اپوزیشن کے پروپیگنڈے کو عوامی
طاقت سے ناکام بنائیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کے پروپیگنڈے کو عوامی طاقت سے ناکام بنائیں گے‘‘ کیونکہ عوام نے اب تک ہمیں اگر برداشت کر لیا ہے تو اپنی طاقت سے اپوزیشن کے پروپیگنڈے کو بھی ناکام بنا سکتے ہیں جبکہ تازہ ترین پروپیگنڈے کے مطابق دوستوں کو ٹھیکے دینے پر بھی خاکسار سے پوچھ گچھ کا عندیہ ملا ہے۔ جس کا جواب پہلے تو میں یہی دوں گا کہ مجھے کچھ پتا نہیں اور دوسری پیشی پر یہ پوچھوں گا کہ ٹھیکے اگر دوستوں کو نہیں تو کیا دشمنوں کو دیے جائیں؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو یہ قانون منظور کیا جائے کہ ٹھیکے صرف دشمنوں کو دیے جائیں۔ آپ اگلے روز چیئر مین سینیٹ سے ان کے چیمبر میں ملاقات کر رہے تھے۔
مفاد پرستی، کرپشن کی سیاست آخری
سسکیاں لے رہی ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''مفاد پرستی، کرپشن کی سیاست آخری سسکیاں لے رہی ہے‘‘ اور یہ سسکیاں کئی سال تک بھی طول کھینچ سکتی ہیں جس کے لیے انہیں تیار رہنا چاہیے جبکہ ان کے لیے یہ عذاب ہی کافی ہے کہ وہ آئندہ سسکیاں ہی لیتی رہے کیونکہ سسکیاں آخری ہچکیاں نہیں ہوتیں جس کے ساتھ ہی بولو رام ہو جاتا ہے، اس لیے آئندہ یہ عناصر سسکیاں لیتے رہیں گے اور ہم حکومت کرتے رہیں گے۔ اور انہیں دیکھ دیکھ کر تجربہ بھی حاصل ہوتا رہے گا کیونکہ وہ کسی وقت ہمارے بھی کام آ سکتا ہے اور ہم بھی آرام آرام سے سسکیاں لے سکیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وفاقی وزراء کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے۔
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
احمد ندیم قاسمی صاحب جب ''امروز‘‘ کے ایڈیٹر تھے تو اس کے سنڈے ایڈیشن میں میری غزلیں بھی شائع کیا کرتے تھے۔ انہوں نے رسالہ ''فنون‘‘ کا اجرا کرتے ہوئے مجھے خط لکھا کہ پرچے کے لیے آپ کا تازہ کلام درکار ہے اور چونکہ آپ کی اٹھان میں میرا بھی ہاتھ ہے‘ امید ہے کہ آپ مایوس نہیں کریں گے۔ افضل صاحب جن کا چیمبر میرے ساتھ ملحق تھا، وہ خط انہوں نے بھی دیکھ لیا اور یہ کہہ کر مجھے چھیڑا کرتے کہ اچھا، آپ کی اُٹھان میں قاسمی صاحب کا ہاتھ ہے! وہ جہلم کے تھے اور انہی دنوں وہاں واپس چلے گئے۔ خدا کرے حیات ہوں!
میرے ایک مرحوم دوست جب اوکاڑہ میں ایک اعلیٰ عہدے پر تعینات تھے تو پیسے وغیرہ لے لیا کرتے تھے، لیکن جب کچھ عرصہ بعد ڈسٹرکٹ و سیشن جج ہو کر آئے تو پیسے لینا چھوڑ چکے تھے، حج بھی کر آئے تھے۔ انہی دنوں ایڈیشنل سیشن جج، ملک صاحب (پورا نام یاد نہیں رہا)کا تبادلہ فیصل آباد ہوا تو بار کی طرف سے انہیں الوداعی ڈنر دیا گیا۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک صاحب تو پیدائشی ایماندار ہیں‘ ان کی تو بات ہی چھوڑئیے، کمال تو فیاض صاحب کا ہے جو ہمارے سامنے ایماندار ہوئے ہیں!
میرے ساتھ ان کی چھیڑ چھاڑ رہتی تھی۔ ہم نئے کمپلیکس میں شفٹ ہوئے تو میں نے ابھی اپنا چیمبر بنانے کا تردّد نہیں کیا تھا۔ ڈسٹرکٹ جج کی عدالت سے متّصل ایک کمرہ خالی تھا، میں نے ان سے کہہ کر اسے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس میں پنکھا نہیں تھا۔ میری درخواست پر جج صاحب نے وہاں پنکھا بھی لگوا دیا۔ چور اس کمرے کا دروازہ بھی اکھاڑ کر لے گئے تھے۔ میں نے نئے دروازے کے لیے جج صاحب سے فرمائش کی تو وہ بولے: آپ شام کو آ جائیں، ایک چادر ساتھ لیتے آئیں، ہم گول چوک والی مسجد میں جائیں گے۔ چادر ایک طرف سے آپ پکڑنا اور دوسری طرف سے میں۔ اس طرح دروازے جوگے پیسے تو اکٹھے ہو ہی جائیں گے۔ یہ ایک طرح سے انہوں نے مجھ سے بدلہ لیا تھا۔
مسجد اگرچہ ان کے گھر کے نزدیک ہی تھی لیکن وہ نماز پڑھنے کے لیے کار پر ہی جایا کرتے۔ اس پر میں نے کہا کہ معلوم نہیں آپ کو نماز کا ثواب ملنا ہے یا نہیں۔ یہ مسجد تک قدموں کا ثواب آپ خود ضائع کر دیتے ہیں! (فوت ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں)۔
ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کہیں سے تبدیل ہو کر آئے۔ پہلے دن جب ہمارے ایک کولیگ چوہدری عبدالرحمن کسی کیس میں پیش ہوئے تو انہوں نے وکیل صاحب سے ان کا نام پوچھا تو انہوں نے کہا: میرا نام عبدالرررحمن ہے۔ انہوں نے جج صاحب سے پوچھا: آپ کا اسمِ گرامی؟ تو جج صاحب بولے: نام تو میرا بھی عبدالرحمن ہے لیکن میرے نام میں اتنا ہُررر نہیں ہے۔ تب سے ہم انہیں ہُررر کہہ کر چھیڑا کرتے ہیں۔
مسز روز ویلٹ
مسز روز ویلٹ ایک بار کسی کے انتظار میں کہیں سڑک کے کنارے کھڑی تھیں کہ ایک راہگیر نے انہیں پہچان لیا اور انہیں سہارا دے کر سڑک پار کرا دی اور اپنی راہ لی۔ مسز روز ویلٹ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جاتے ہوئے اسے دیکھتی رہیں، جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو وہیں جا کھڑی ہو گئیں جہاں سے انہیں سڑک پار کرائی گئی تھی!
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل:
چھوڑا ہوا ہے آپ نے جو دھیان ہمارا
ہے تب سے ہی اللہ نگہبان ہمارا
ویسی ہی فضائیں ہیں تو ویسے ہی مناظر
ہوتا ہی نہیں خواب پریشان ہمارا
ہم چل تو پڑے ہیں کسی بے نام سفر پر
اب آ کے اٹھائے کوئی سامان ہمارا
لو آج زیارت ہوئی ہے پھر کسی بُت کی
تازہ ہوا ہے آج پھر ایمان ہمارا
اُس کو تو گئے ایک زمانہ ہوا، لیکن
خوشبو سے بھرا رہتا ہے دالان ہمارا
لگتا ہے کہ وحشت میں کمی ہے کوئی یکسر
اب تک جو سلامت ہے گریبان ہمارا
کھلنے لگے ہیں پھُول مضافات میں ہر سُو
اور، شہر ہُوا جاتا ہے ویران ہمارا
رکھّی ہوئی ہے ایک زمانے سے بنا کر
بھرتا ہے کوئی اور ہی تاوان ہمارا
کچھ شامتِ اعمال ہی تھی راہ میں، ورنہ
ہونے کو، ظفرؔ، کام تھا آسان ہمارا
آج کا مطلع
اس کی ہر طرزِ تغافل پہ نظر رکھتی ہے
آنکھ ہے دل تو نہیں‘ ساری خبر رکھتی ہے