اس دہائی کے چند حیران کن فیصلوں میں سے ایک فیصلہ چابہار‘ زاہدان ریلوے منصوبے اور چابہار بندر گاہ سے بھارت کی رخصتی ہے۔ یہ فیصلے دفاعی، تجارتی اور سٹرٹیجک طور پر اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں کی پریشانیاں کم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ ابھی تو بھارت کا وہ نشہ ہی نہیں اتر رہا تھا جب اس نے ایران اور افغانستان کے ساتھ چابہار بندر گاہ کی مزید ترقی کے لئے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کرکے بیرونی دنیا اور سینٹرل ایشیا میں اس بندرگاہ کی آڑ میں ''اپنا تجارتی کوریڈور‘‘ کھولا تھا۔ جب یہ معاہدہ کیا جانے والا تھا تو اس وقت پاکستان سمیت بہت سے دوست ممالک نے ایران کو بھارت کے دامِ فریب میں نہ آنے کی بار بار تلقین کی۔ ایران فوری طور پر شاید سمجھ نہ سکا لیکن بالآخر ایک دن احساس ہونا ہی تھا کہ وہ بھارت جیسے زہریلے سانپ کو دودھ پلا کر سخت غلطی کر رہا ہے۔
بھارت نے 2014ء میں چابہار میں اپنے قدم جمائے اور پھر مئی 2015ء کے پہلے ہفتے میں بھارت اور ایران نے خلیج عمان پر واقع چابہار بندرگاہ کی ترقی اور بھارتی کمپنیوں کے ذریعے دو نئی برتھوں کی تعمیر کے منصوبے پر دستخط کئے تاکہ اسے بڑے بڑے کنٹینروں اور دوسرے وسیع مقاصد کیلئے کارگو ٹرمینلز کے طور پر استعمال میں لایا جا سکے۔ اصل میں فوجی نقل و حمل کے علاوہ امریکی رضامندی سے یہ بھارت‘ ایران اور افغانستان کے درمیان فری ٹریڈ روٹ کو استعمال میں لانے کی پہلی کوشش تھی۔
ایران میں اُس وقت کی قیادت کو اپنے بھرپور دام میں لانے کے لئے بھارت نے 2014ء میں 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے کام کا آغاز کیا اور مئی‘ جون اور جولائی میں 1650 ملین ڈالر تیل کی ایران کو اس وقت ادائیگیاں کیں جب امریکہ سمیت اقوام متحدہ کی جانب سے ایران سے لین دین پر سخت پابندیاں عائد تھیں لیکن یہ سب کچھ چونکہ پس پردہ امریکی ہدایات پر ہو رہا تھا اس لئے اقوام متحدہ سمیت سب نے بھارت کی طرف سے آنکھیں اور زبانیں بند رکھیں۔ چابہار کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بمشکل ایک ماہ بعد امریکہ اور بھارت کے درمیان انڈیا امریکہ ڈیفنس سٹرٹیجک پیکٹ پر دستخط ہو گئے جسے LEMOA یعنی Logistics Exchange Agreementکا نام دیا گیا۔
امریکہ بھارت کو یہ اشارہ بھی کر چکا تھا کہ وہ ایران‘ افغانستان بارڈر کے ساتھ ریلوے لائن بچھائے تاکہ اس کی افغانستان کے ساتھ تجارت شروع ہو جائے، یہاں پر برادر ملک ایران کا ماتھا ٹھنکا اور وہ بھارت اور امریکہ کے نت نئے دفاعی معاہدوں سے خائف ہونے لگا۔ اسے بھارت کے در پردہ عزائم‘ جو وہ چابہار اور ریلوے ٹریک سے حاصل کرنا چاہتا تھا‘ سے آگاہی ہو گئی۔ چابہار کے ایرانی منصوبے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جیسے ہی چین نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل کر گوادر پورٹ پر کام شروع کیا تو 2003ء میں اس وقت کے ایرانی صدر خاتمی اور بھارتی وزیراعظم واجپائی نے چابہار کی تعمیر اور توسیع کے کام کا ہنگامی طور پر آغاز کر دیا تھا لیکن اس پر اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے کام کی رفتار کچھ کم رکھی گئی لیکن جیسے ہی مشرف حکومت نے سنکیانگ سے گوادر بندرگاہ کے راہداری منصوبے‘ جسے آج سی پیک (CPEC) کا نام دیا گیا ہے‘ پر کام کا آغاز کیا تو بھارت نے اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کے با وجود چابہار کی تعمیر پر تیز رفتاری سے کام شروع کر دیا اور 2014ء میں بھارت نے چابہار کے اس منصوبے کے لئے ایران کو مزید 85 ملین ڈالر ادا کرنے کی منظوری دی۔ بھارت کے زیر نگرانی رہنے والی ایران کی چابہار بندر گاہ کی حدود پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے زیادہ دوری پر نہیں‘ جس کی تعمیر کی تمام ذمہ داری چینی حکومت کے سپرد ہے اور جو بھارت اور امریکہ کو شروع دن سے نجانے کیوں کھٹک رہی تھی۔
یہ کہتے ہوئے ذرا سی بھی کوئی باک نہیں کہ چابہار بندرگاہ منصوبہ دراصل بھارت کو پاکستان کی سالمیت پر حملہ کرنے کے لئے ایک نیا محاذ دینے کے مترادف تھا اور جنگ کی صورت میں بھارت خلیج ہرمز میں واقع پاکستان کی اس بندرگاہ پر حملہ آور ہونے کے لئے جنگی مشقوں کا آغاز بھی کر چکا تھا۔ کوئی بیوقوف ہی ہو گا جو یہ کہے کہ چابہار کا منصوبہ امریکی منظوری کے بغیر مکمل کیا جا رہا تھا۔ پاکستان نے جب انتہائی اعلیٰ سطح پر ایرانی حکومت سے درخواست کی کہ بھارت سے بھی کم تر شرائط پر چین اور پاکستان مشترکہ طور پر چابہار بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کے لئے ایران کے مجوزہ منصوبے کے عین مطابق کام کرنے کے لئے تیار ہیں تو اس وقت برادر ملک کا اس پیشکش پر صاف انکار کرتے ہوئے چابہار کو بھارت کے لئے وقف کر دینا سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ممکن ہے کہ اس حوالے سے کچھ امریکہ نواز دوست درپردہ کام کر رہے ہوں اور دونوں جانب ابہام پھیلا رہے ہوں۔
چابہار بندرگاہ کی توسیع اور تعمیر و ترقی کے ذریعے بھارت کو پاکستان کی حدود استعمال کئے بغیر افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک رسائی حاصل ہو رہی تھی۔ ایران کی پہلے سے بنائی گئی شاہراہوں کی بدولت چابہار کا افغانستان میں زرنج سے رابطہ کیا جا رہا تھا پھر وہاں سے افغانستان کے اپنے روڈ سسٹم کے ذریعے زرنج اور دیلارام شاہراہ کو آپس میں لنک کرنا تھا جسے2009ء میں اسی مقصد کے لئے بھارت نے تیار کیا تھا۔ایک جانب چابہار بندرگاہ سے بھارت کو اپنی ضروریات اور مقاصد کے لئے ایک ایسا محفوظ اور متبادل راستہ مل رہا تھا جس سے اس کے اخراجات میں بے حد کمی واقع ہو رہی تھی تو وہیں پر اسے مغربی جانب سے خلیج ہرمز کے دہانے پر اور پاکستان کی اہم ترین بندرگاہ گوادرکے مشرق تک رسائی مل رہی تھی‘ یہ ہے وہ صورتحال جس نے میرے جیسے تمام پاکستانیوں کوچابہار میں بھارتی کنٹرول پر پریشان کر رکھا تھا اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے تھے کہ برادر ملک اس حد تک جا نے کی کوشش کیوں کر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں دونوں ممالک میں پائے جانے والی چند غلط فہمیوں کا ہاتھ ہو۔
پاکستان تو کبھی بھارت کی سیڑھی بن نہیں سکتا‘ اس لئے ممکن ہے کہ بھارت نے ایران پر کام شروع کیا۔ بھارتی ایجنٹوں نے وسطی ایشیا اور افغانستان تک براہ ارست رسائی کے لئے چابہار کی صورت میں اس کا بمپر پرائز نکال دیا۔ اب بھارت نے روٹ نمبر 606 کے کوڈ نام سے چابہار کو افغانستان سے ملانے کے لئے زرنج دیلارام روڈ بنا کر اسے قندھار‘ ہرات شاہراہ سے ملا دیا اور اسی قندھار میں چابہار سے لائے ہوئے اسلحے اور بارودی مواد کو کلبھوشن اور اس جیسے دوسرے ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان، وزیرستان اور کراچی میں استعمال کرایا۔
کیا امریکہ اور یورپی ممالک پاکستان کو یہ سزا اس لئے دینا چاہتے تھے کہ پاکستان نے ایران کو چینی قیادت کی جانب سے یہ درخواست کیوں کی تھی کہ چابہار کو چینی حکومت ایرانی معیار اور مدت کے مطا بق مکمل کرنے کو تیار ہے؟ کیا کبھی سوچا کہ بھارت اگر ایران کا اتنا ہی ہمدرد ہے تو اس نے 2009ء سے Farzad-B کے قدرتی گیس کے منصوبے کے لئے جو ہامی بھری تھی‘ اس سے کیوں بھاگا؟ 2010ء میں ترکمانستان نے دولت آباد سے خانگران ایران تک گیس پائپ لائن شاید اس لئے بچھائی تھی کہ بھارت اسے IPI کا متبادل بنا کر استفادہ کر لے۔ چابہار پر بھارتی پرچم لہرانے کی اجا زت دینے کے بجائے سنکیانگ گوادر راہداری منصوبے سے ایران کو اپنے تیل اور قدرتی گیس کے روٹ کیلئے سب سے زیا دہ فائدہ مل سکتا ہے۔
دیر آید‘ درست آید، بالآخر زمینی حقائق واضح ہو گئے اور بھارت کی اصلیت کھل کر سامنے آ گئی اور زاہدان ریل منصوبے اورچابہار سے بھارت کو نکال باہر کیا گیا۔ بھارت جو پاکستان کو ہر دو اطراف سے گھیرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا‘ اب اس کے لیے نہ ''چاہ‘‘ رہی ہے اور نہ ہی ''بہار‘‘۔