بلوچستان ہمارے ملک کا واحد صوبہ ہے‘ جہاں پہلی بار منتخب حکومت قائم ہوئی‘ تو بلوچ قیادت نے اردو کو اپنے صوبے کی سرکاری زبان قرار دے دیا۔ کسی دوسرے صوبے یا وفاق کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی۔ بلوچوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ کبھی انگریزی سرکار کی رعیت نہیں رہے۔ وہ آزادانہ قبائلی زندگی کے عادی تھے اور مقامی معاملات میں کسی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ لیکن بیوروکریسی نے جیسے جیسے انہیں‘ پاکستان کا حصہ بنانے کی کوشش میں انگریز کا چھوڑا ہوا غلامانہ نظام مسلط کرنے کی کوشش کی‘ بلوچوں کی مزاحمت بڑھتی گئی اور اسلام آباد کے حکمرانوں نے اس فطری ردعمل کو سمجھنے اور اس کا حل نکالنے پر توجہ دینے کے بجائے‘ لاٹھی گولی کا استعمال شروع کر دیا اور صدیوں سے جنگیں لڑنے کے عادی آزاد بلوچ‘ باربار پہاڑوں پر جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے لگے اور اپنی مقامی آزادیوں کے لئے مزاحمت پر اتر آئے۔ اسلام آباد کے حکمرانوں نے اس مزاحمت کو تاریخی پس منظر میں سمجھنے کی بجائے سازشی تھیوریوں کی بنیاد پر اپنا ردعمل مرتب کیا اور یہ کشمکش آج تک جاری ہے۔ بلوچ عوام کے سرداروں کی اکثریت انگریزوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے کام چلانے کی خوگر تھی۔ اس طرح سردار اور اسلام آباد کے حکمران‘ ایک دوسرے کے ساتھ چلنے میںآسانی محسوس کرتے رہے۔ یہ آسانی آخر کار دونوں کو بلوچ عوام سے دور کرتی گئی۔ بلوچ سرداروں نے اسلام آباد کا تحفظ لے کر‘ اپنے عوام کے وسائل کو لوٹا اور حکمرانوں نے ان کے ذریعے بلوچستان پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش کی اور پھر نوبت یہاں تک آئی کہ انہیں خود اپنی فوج کو میدان میں اتارنا پڑا۔ اصل تضاد کسی نے نہ سمجھا۔ مقامی اور اسلام آباد کے حکمران طبقوں کے باہمی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں‘ عموماً سرداروں نے حکومت کی اور طریقہ کار یہ رہا جو کچھ اسلام آباد سے بلوچ عوام کے لئے آتا‘ چند سرداروں پر مشتمل کابینہ اسے مال غنیمت کی طرح آپس میں بانٹ لیتی اور عوام پہلے سے بھی زیادہ غریب اور مفلوک الحال ہوتے چلے گئے۔ گزشتہ 15 برس سے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان سیاست میں حصہ لینے لگے۔ کچھ انتہاپسندی کی طرف چلے گئے اور کچھ قومی سیاست میں اپنا وجود منوانے کی کوشش میں لگے رہے۔ نوجوانوں پر مشتمل نئی قیادت ‘ اسلام آباد کے ساتھ رابطوں اور مکالمے کے ذریعے آگے بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ سردار اختر مینگل اپنے باغی والد کے اختیار کردہ راستے کو چھوڑ کر‘ مذاکرات اور رابطوں کی سیاست کے قائل ہونے لگے۔ ہرچندان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوامگر ان کی امیدیں زندہ رہیں۔ آج بھی انہیں شکایت ہے کہ انتخابی نتائج مرتب کرتے ہوئے انہیں کامیابی سے محروم رکھا گیا۔ وہ احتجاج کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ لیکن نئی منتخب حکومت کو غیرمستحکم کرنے سے گریزاں ہیں۔ موجودہ اسمبلی میں آج سے ربع صدی پہلے کی نوجوان قیادت اور اس کے بعد ابھرنے والے نوجوان کارکن ‘ اسلام آباد کی نوکرشاہی اور مقامی سرداری نظام‘ دونوں کے غلبے سے نکل کر اپنی علیحدہ سیاسی حیثیت بنانے لگے۔ موجودہ اسمبلی میں بھی سرداروں کی کمی نہیں مگر اب ان کے پاس وہ سیاسی طاقت نہیں رہ گئی جو حاصل بزنجو‘ محمود خان اچکزئی‘ اختر مینگل‘ ڈاکٹر عبدالمالک اور ان جیسے نئی نسل کے سیاستدانوں نے حاصل کر لی ہے۔ سیاست میں ان کا کردار اپنے عوام کے سامنے ہے اور اسلام آباد کے حکمران بھی انہیں خوب جانچ اور پرکھ چکے ہیں کہ ان پرعلیحدگی پسندی کا جو الزام لگایا جاتا تھا‘ اس میں کوئی وزن نہیں تھا۔ ان کی حب الوطنی ہر طرح کے امتحانوں اور آزمائشوں پر پوری اتر چکی ہے۔ دیگر پاکستانیوں کو حب الوطنی کے وہ ثبوت نہیں دینا پڑے‘ جو بلوچستان کی نئی سیاسی قیادت کو دینا پڑے ہیں۔ اسی سیاسی قیادت کا عمل اور کردار ہے ‘ جس نے قومی سیاستدانوں کو بھی متاثر کیا۔ نوازشریف ان میں نمایاں ہیں۔اقتدار کے وسیع تجربے اور سیاسی آزمائشوں کی بھٹی سے‘ کندن بن کر نکلنے والے‘ نوازشریف اب ایک مختلف اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ اگر وہ اپنے گردوپیش کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر اسی طرح فیصلے کرتے رہے‘ جیسے کہ انہوں نے بلوچستان میں کیا یا اپنی مخالف سیاسی پارٹی کے سربراہ کے ساتھ جو کہ صدرمملکت ہیں‘ تعلقات کار کی ابتدا کی۔ ایسے مدبرانہ فیصلوں کو عموماً قریبی مشیروں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیر تک پذیرائی نہیں ملا کرتی۔ مگر نوازشریف پر بھی یقین رکھنا چاہیے کہ جو پختگی انہوں نے قربانیاں دے کر حاصل کی ہے‘ اسے مصاحبوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہونے دیں گے۔ اس وقت تو بلوچستان کا موضوع زیربحث ہے اور وہاں حکومت سازی کے عمل میں‘ انہوں نے جو قائدانہ ہی نہیں مدبرانہ کردار ادا کیا ہے‘ اس پر قوم انہیں مدتوں خراج تحسین پیش کرے گی۔ ان کے تاریخ ساز فیصلے کی عکاسی وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی اس تقریر میں ہوتی ہے‘ جو انہوں نے بطور وزیراعلیٰ پہلی مرتبہ ایوان کے اندر کی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے الفاظ بار بار دہرائوں۔ انہوں نے کہا ’’صوبے کے حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اگر ہماری بات نہ مانی گئی‘ تو ہم فٹ پاتھ سے آئے ہیں اور فٹ پاتھ پر واپس چلے جائیں گے۔ سیکرٹ و صوابدیدی فنڈ مکمل طور پر بند کر رہا ہوں۔ یہ فنڈ کرپشن کا سرچشمہ ہیں۔ صوبے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور مسلح تنظیمیں آ کر بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالیں۔ اگر وفاقی حکومت اور عسکری تنظیموں نے مدد کی‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل نہ ہو سکے۔ نوازشریف اور فوج نے مدد کی تو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تمام اراکین اسمبلی‘ ناراض بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات کے لئے جائیں گے اور امن کے لئے ان کی مدد مانگیں گے۔‘‘ اپنے صوبے کی حالت زار انہوں نے یوں بیان کی ’’صوبے کے 30 میں سے 29 اضلاع کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کو صحت‘ تعلیم ‘ پینے کا پانی اور امن فراہم کرنا ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اگر ارکان اسمبلی یہ عہد کریں کہ ہم کسی غیر حاضر ٹیچر یا ڈاکٹر کی سفارش نہیں کریں گے‘ تو میں یہ دعوے سے کہتا ہوں کہ وہ سکول اور ہسپتال میں ضرور حاضر ہوں گے۔ گوادر اور پسنی میں زمینوں کی جو بندربانٹ ہوئی ہے‘ اس کی ایک ایک انچ زمین کا حساب عوام کے سامنے لایا جائے گا۔ صوبے میں لاپتہ افراد‘ مسخ شدہ لاشیں‘ ٹارگٹ کلنگ‘ مذہبی تعصبات‘ اغوا برائے تاوان اور نقل مکانی وہ مسائل ہیں‘ جو میرے نزدیک کوہ ہمالیہ سے بھی بڑے ہیں۔ میں غریب آدمی ہوں۔ایک دن یا پانچ سال۔جتنا وقت بھی وزیراعلیٰ رہا‘ عزت کے ساتھ رہوں گا۔ وہ کام کبھی نہیں کروں گا جو پاکستان یا اسلام آباد میں ہماری بے عزتی کا باعث بنے۔ کرپشن بہت ہو چکی۔ اب اسے مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ میں اپنے گھر سے احتساب اور تبدیلی کا آغاز کرتا ہوں۔ وزیراعلیٰ ہائوس کی تمام سہولیات پر کٹ لگائیں گے۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کریں گے۔ سکیورٹی کے بغیر کوئی وی آئی پی پروٹوکول حاصل نہیں کروں گا۔ وی آئی پی پروٹوکول کے نام پر جب سڑکیں بند ہو جاتی ہیں تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ ‘‘ یہ باتیں ہم نے اپوزیشن لیڈروں سے تو سنی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اقتدار اعلیٰ پر فائز ہونے والے کسی صوبائی یا قومی لیڈر کے منہ سے یہ باتیں سننے میں آئی ہوں۔ کاش!کوئی وزیراعظم یا کوئی دوسرا وزیراعلیٰ‘ منتخب ایوان اور اپنے عوام کے سامنے اسی دھڑلے کے ساتھ اس طرح کی باتیں کہے اور ان پر عمل بھی کر کے دکھائے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کے لہجے کا اعتماد بتا رہا تھا کہ جو وہ کہہ رہے ہیں خلوص دل سے کریں گے اور اگر ان کا ہاتھ روکا گیا‘ تو وہ بے مقصد اقتدار کو چھوڑ دینا پسند کریں گے۔ اصل مسئلہ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتا دیا ہے۔ ایک طرف انہوں نے مسلح تنظیموں سے تعاون کی اپیل کی ہے اور دوسری طرف نوازشریف اور فوج سے کہا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ بلوچستان میں ہونے والی یہی کشمکش ہے‘ جس کی وجہ سے وہاں امن قائم نہیں ہو پا رہا۔ کسی سیاستدان کے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہوتی۔ اس کا ہنر یہی ہوتا ہے کہ وہ متحارب اور متصادم قوتوں کے درمیان‘ بات چیت کی راہیں پیدا کرے اور پھر باہمی مفادات کی ہم آہنگی کو ابھار کے بروئے کار لاتے ہوئے‘ انہیں سمجھوتے تک پہنچائے۔ انہوں نے اپنی نازک پوزیشن کی نشاندہی کر دی ہے اور بتادیا ہے کہ ان کا واسطہ مزاحمت کاروں‘ پاک فوج اور قومی سیاستدانوں سے ہے۔ وہ ان تینوں کی مدد سے امن کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ ورنہ اپنی کرسی چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے۔ پہلی بار صوبائی انتظامیہ کے کسی سربراہ نے ایسی کھری کھری باتیں کی ہیں۔ امید کرنا چاہیے کہ آگے چل کر دوسروں سے بھی اسی طرح کی باتیں سننے کو ملیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved