیا احتساب ہوا؟ کیا لوٹی دولت پاکستان واپس آئی؟ کیا ایک کروڑ نوکریاں ملیں؟ پچاس لاکھ گھر بنے؟ کیا مہنگائی اور بیروزگاری کم ہوئی؟ مزدور کی فی کس آمدنی بڑھی؟ پاکستان سے قرضوں کا بوجھ کم ہوا؟ کیا مافیاز عبرت کا نشان بنے؟ کیا پولیس اور پٹوار کا نظام ٹھیک ہوا؟ بیورو کریسی کو بروئے کار لایا گیا؟ عام آدمی کو انصاف ملا؟ اداروں میں توازن قائم ہوا؟ صوبائی خود مختاری کا احترام کیا گیا؟ کیا اہل منصب میں سے کوئی ہے جو بتائے عوام کی درجن بھر حسرتوں کا کیا بنا؟ وہ خواب جو پاکستانیوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھے تھے پورے ہوئے یا نہیں؟ ؎
نہ جانے کون سی منزل پہ عشق آ پہونچا
دعا بھی کام نہ آئے کوئی دوا نہ لگے
عوام پر کیا بیت رہی ہے عوام جانیں‘ میں تو رجائیت پسند آدمی ہوں اور محب وطن ہونے کی وجہ سے ہر کام میں خیر کا پہلو ڈھونڈتا ہوں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے دو سالوں میں عوام کی بھلائی کا کوئی کام کیا یا نہیں لیکن لوگوں کی تربیت اچھے سے کر دی ہے۔ زندگی کے وہ تجربات جو ہماری سیاسی تاریخ میں خال خال ملتے ہیں‘ دو سالوں سے وہ عوام پر چھاجوںبرس رہے ہیں۔ عام آدمی کی حکومت پر تنقید اپنی جگہ مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کو بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ کچھ گزارشات نمونے کے طور پر پیش کیے دیتا ہوں۔ 
٭ ہم نے ان دو سالوں میں حکومت سے سیکھا کہ ٹاپ پر بھلے کتنا ہی ایماندار شخص بیٹھا ہو‘ مافیا کی دو نمبری کی دکان کبھی بند نہیں ہوتی۔ آٹا، چینی، گندم اور پٹرول مافیاز عوام کا خون چوستے رہتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ حکمران چاہے چور نہ ہوں تو بھی عوام کو مہنگائی کا عذاب جھیلنا ہی پڑتا ہے۔
٭ ہم نے سیکھا کہ کسی بھی کمیشن کی رپورٹ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ چینی کمیشن کتنا ہی واویلا کرے کہ اس وقت چینی کی لاگت 46 روپے فی کلو ہے مگر عوام کو چینی 100 روپے سے اوپر ہی ملے گی۔ حکومت چاہ کر بھی قیمت کنٹرول نہیں کر سکتی۔ 
٭ ''وطن دوست‘‘ حکومت نے ہمیں سکھایا کہ میرٹ، صلاحیت اور تجربہ کسی بھی سیاسی عہدے پر پہنچنے کے لیے ضروری نہیں ہوتا۔ آپ کونسلر کا الیکشن ہار کر دو سال کے اندر وفاقی وزیر بن سکتے ہیں۔ آپ پہلی بار اسمبلی کی سیڑھی چڑھیں اور وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ جائیں، کوئی آپ کو پوچھنے والا نہیں ہوگا۔
٭ گزشتہ دو سالو ں میں ہم نے حکومت سے سیکھا کہ آپ کو عدالت سے کتنی ہی سزا ہوئی ہو‘ آپ کا اثر و رسوخ ہے تو کوئی قانون آپ کو قید میں نہیں رکھ سکتا۔ آپ اپنی مرضی کے ملک میں اور اپنی مرضی کے ڈاکٹرسے علاج کروا سکتے ہیں۔ 
٭ ہمیں پتا چلا کہ آپ کو بھلے کسی کمیشن نے غلط کاری کا مرتکب ہی کیوں نہ ٹھہرایا ہو۔ آپ کی ''اوپر‘‘ سلام دعا ہے توآپ کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جائے گا۔ آپ اپنے خاندان سمیت کسی بھی ملک جا کر رہ سکتے ہیں۔
٭ پی ٹی آئی حکومت نے ہمیں سکھایا کہ ترقی کی شرح چاہے منفی میں ہو‘ روپے کی بے قدری معمول بن چکی ہو‘ فی کس آمدنی مسلسل گر رہی ہو‘ مہنگائی آسمانوںسے باتیں کر تی ہو‘ بیروزگاری عام ہو‘ حکومتی قرضہ ڈبل ہو چکا ہو‘ برآمدات رکی ہوں اور زرمبادلہ کے ذخائر مصنوعی سہارے پر کھڑے ہوں پھر بھی آپ کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ 
٭ موجودہ حکومت سے ہمیں پتا چلا کہ الزام چاہے کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو‘ ملزم کے خلاف کریمنل کارروائی ضروری نہیں ہوتی بلکہ وزیر کی پردہ داری کارِ ثواب ہوتی ہے۔ نئے پاکستان کی کتاب کے پہلے صفحہ پر یہ سبق تحریر ہے کہ گیس‘ پیڑول‘ چینی اور گندم سکینڈل میں کسی وزیر کا نام آ جائے تو کوئی بڑی بات نہیں‘ وزارت بدلو اور کہانی ختم۔
٭ تبدیلی سرکار نے ہماری رہنمائی فرمائی کہ حکومت چاہے مدینہ کی ریاست کی طرز پر ہو‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کا ہی راج ہوتا ہے۔ سیاسی مخالفین کو غلط مقدموں میں پھنسایا جا سکتا ہے۔ وعدوں سے مکرنا عیب نہیں بلکہ یوٹرن ہوتا ہے۔
٭ عوام کو یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ کسی بھی ملک کے ساتھ آپ کے کتنے ہی دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کیوں نہ ہوں‘ ان کے خلاف بھی غیر سنجیدہ اور غیر ضروری بیان بازی کی جا سکتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی ملک کی اپوزیشن والا سلوک برتا جا سکتا ہے۔ اس کے بدلے میں ملک کو کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانا پڑے‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭ حکومت کے ذریعے یہ راز بھی ہم پر افشا ہوا کہ نئے صوبے بنانا کسی ایک جماعت کا کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ الیکشن کے وقت نئے صوبوں کے نعروں پر یقین کرنے والے تھوڑے کم عقل ہوتے ہیں۔ 
٭ ہم نے اس حکومت سے سیکھا کہ ملکوں ملکوں گھوم کر قرضہ اکٹھا کرنا کوئی بری بات نہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر مہنگائی کرنا بھی جائز ہوتا ہے۔ خارجہ پالیسی آزاد ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ملک کے بڑے اداروں کے سامنے اپنی منشا کی قربانی دینا اچھی بات ہوتی ہے، اس سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو جاتا۔ 
٭ ہم نے موجودہ حکمرانوں سے سیکھا عوام آپ سے بھلے کتنے ہی بدظن ہو جائیں، اپنی پبلسٹی پھر بھی جاری رکھنی چاہیے اور مخالفین کے خلاف پروپیگنڈا رکنا نہیں چاہیے کیونکہ عوام کی رائے بدلنے میں کون سی دیر لگتی ہے......
آخر میں ادھوری بات مکمل کرنے کا مَن کر رہا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ رومن شہنشاہ نیرو کی ماں کا قصور کیا تھا؟
میرا احساس ہے کہ نیرو کی ماں کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ اس نے نیرو کی صلاحیتوں کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا۔ جو کام نیرو کو آتا نہیں تھا وہ کام اس سے کروانے کی کوشش کی گئی۔ نیرو اناڑی تھا، حکمرانی کے داؤ پیچ اسے آتے نہیں تھے۔ سو سارا ملک اپنے ہاتھوں سے تباہ کر بیٹھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved