ذوالفقار علی بخاری (اردو کے معروف ادیب‘ پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی اورریڈیو پاکستان کے بانی اور پہلے سربراہ)اس وقت انگلستان پہنچے جب دوسری عالمی جنگ میں انگریزوں کی فتح کے آثار پیدا ہوچلے تھے، لیکن اس جنگ میں اگر ہارنے والے برباد ہوگئے تھے تو جیتنے والوں کی حالت بھی ابتر تھی۔ انگلستان کے کارخانے بنداور کھیت اجڑے پڑے تھے۔ جنگ جیت لینے کے باوجود بھی ضرورت کی ہر چیز کی اتنی قلت تھی کہ حکومت راشن بندی پر مجبور ہوگئی تھی۔حالت یہ تھی کہ حکم دے دیا گیا کہ کوئی شخص ڈبل بریسٹ سوٹ سلوائے نہ پتلون کے پائینچوں کو موڑ کر اس کی کریز بنائے۔ اگر کسی کو نیا لباس درکار ہے تو سنگل بریسٹ کوٹ بنے گا اور بغیر تُرپائی کے پتلون۔ اس زمانے میں سنگل بریسٹ کوٹ غریبانہ لباس سمجھا جاتا تھا کہ اس کی سلائی سستی اور کپڑے کی کھپت کم ہوتی تھی۔ اسی مشکل زمانے میں ہندوستان کی طرف سے سر عزیزالحق سفیر ہوکر لندن پہنچے۔ بخاری صاحب انہیں ملنے گئے تو دیکھا کہ بڑے معمولی لباس میں ہائی کمشنر کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ مشورہ دیا کہ ’’حضور آپ یہاں ہندوستان کے سفیر ہیں اور آپ سے پہلے یہ عہدہ سر فیروز خان نون نے سنبھال رکھا تھا، وہ اتنے خوش لباس کہ انگریز انہیں دیکھ کر رشک کریں اور ایک آپ کہ ہندوستانی بھی دیکھیں تو خجل ہوجائیں‘‘۔ سر عزیز الحق نے بخاری کی شہرۂ آفاق چرب زبانی سے متاثر ہو کر ہامی بھر لی کہ وہ جلد ہی اچھے سوٹ سلوا لیں گے۔ اس پر ذوالفقار بخاری فوری اٹھے اورنئے سوٹوں کی اجازت لینے کے لیے وزیر امورہند لیو ایمری کے دفتر پہنچے۔ پرانے تعلق کی بنا پر وزیر نے پوری بات تو سنی لیکن معذرت کردی کہ یہ پابندی بڑی سخت ہے اور دوسرے یہ کہ ڈبل بریسٹ سوٹوں کی اجازت دینا ان کا اختیار نہیں، ہاں اگرراشن بندی کا انتظام کرنے والے وزیر خوراک لارڈ وولٹن چاہیں توایسا ہوسکتا ہے ۔ بخاری صاحب نے کہا درست لیکن یہ اجازت دیجیے کہ میں لارڈ وولٹن کو یہ کہہ سکوں کہ آپ کی طرف سے نئے کپڑوں کی اجازت دینے کی سفارش کی جاتی ہے۔ یہ سن کر لیو ایمری بغیر توقف کے بولے کہ میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ سر عزیز الحق کو بطور سفیر اچھے کپڑے پہننے چاہئیں لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انگلستان کی موجودہ حالت میں انہیں ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔ ٹکا سا جواب سن کر بھی بخاری صاحب نہ ٹلے اور لارڈ وولٹن کے پاس اجازت نامے کے سلسلے میںجا پہنچے۔ ان کے سامنے سر عزیز الحق کی بوسیدہ لباسی کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا کہ اس نے ایک ایسا اجازت نامہ دے دیا جس کی رو سے سر عزیزالحق جتنے چاہیں ڈبل بریسٹ سوٹ بنوا سکتے تھے۔ کئی دن کی تگ ودو کا حاصل یہ اجازت نامہ لے کر بخاری صاحب عزیز الحق کو لینے ان کے دفتر پہنچے کہ اب چلیں اور درزی کو ماپ دے آئیں۔ ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سفیرِ ہند بازار سے بنابنایا سنگل بریسٹ سوٹ پہنے بیٹھے ہیں۔ بخاری کی نظروں میں سوال دیکھ کر بولے ’’میں نے سوچا کہ جیسا دیس ویسا بھیس، اگر ان لوگوں کا گزارہ مشکل میں ہے تو ہمیں بھی ان کا ساتھ دینا چاہیے لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے لائے ہوئے اجازت نامے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاؤں گا‘۔ یہ سُن کر بخاری کچھ رنجیدہ ہوئے اور کہاکہ پھر اب یہ اجازت نامہ خودہی لارڈ وولٹن کو واپس کردیں ۔ اس پر کہا کہ یہ تم ہی لائے سو تم ہی واپس کرو گے، میرا اس کارروائی سے کچھ لینا دینا نہیں۔خیر یہ اجازت نامہ لے کر بخاری صاحب دوبارہ لارڈ وولٹن کے ہاں پہنچے اور سارا قصہ سنا کر معذرت چاہی۔ وزیر نے تجویز کیا کہ یہ واقعہ لکھ کر شائع کرادیا جائے تاکہ لوگوں کے لیے ان احکامات کی تلخی گوارا ہوجائے لیکن انہوں نے معذرت کرلی کے اپنے ایک ہم وطن کی درویشی اور استغنا کو وہ سیاسی پروپیگنڈے کی نذر نہیں کرسکتے۔ سادگی اور درویشی سیاسی پروپیگنڈا کیسے بنتی ہے‘ یہ بھی سن لیجیے۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں کھاریاں کے فوجی افسروں کو معلوم ہوا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان دورے پر تشریف لارہے ہیں اور ایک وقت کا کھانا بھی وہ آپ لوگوں کے ساتھ کھائیں گے۔ یہ حکم بھی ملا کہ ملک میں گندم کی قلت کے پیش نظر کھانے کی میز پر گندم کی روٹی نہیں ہوگی بلکہ مکئی کی روٹیاں فراہم کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی ایک پرچہ بھی بھیج دیا گیا جس کے مطابق مکئی کی روٹی کے اجزائے ترکیبی میں پستہ ، بادام، کاجو، چار مغز اور نجانے کیا کچھ شامل ہوگا۔ یہ بھی بتادیا گیا کہ راولپنڈی میں ایک مخصوص باورچی ہے جو صدرِپاکستان کی حسبِ منشا روٹی تیار کرتا ہے۔ اب ماتحتوں کا امتحان شروع ہوا، ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس باورچی کو کھاریاں لایا گیا، ایک خصوصی تنور تیار کرکے اسے دیا گیا، اس کا لکھوایا ہوا سامان نجانے کہاں کہاں سے بہم پہنچایا گیا اور آخر کار صدر مملکت کے لیے چند روٹیاں تیار کرکے کھانے کی میز پر چُن دی گئیں۔ ایوب خان تشریف لائے، جب کھانے کا وقت ہوا تو آپ نے چھری کانٹے کی مدد سے اس شاہکار روٹی میں سے ماچس کی ڈبیاجتنا ایک ٹکڑا کاٹ کر تناول فرمایا اور اپنی راہ لی۔ ہمیشہ کی طرح کچھ لوگوں نے ان کی ’سادگی‘ کی داد دی اور وہ چند لوگ جو واقعی خود اور اپنے ماتحتوں کو مکئی کے استعمال کا عادی بنا رہے تھے یہ سب دیکھ کر دوبارہ گندم استعمال کرنے لگے۔ حکومت نے خود بھی اپنے اقدام پر زیادہ اصرار نہیں کیا اورامریکہ سے گندم منگوانا شروع کردی۔ ریاستی نظام میں سادگی ایک ایسا خواب ہے جو دیکھتے تو عوام ہیں لیکن اس کی تعبیر حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ انگلستان والوں نے ڈبل بریسٹ کوٹ پر اپنی ضرورت کے تحت پابندی لگا کر سنگل بریسٹ کوٹ کا رواج دیا تو یہ ساری دنیا کا فیشن بن گیا اور آج پون صدی کے بعد امریکی صدر بھی سنگل بریسٹ کوٹ ہی پہننا پسند کرتا ہے۔ دوسری طرف ہمارارویہ ہے کہ ریاستی سطح پر سادگی کو نمودونمائش کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ سادگی کی ترغیب وہی دے سکتا ہے جو مقبول بھی ہو ، طاقتور بھی ہواور اپنی ذات پر اسے نافذ کرنے کا اہل بھی ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر سادگی اختیار کرنے کی ہر کوشش کسی کے طبعی رجحان کا اظہار یا گھٹیا نمائشی ہتھکنڈا تو ہو سکتی ہے، کسی خواب کی تعبیر ہرگز نہیں۔ پاکستان کے ریاستی نظام میں ایک بار پھر سادگی ، سادگی کا شور مچ رہا ہے۔اس شور میں کوئی وزیراعلیٰ ہاؤس کو زائد از ضرورت قرار دے کر اس میں داخلے سے گریزاں ہے تو کبھی یہ سنتے ہیں کہ ایوان وزیر اعظم کو کچھ سے کچھ بنانے کا معاملہ زیر غور ہے۔ کسی کو حفاظتی گاڑیوں کی تعداد ضرورت سے زائد لگتی ہے اور کسی کے خیال میں ہمارے حکمرانوں کے اللّے تللّے رُک جائیں تو ملک قرضوں سے نجات پاسکتا ہے۔ شاید یہ ساری باتیں کسی نہ کسی درجے میںدرست ہوں لیکن پاکستان کے تجربے کی روشنی میں یہ سب کچھ ناقابل عمل ہے۔ ریاستی عہدیداروں اور اہلکاروں کو سادگی پر مائل کرنے کے لیے جس طرح کے کردار کی ضرورت ہے بدقسمتی سے ہم اس سے محروم ہیں ۔ اس لیے حقیقت پسند ہو کر ہمیں اپنے تازہ وارد حکمرانوں سے یہ گزارش کرنی چاہیے کہ آپ صرف وہ کردیں جس کا آپ نے انتخابات میں وعدہ کیا تھا۔ وزرائے اعلیٰ سادگی کی مثالیں قائم کرنے کی بجائے اپنے اپنے صوبے کے نظم ونسق پر توجہ دیں، وفاقی حکومت سادگی کے بھاشن سے گریز کرتے ہوئے وسائل پیدا کرنے کے لیے کام کرے۔ ہمیں اپنے حکمرانوں کی سادگی سے زیادہ حکومتی نظام میں سادگی ،ایمانداری اور شفافیت کی ضرورت ہے۔ رہی طرز زندگی کی بات تو اتنا عرض ہے کہ سرکاری خرچ پر بھی وہی زندگی گزاریں جو آپ اپنے خرچ پر گزارتے ہیں، ہم اسی میں خوش ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved