تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     23-08-2020

رزقِ حلال کی فراوانی

چند روز قبل مجھ سے شاہدرہ کے بعض ساتھیوں نے رابطہ کیا کہ وہ باربی کیو شاپ کھولنا چاہتے ہیں۔ وہ اس شاپ کا افتتاح مجھ سے کروانا چاہتے تھے۔ اپنی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے میں نے ان ساتھیوں سے معذرت کرنے کی کوشش کی۔ ان ساتھیوں نے میری معذرت قبول نہ کی اور میرے قریبی دوست حافظ عبدالغفار کی وساطت سے مجھ سے رابطہ کیا اور تواتر کے ساتھ اس شاپ کے افتتاح کے لیے وقت دینے پر اصرار کیا۔ ساتھیوں کی چاہت ‘ محبت اور اصراردیکھ میں اس شاپ کے افتتاح پر آمادہ وتیار ہو گیا۔ گزشتہ جمعرات مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد میں جب کالاشاہ کاکو انٹر چینج پہنچا تو وہاں پر حافظ عبدالغفار اور دوست احباب میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان دوستوں کی ہمراہی میں جب میں شاپ پر پہنچا تو شاپ کے ساتھ ملحق وسیع لان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ میں نے لوگوں کی اس بڑی تعداد کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ یہاں پر فقط شاپ کا افتتاح نہیں ہو رہا بلکہ مجھے خطاب کے لیے بھی کہا جائے گا۔ میں نے جیسا سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ گاڑی سے اترنے کے فوراً بعد مجھے سٹیج کی سمت بلایا گیا اور خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر میں نے سامعین کے سامنے رزقِ حلال کی اہمیت اورا س میں فراوانی حاصل کرنے کے حوالے سے بعض گزارشات کو رکھا جنہیں کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں: 
جب ہم اپنی زندگی پر غور کرتے ہیںتو ہمیں ہر سو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی فراوانی نظر آتی ہے۔ اچھی صحت‘ اچھے رفقا‘ پُر امن زندگی‘ پُر سکون گھر یہ سب کی سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ ان نعمتوں کے ساتھ ساتھ اچھے روزگار کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ دنیا میں پیشہ ورانہ علم اور فن کو حاصل کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کا مقصد اپنی معیشت کو مستحکم کرنا ہوتا ہے‘ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ پیشہ ورانہ لوگوں کی بڑی تعداد رزقِ حلال کی اہمیت کو فراموش کر دیتی ہے اور من چاہے طریقے سے رزق کمانے کی جستجو جاری رکھتی ہے۔ انسان کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس کو ہر صورت حلال طریقے سے رزق کمانا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے طیب اورپاکیزہ رزق کی اہمیت کو قرآن مجید کے متعدد مقامات پر واضح کیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 168میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :''اے لوگو! کھاؤ اس سے جو زمین میں حلال (اور) پاکیزہ چیزیں ہیں ا ور مت پیروی کرو شیطان کے نقشِ قدم کی بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 175 میں ارشاد ہوا: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کھاؤ پاکیزہ چیزوں سے جو ہم نے دی ہیں تم کو اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر ہو تم اسی کی عبادت کرتے‘‘۔ طیب رزق کی اہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسولوں کو طیب کھانا کھانے اور نیک عمل کرنے کا ایک ساتھ حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنین کی آیت نمبر 51میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے رسولو تم کھاؤ پاکیزہ چیزوں میں سے اور عمل کرو نیک بلاشبہ میں (اس) کو جو تم کرتے ہو خوب جاننے والا ہوں‘‘۔ 
احادیثِ مبارکہ میں بھی رزق ِحلال کی اہمیت کو کئی مقامات پر واضح کیا گیا ہے۔ احادیث ِمبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص کی عبادات کو قبول نہیں فرماتے جو رزق حرام کھانے والا ہو۔صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فر ما یا :اے لو گو!اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک ( مال) کے سوا ( کو ئی ما ل ) قبو ل نہیں کرتا اللہ نے مو منوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا اللہ تعالیٰ نے فر مایا :اے پیغمبرانِ کرام! پاک چیز یں کھا ؤ اور نیک کام کرو جو عمل تم کرتے ہو۔ میں اسے اچھی طرح جا ننے والا ہوں اور فر ما یا اے مومنو!جو پا ک رزق ہم نے تمہیں عنایت فر مایا ہے اس میں سے کھا ؤ ۔ پھر آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے ‘بال پرا گندہ اور جسم غبار آلود ہے‘ دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہا تھ پھیلا تا ہے‘ اے میرے رب‘ اے میرے رب! جبکہ اس کا کھا نا حرام کا ہے‘ اس کا پینا حرا م کا ہے‘ اس کا لبا س حرا م کا ہے اور اس کو غذا حرا م کی ملی ہے تو اس کی دعا کہا ں سے قبو ل ہو گی۔ احادیثِ مبارکہ میںان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید کی گئی ہے جو حلال و حرام رزق کے درمیان امتیاز نہیں کرتے۔ رزق حلال کی اہمیت کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں پر دنیا میں رزق کے حصول کے مادی اسباب ہیں وہیں پر رزق میں فراوانی کے بہت سے روحانی اسباب بھی ہیں۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔توبہ و استغفار : جب انسان اللہ تبار ک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آ کے توبہ واستغفار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ فرماتے ہیں ۔ سورہ نوح کی آیت نمبر 10سے 12میں اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کے فرمان کونہایت خوبصورت انداز میں بیان فرماتے ہیں : ''بخشش مانگو اپنے رب سے بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار ‘ اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کردے گا تمہارے لیے باغات اور (جاری) کر دے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ استغفار کرنے والوں کی مدد مال اور بیٹوں کے ذریعے کرے گا اور ان کے لیے باغات کو آباد کرے گا اور نہروں کو رواں فرما دے گا۔ 
2 ۔ تقویٰ: اللہ تعالیٰ کے ڈر سے جو شخص گناہ کرنا چھوڑ دیتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو وہاں سے رزق دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 1‘2میں کچھ یوں فرماتے ہیں : ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا‘‘۔
3۔ توکل: جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ پر بھروسا کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں اور اس کی تمام ضروریات کو پورا فرما دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر سورہ طلاق کی آیت نمبر 3میں کچھ یوں فرماتے ہیں : ''اور جو اللہ پر بھروسا کرے تو وہ کافی ہے اُسے بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو یقینا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ‘‘۔ توکل اور رزق کے باہمی تعلق کے حوالے سے ایک اہم حدیث یہ ہے : سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی میں حضرت عمرؓ ابنِ خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسا) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسا) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں‘‘۔
4۔ انفاق فی سبیل للہ: جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے توا للہ تبارک وتعالیٰ اس کے بدل میں اس کو مزید رزق عطا فرماتے ہیں۔اس حقیقت کا ذکر سورہ سبا کی آیت نمبر 39میں کچھ یوں ہوا ہے : ''اور جو تم (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہو کوئی چیز تو وہ عوض دیتا ہے اُس کا (یعنی اس کی جگہ اور دیتا ہے) اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے‘‘۔ 
5۔ کمزور اور ضعیف لوگوں کی معاونت : بہت سے لوگ اپنی تونگری کی وجہ سے اپنے آپ کو کمزوروں اور ضعیفوں سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ حدیثِ پاک سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کمزور‘ ضعیف اور معذور لوگوں کی دعائوں کی وجہ سے لوگوں کو رزق دیتے ہیں؛ چنانچہ ہمیں کمزورطبقات کی تسلسل سے معاونت کرتے رہنا چاہیے اور ان کی دعاؤں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صحیح بخاری میں روایت ہے: حضرت سعد ؓبن ابی وقاص نے خیال کیا کہ انہیں بہت سے دوسرے صحابہ پر (اپنی مالداری اوربہادری کی وجہ سے )فضیلت حاصل ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ ہی سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اورانہی کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جاتا ہے‘‘۔ 
6۔نکاح: جو شخص اپنی عصمت کے تحفظ کے لیے نکاح کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے غنی کر دیتے ہیں۔ سورہ نور کی آیت نمبر32 میں ارشاد ہوا: ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہاری لونڈیوں (میں سے) اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کر دے گا انہیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ (بڑا) وسعت والا خوب جاننے والا ہے‘‘۔ 
اس موقع پر لوگوں نے بڑی توجہ سے میری گزارشات کو سنا اور بعد ازاں عوام الناس کے لیے ایک بھرپور ضیافت کا انتظام کیا گیااور یوں شاپ کے افتتاح کی یہ تقریب بہت سی خوبصورت یادوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved