پہلی قسط شائع ہونے پر کچھ لوگوں نے استہزائیہ انداز میں سوالات کیے کہ اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ ایک پکے اور سچے پاکستانی کی حیثیت سے ہم یہ سوچ کر دکھی ہو جاتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو ایک خراب ایمبولینس پر کیوں سوار کرایا گیا؟ ان کی گاڑی کو کراچی ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہائوس آتے ہوئے اشارے پر دیر تک کیوں اور کس بلیو بک کے تحت روکا گیا؟ وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا قتل کس نے اور کس کے کہنے پر کیا؟ حسین شہید سہروردی کی پُراسرار موت کی وجوہات کیا تھیں؟ حکیم سعید کس کا اور کیونکر نشانہ بنے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں کس نے شہید کرایا؟ کس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سکیورٹی انچارج خالد شہنشاہ کو قتل کیا؟ کس نے بلاول ہائوس کے سکیورٹی افسر شیخ صاحب کی جان لی؟ ایک طویل فہرست ہے جو ہم سب سے اپنے قاتلوں کی تلاش کا جواب مانگتی ہے۔ اس لئے میرے اس کالم کا مقصد گڑے مردے اکھاڑنا نہیں بلکہ اپنے سامنے وہ آئینہ رکھنا ہے جسے دیکھتے ہوئے ہم اتنا تو سوچ سکیں کہ قومی سربراہوں اور لیڈران کے پُراسرار قتل پر دبیز پردے ڈالنے والے اصلی ہاتھ اندرونی نہیں بلکہ بیرونی بھی ہو سکتے ہیں جو اس قدر طاقتور ہیں کہ ہر وہ تحقیقاتی فائل‘ جو قاتلوں کی جانب اشارہ کرنے لگتی ہے‘ اٹھا کر زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا؟ کبھی ہم فخر سے اپنا یومِ آزادی منا پائیں گے کہ اب پاکستان میں کسی کی مرضی نہیں‘ کسی کا حکم نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی حکمرانی کرے گی اب کوئی سامراج کا ایجنٹ نہیں بلکہ سچا پاکستانی ہی حکومت کرے گا۔
جنرل ضیاء الحق کے خیرپور ٹامیوالی میں تباہ ہونے والے پاک ون طیارے کی تباہی کی تحقیقات میں انویسٹی گیٹر پاک فضائیہ کے گروپ کیپٹن ظہیر الحسن زیدی پی اے ایف میں ہونے والے کسی بھی حادثے کے تحقیقاتی بورڈ کے سربراہ اور چیف انویسٹی گیٹر رہے۔ انہوں نے پاک فضائیہ کے طیاروں کے حادثات کی بہترین اور بے لاگ تحقیقات کیں، ان کی تیار کردہ رپورٹس ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور فنی امور پر گرفت کا منہ بولتا ثبوت ہوا کرتی تھیں۔ شاید یہی وجہ بنی کہ17 اگست 1988ء کو بہاولپور میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ ہوا تو تحقیقات کے لئے نظرِ انتخاب گروپ کیپٹن ظہیر الحسن زیدی پر ہی ٹھہری اور انہیں پاک فضائیہ کی تحقیقاتی ٹیم میں بطور انویسٹی گیٹر شامل کیا گیا۔ ونگ کمانڈر ظہیر نے 24 اگست 1995ء کوکراچی کے ہفت روزہ تکبیر کو انٹرویو دیتے ہوئے افسوس ظاہر کیا کہ سی 130 کی تباہی کے وہ سربستہ راز جو انہوں نے جسٹس شفیع الرحمن کمیشن کے سامنے پیش کیے‘ ان کا پانچ فیصد بھی ان کی شائع کردہ رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ کوئی ایسی قوت تھی جو سچ سب کے سامنے لانے سے روک رہی تھی۔
گوکہ اس المناک حادثے کو آج 32 برس گزر چکے ہیں اور پلوں کے نیچے سے اس قدر پانی بہہ جانے کے بعد کل تک ان کی شہادت سے اپنی سیا سی قوت اور مقبولیت بڑھانے والے، ان کی برسیوں اور چہلم کے نام پر لائے گئے حاضرین اسلام آباد میں ان کی قبر پر کھڑے ہو کر اپنے سیا سی مخالفین کو دکھا کر زچ کرنے والے اب یوٹرن لینے کے بعد ان کی سیا ست اور سوچ کی اسی شد و مد سے مخالفت کر رہے ہیں۔
مختلف رینکس کے فوجی افسران اور جوان اندرونی یا بیرونی سازش سے قتل کر دیے جائیں اور کوئی ان کے قاتلوں کا سراغ لگانے کی کوشش ہی نہ کرے؟ کسی آزاد اور خود مختار ریا ست اور ملک کا یہ شیوہ نہیں ہوتا۔ لاکھوں نہیں‘ بھلے کروڑوں لوگوں کو جنرل ضیاء الحق سے نفرت یا اختلافات ہوں لیکن دنیا کے کسی قانون میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ چونکہ مقتول کو قبولیت عامہ حاصل نہیں‘ اس لئے اس کے قتل کی تحقیقات کرتے ہوئے قاتلوں تک پہنچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ خفیہ قاتل جو C-130 کے المناک حادثے کا ذمہ دار ہے‘ اگر اس کو بے نقاب کر دیا جاتا تو ممکن ہے کہ وہ لوگ اور سیا سی قوتیں‘ جو کل جنرل ضیاء الحق کے حادثے پر خوشیاں مناتے ہوئے اس پر پردہ ڈالنے کا جرم کر رہی تھیں، اُسی دشمن کی سازش اور قاتل کا نشانہ نہ بنتیں۔ اس لئے آج 32برس بعد میرے اس کالم کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ملک میں ہونے والے کسی بھی قومی حادثے یا سربراہِ مملکت اور وزرا سمیت فوجی افسران کے اصل قاتلوں اور ان کے مدد گاروں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ کل کسی کو بھی ہمارے ملک پر اس طرح کا حملہ کرنے کی ہمت اور جرأت نہ ہو۔
وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کرنے کے بعد آرمی ہائوس راولپنڈی کا اگر جون 88ء سے اگست تک کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ایک سیا سی شخصیت‘ جس کا نام محمد حنیف رامے ہے‘ کی جنرل ضیاء الحق سے کئی ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا ور کچھ نہیں کہ جنرل ضیاء میاں نواز شریف کی جگہ حنیف رامے کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کرنے جا رہے تھے لیکن ان کی بیٹی زین ضیا اور اہلیہ شفیقہ ضیاء ان کے فیصلے کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو ئی تھیں جنہیں رام کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔ گروپ کیپٹن ظہیر الحسن نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کی تحقیقات پر مبنی36 صفحات کی رپورٹ میں اصل قاتلوں اور سازشیوں کی نشاندہی کر دی گئی تھی، انہیں یہ شکایت بھی رہی کہ جسٹس شفیع الرحمن کمیشن میں کسی ماہر سرجن اور فلائٹ انجینئر کا شامل نہ کیا جانا سب کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد ملک میں اعلیٰ سطح پر جو سیا سی اور انتظامی تبدیلیاں رونما ہوئیں اس نے شکوک کو اور بھی واضح کر دیا اور گروپ کیپٹن ظہیر کے مطابق ان کی اس رپورٹ پر آگے کی جانب نہ بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا گیا تھا۔ اگر ان کی یہ رپورٹ ہوبہو سامنے لائی جاتی تو اس قومی حادثے میں ملوث بہت سے پردہ نشینوں کے نام بے نقاب ہو کر سب کے سامنے آجاتے۔ایک اچھا تفتیشی یا تحقیقی افسر جیسے ہی جنرل ضیاء الحق کے طیارے کی تباہی کی تحقیقات کے لئے آگے بڑھتا تو اس نے سب سے پہلے طیارے میں سوار شخصیات اور عملے کے اراکین کی فہرست غور سے دیکھنا تھی۔ اس کی مثال اس طرح دیتا ہوں کہ بہت سال پہلے کسی انتہائی اہم شخصیت اور اس کی رہائش پر تعینات کرنے کے لئے سکیورٹی سٹاف کی ایک فہرست راقم کو تھماتے ہوئے کہا گیا کہ ان کو ملازمت کے لیٹر جاری کر دیے جائیں لیکن میں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ جب تک کسی سرکاری ادارے سے ان کی سکیورٹی کلیئرنس نہیں لی جاتی‘ انہیں انتہائی اہم ترین شخصیت کی سکیورٹی کے لئے تعینات نہیں کیا جائے گا کیونکہ بحیثیت انچارج میں اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہم اداروں کے علاوہ ان کے دوست اور ہمدرد جن میں شاہِ اردن بھی شامل تھے‘ جب انہیں ان کے سر پر منڈلانے والے خطرات سے آگاہ کر رہے تھے تو سربراہِ مملکت اور آرمی چیف کو بہاولپور لے جانے والے طیارے میں راولپنڈی سے سوار کیے جانے والے 10 افراد کو بغیر سکیورٹی کلیئرنس کیوں اور کس کے حکم پر شامل کیا گیا؟
جنرل حمید گل مرحوم سے میری جب اس موضوع پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا ہم نے اس پر سخت احتجاج کیا تھا کہ صدارتی پرواز میں ایسے دس افراد کو سوار کرایا گیا‘ ہمارے پاس جن کی سکیورٹی کلیئرنس نہیں تھی۔
گروپ کیپٹن ظہیر الحسن نے 24 اگست 1995ء کے ہفت روزہ تکبیر کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں ایک اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے جسٹس شفیع الرحمن کمیشن کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاک ون کی تباہی کی بہت سی شہا دتیں ضائع ہو گئی ہیں''اگر کوئی سچ سننا چاہتا ہے تو ہر چیز صفحہ قرطاس پر محفوظ ہے مگر اسے پڑھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل چاہئے‘‘۔