تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     22-08-2020

لحاظ کاہے کا؟

یہ جو ایک پیج کی کہانی ہمیں سنائی جاتی ہے اس کا فائدہ تو تب ہی ہے کہ سخت فیصلے لیے جا سکیں۔ اگر ایسا نہیں ہونا اور وہی ڈھیلی ڈھالی چال رہنی ہے تو ہماری بلا سے کہ ایک پیج ہے یا طاقت کے سرچشمے چالیس صفحات پہ منتشر ہیں۔
جو احتساب کے نام پہ ہورہا ہے وہ کم ازکم ہماری ناقص سمجھوں سے بالاتر ہے۔ قانون کی موشگافیوں کی نگاہ سے کچھ ثابت ہو سکے یا نہیں اس بدنصیب قوم کے فرزندوں کو بخوبی علم ہے کہ ملک میں دہائیوں سے صرف کرپشن نہیں ہوئی وسیع پیمانے پہ لوٹ مار ہوئی ہے‘ اور اس کے مرتکب کون ہوئے ہیں ان کے بارے میں بھی جاننے والے بخوبی جانتے ہیں۔ حیرانی اس بات پہ ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ پتا ہونے کے باوجود ہوتا ہواتا کچھ نہیں۔ بڑے بڑے مگرمچھوں پہ الزامات لگتے ہیں، مقدمات بھی بنتے ہیں، پیشیاں ہوتی ہیں، لیکن نکلتا کچھ نہیں۔ ریمانڈ اگر لیے بھی جائیں تو ختم ہو جاتے ہیں نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ یعنی مقدمات کو جس منطقی نتیجے پہ پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچ پاتے۔ اس کا مطلب ہے کہ یا تو احتساب کرنے والے پرلے درجے کے نکمیّ ہیں یا احتساب قانون میں ایسے بڑے سوراخ ہیں کہ ملزمان آخرکار بچ جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک پیج سے ہم کیا کریں؟ اس ایک پیج کو ہم کس بھاؤ بیچیں؟
اگلے روز ہمارے دوست رؤف کلاسرا نے ترکش کمپنی 'کارکے‘ کے ساتھ جو رینٹل پاور معاہدہ ہوا تھا‘ اس کے بارے میں ہوشربا انکشافات کیے۔ تفصیل پڑھیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ معاہدہ کیسے کیا گیا، ترکش کمپنی کو کیا کیا ناجائز فوائد پہنچائے گئے، اور پاکستان کے بدبخت خزانے کو کیسے لوٹا گیا‘ ساری تفصیلات کلاسرا کے مضمون میں ہیں، انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن مشتبہ افراد کی نشاندہی کی گئی ہے وہ کسی رعایت کے مستحق بنتے ہیں؟ یہ تو ہم شکر ادا کریں اپنے اداروں کا جنہوں نے کارکے کے بارے میں کھوج کی اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ کمپنی کرپشن اور رشوت ستانی کی مرتکب رہی ہے‘ نہیں تو جو بین الاقوامی مقدمہ ریاستِ پاکستان کے خلاف چل رہا تھا اس میں ہماری گردن پھنس جاتی اور پاکستان کو بھاری معاوضہ دینا پڑتا۔ جرمانے سے تو ہم بچ گئے لیکن جو افراد اس ڈرامے میں ملوث تھے کیا انہیں بچ جانا چاہیے؟ انصاف کے تقاضوں کا ذرا سا شائبہ بھی اس مملکت میں موجود ہو تو اِن تمام افراد کی جائیدادیں ضبط ہونی چاہئیں اور انہیں لمبے عرصوں کیلئے پابندِ سلاسل ہونا چاہیے۔ بیشک قانون دان اور نام نہاد ہیومن رائٹس کے چیمپئن کہیں گے کہ ایسی سزائیں تو تب ملیں جب قانون کے تقاضے پورے ہوں۔ یہی تو المیہ ہے، کسی لاوارث کے خلاف قانون کے تقاضے حرکت میں آنے میں کوئی دیر ہی نہیں لگاتے۔ بڑے اور طاقتور ہاتھ ہوں تو قانون کے تقاضے یکسر فالج زدہ ہوجاتے ہیں۔ قوانین تو ہمارے سب ٹھیک ہیں، بس ان پر عملدرآمد ہونے کیلئے کچھ پرابلم پیدا ہوجاتے ہیں۔ 
سیاسی مفاہمت کا ایک عجیب رونا اس ملک میں رویا جاتاہے۔ درد بھری آوازوں میں کہاجاتا ہے کہ بڑے سے بڑے ملزمان کے خلاف آپ کچھ نہ کریں اور قانون حرکت میں آئے تو کسی نتیجے پہ پہنچے سے پہلے وہ رک جائے۔ عجیب عجیب آوازیں اٹھتی ہیں کہ ملک کے پتا نہیں کون سے مفاد کی خاطر احتساب کا عمل بند ہونا چاہیے اور مفاہمت کی راہیں کھل جانی چاہئیں۔ مطلب یہ نکلا کہ تمام چور اور ڈکیت مکمل آزاد رہیں، اِن کو کچھ نہ کہا جائے۔ پاکستانی مفاہمت کا مطلب یہی نکلتا ہے۔ نہ آپ اومنی گروپوں کو کچھ کہیں نہ رمضان شوگر مل والوں کو۔ جو ہوا سو ہوا، چوہدری شجاعت حسین کے لافانی الفاظ میں اُس پہ مٹی پاؤ۔ تاریخِ پاکستان میں بڑے سے بڑے جرم کے ساتھ ہم نے یہی کیا‘ کہ ہم مٹی ہی ڈالتے رہے۔ اور اگر عہدِ ایک پیج میں بھی یہی کچھ ہونا ہے تو اِس ایک پیج کا کیا فائدہ؟ 
بنیادی اعتراض عمران خان صاحب پہ یہی بنتا ہے کہ تمام تر معاونت کے باوجود آپ کرکیا رہے ہیں۔ بڑے فیصلے آپ سے ہوتے کیوں نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو سارے ایک پیج پہ ہیں وہ ایسے فیصلے نہ چاہتے ہوں۔ ایسے میں حقِ حکمرانی تب ہی ادا ہوتا ہے کہ آپ اپنے معاونین کو قائل کرسکیں کہ پاکستان کو سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے کچھ نادان سمجھ رہے تھے کہ عمران خان صاحب کے اقتدار میں آتے ہی ایسے جھٹکے لگیں گے کہ زمین لرز جائے گی۔ نعرے بہت لگے، باتیں بہت ہوئیں، لیکن زمین ہلنے والی بات قطعاً نہ ہوئی۔ نئے آنے والوں کے سامنے ایک بہت بڑا موقع تھا، اُسے وہ گنوا بیٹھے۔ شاید اُن کی سوچ پہ رسیاں کَسی ہوئی تھیں یا اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ جو بھی تھا موقع ہاتھ سے گیا۔ تمام کے تمام مگرمچھ پیشیاں بھگت رہے ہوں گے لیکن اصل میں اُن کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا۔ ہونا تو تب تھا کہ کرپشن کے زمرے میں آئی ہوئی جائیدادیں بحقِ سرکار ضبط ہوتیں۔ اس سے ہٹ کر سب باتیں ہی ہیں اور باتوں کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ میڈم نور جہاں نے وہ کیا کہا تھا سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد اقبال کے بارے میں کہ سردار صاحب بہت اچھے آدمی ہیں، بہت اچھی باتیں کرتے ہیں، بس باتیں ہی کرتے رہتے ہیں؟
ترکش کمپنی کارکے کے ساتھ رینٹل پاور معاہدہ تو صرف ایک مثال ہے۔ نہیں تو ایسے کارناموں کی فہرست بنے تو بہت لمبی ہو جائے۔ قائم تو ایک ٹریبونل کو ہونا چاہیے تھا جس میں قانون کے روزمرہ کے طریقہ کار معطل ہوتے اور نامور قانون دانوں کو ایک حد سے زیادہ بولنے کی اجازت نہ ہوتی۔ فیصلے بیک جنبشِ قلم ہوتے اور جن پر الزامات لگتے ہیں اور جن کی کرپشن کے بارے میں ذکر زبان زدِ عام ہے وہ اُس ٹریبونل کے سامنے لائے جاتے اور فیصلے اُسی شام نہیں تو دو تین روز میں ہو جاتے اور تمام کی تمام جائیدادیں ضبط ہوتیں۔ کم از کم ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو ایک نظامِ انصاف اس قسم کا چاہیے۔ یہاں ہنگامی صورتحال اورکیا ہو سکتی ہے؟ ملک لٹ گیا، نالائقی اور لوٹ مار کی وجہ سے دیوالیہ پن کی نہج تک پہنچ گیا‘ اور اچنبھا یہ کہ جو بڑے ہاتھ اس لوٹ مار میں ملوث ہوں ان کے ساتھ کچھ نہ ہو۔ اگر یہی ہونا تھا تو ہم ایک پیج کے بغیر ہی اچھے تھے۔ اومنی والے بھی دندناتے پھر رہے ہیں، رمضان شوگر مل والوں کے ساتھ بھی حقیقی معنوں میں کچھ نہیں ہو رہا۔ جائیدادیں‘ جو اس تاریخی لوٹ مار کا ثمر ہیں‘ جوں کی توں قائم ہیں۔ تو پھر آپ ایک پیج پر لکھتے رہیے، قوم نے اس تحریر سے کیا کرنا ہے؟
یحییٰ خان اقتدار میں آئے تو دکھاوے کیلئے ہی سہی ایک لمبی فہرست افسرشاہی کی بنی جنہیں ایک جھٹکے سے سروس سے فارغ کردیا گیا۔ مقصد دکھاوا ہی ہوگا لیکن ایک خوف کی لہر افسرشاہی میں دوڑ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی ایک ایسی لسٹ بنائی اور نوکر شاہی کے لوگوں کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ وہاں بھی مقصد دکھاوا ہوگا لیکن اُس کا اثر پڑا۔ بیوروکریٹ ڈر گئے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ عمران خان کے آنے سے کون ڈرا؟ اِن کے دورِ اقتدار میں تو افسر شاہی بالکل بے دھڑک ہو گئی ہے، کسی چیز کا ڈر ہی نہیں رہا۔ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ دندناتا پھر رہا ہے، کیا سیاستدان کیا بڑے افسران۔ سوال پھر وہی اُٹھتا ہے کہ ایسے میں اِس ایک پیج والے صفحے سے روشندانوں کے کون سے شیشے ہم صاف کریں؟
ایک خاص طبقہ شور مچا رہا ہے کہ احتساب کا عمل بہت ظالمانہ ہے۔ اگر یہ ظلم ہے تو نکماّ پن اور ڈھیلا پن کس بلا کا نام ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved