تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     23-08-2020

اچھے کی اُمید رکھنے میں کیا حرج ہے

بیلاروس مشرقی یورپ کا اچھے خاصے رقبے لیکن کم آبادی پر مشتمل کافی نمایاں ملک ہے ۔ رقبہ تو اس کا پانچ لاکھ مربع کلومیٹر کے قریب ہے لیکن آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ سوویت یونین ٹوٹا تو آذربائیجان‘ آرمینیا‘ازبکستان ‘ تاجکستان اور کچھ دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ بیلاروس بھی آزاد ہوگیا۔ یہ الگ بات کہ سوویت یونین سے ملنے والی آزادی کا ان ممالک کے عوام نے کوئی خاص اثر محسوس نہیں کیا۔ بس اُن کے لیے اتنا ہوا کہ وہ ایک آمریت سے دوسری آمریت کے چنگل میں جا پھنسے۔ وقت گزرنے کے ساتھ صورتحال کچھ یوں بنی کہ آزاد ہونے والی وسط ایشیائی ریاستوں کے عوام تو ہنوز آمریت کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن یورپ میں بیلا روس ہی ایسا ملک بچا ہے جہاں آمریت کا دوردورہ ہے۔ وہاں الیگزینڈرلیوکا شینکو26سالوں سے بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کوشش تو موصوف کی یہی ہے کہ یہ موج لگی ہی رہے لیکن اب عوام اُنہیں مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کچھ ہفتے پہلے ہی وہاں انتخابات ہوئے ہیں جن میں صدر کی جماعت نے 80فیصد ووٹ حاصل کرلیے۔ اب یہ اندازہ لگانا کون سا مشکل ہے کہ اسی فیصد ووٹ کیسے ملے ہوں گے؟ ایسے کسی بھی موقع پر ضیاالحق کا ریفرنڈم خوامخواہ یاد آجاتا ہے۔ اسی ریفرنڈم میں کامیابی کے نتیجے میں وہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوگئے تھے۔ پولنگ سٹیشنز پر کہیں بھی ووٹرز کا رش نہ دکھائی دیا لیکن پھر بھی ضیاالحق صاحب کو ریکارڈ ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ 
ہمارے ہاں تو اس ریفرنڈم اور اس کے نتائج کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا گیا تھا لیکن بیلا روس کے عوام سخت نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس ناراضی کا اظہار کرنے کے لیے وہ سڑکوں پر نکلے ۔ مطالبہ اُن کا یہ ہے کہ صدر الیگزینڈر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں ورنہ احتجاج جاری رہے گا۔اب ظاہر ہے کہ حکومت اس احتجاج کو دبانے کے لیے اپنی سی کوشش کررہی ہے ‘جس کے لیے بہت طاقت استعمال کی جارہی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر یورپی یونین نے بیلا روس پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو مشرقی یورپ کے اس ملک کے لیے بہت مشکل پیدا ہوجائے گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 26سال قبل ہونے والے جن انتخابات کے نتیجے میں صدر الیگزینڈر برسراقتدار آئے تھے‘ تب اُن انتخابات کو بہت آزاد اور منصفانہ قرار دیا گیا تھا لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الیگزینڈر کو اقتدار کا چسکا لگ گیا۔ دوسرے انتخابات میں بھی ڈنڈے کے زور پر کامیابی حاصل کرلی اور اب عہدہ ٔصدارت پر متمکن ہوئے موصوف کو 26سال گزر چکے ہیں لیکن اقتدار سے دل نہیں بھر رہا۔ ایک آدھ ہفتے پہلے ہونے والے انتخابات پر ہرطرف سے انگلیاں اُٹھ رہی ہیں لیکن صدر صاحب ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ کرسی ٔصدارت نہیں چھوڑیں گے۔ ماضی قریب میں کئی مواقع پرمتعدد حکمرانوں نے اپنی جان گنوا دی لیکن اقتدار سے محرومی کو قبول نہ کیا۔اس حوالے سے طویل عرصے تک لیبیا کے آمر مطلق رہنے والے معمرقذافی اور عراق کے صدرصدام حسین کی مثالیں تو کل کی بات ہے۔ لیبیائی آمر جان چکے تھے کہ اُن کے اقتدار کے دن گنے جاچکے ہیں لیکن وہ تب تک اس سے چمٹے رہے جب تک اُن کی جان پر نہیں بن آئی۔ پھر بعد میں وہ بے رحمی سے قتل کردئیے گئے‘ اُن کے اہلِ خانہ کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑا۔عراق کے صدر صدام حسین بھی ایک انقلاب کے نتیجے میں اقتدار میں آئے تھے لیکن پھر کبھی جانے کا نام نہیں لیا۔ جب تک رہے تب تک اپنے عوام پر عرصہ ٔحیات تنگ کیے رکھا۔ دوامِ اقتدار کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا جو آزمایا جاسکتا تھا لیکن بالآخرراہِ فرار اختیار کرتے ہی بنی۔ صدرقذافی سیوریج کے پائپ میں چھپے ہوئے پکڑے گئے تھے تو صدام حسین ایک زیرزمین پناہ گاہ سے پکڑ ے جا نے کے بعد تختہ دار پر چڑھا دئیے گئے۔ مصری صدر انورالسادات کے قتل کے بعد نائب صدر حسنی مبارک کی لاٹری نکل آئی۔ وہ 1981ء میں برسراقتدا ر آئے تو پھر اپنے آپ جانے کا نام نہیں لیا۔ 2011ء تک عرب دنیا کے اہم ترین ملک کے حکمران رہے لیکن حکمرانی سے جی نہیں بھرا ۔ موصوف نے تمام عرصے تک ایمرجنسی کے سہارے حکومت کی ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایمرجنسی کا سہارا لے کر مصری عوام کو کیسے کیسے نہیں دبایا گیا ہوگا۔ بالآخر مصری عوام سڑکوں پر نکل آئے جس کے نتیجے میں اُنہیں حکمرانی کو خیرباد کہنا پڑا۔ بعد میں عدالتوںمیں مقدمات کا سامنا کرتے کرتے 92سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ایک اور اہم اسلامی ملک شام کا حشر دیکھ لیں۔ وہ شام جسے حسین ترین لوگوں کی سرزمین کہا جاتا تھا اب ملبے کا ڈھیر بن چکا۔ شام کے موجودہ صدر بشارالاسد کے والد حافظ الاسدنے تمام عمر ڈنڈے کے زور پر حکومت کی۔ 1970ء میں اقتدار میں آنے والے حافظ الاسد تب تک اقتدار سے چمٹے رہے جب تک بیماری نے اُنہیں لاچار نہیں کردیا۔ جب دیکھا کہ اب اقتدار چلانے کے بالکل قابل نہیں رہے تو اقتدار اپنے صاحبزادے کو سونپ دیا۔ 2000ء سے وہ اپنے عوام کی خدمت کررہے ہیں ‘ جبکہ 2011 ء سے ان کا ملک خانہ جنگی کا شکار ہے اور لاکھوں شامی اپنی سرزمین کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی میں روس‘امریکہ‘ سعودی عرب اور ایران کے ملوث ہونے کے بعد تو حالات انسانی المیے کی صورت اختیار کرچکے لیکن بشارالاسد کی صرف ایک ہی ضد ہے کہ وہ ہر اُس حل کے لیے تیار ہیں جس میں اُن کی صدارت کو برقرار رکھا جائے ۔ ہم اپنے ملک کی مثال لے لیں تو یہاں بھی آنے والے متعدد حکمران تب تک اقتدار سے چمٹے رہے جب تک اُنہیں زبردستی معزول نہیں کیا گیا یا موت کا بلاوا نہیں آگیا۔ 
اگر انصاف کی بات کی جائے تو مسلم دنیا میں اقتدار سے دلچسپی کا عنصر کچھ بہت زیادہ ہی پایا جاتا ہے۔ اور تو اور آج کے دور میں بھی متعدد مسلم ممالک میں بادشاہت رائج ہے۔ بادشاہوں کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ۔ وہ سیاہ کریں یا سفید کسی کی جرأت نہیں کہ کوئی اُن سے سوال کرسکے۔ محسوس ہوتا ہے کہ بیلا روس کے صدر بھی اِنہیں مثالوں سے متاثر ہوگئے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سوویت یونین سے آزاد ہونے والی ایشیائی ریاستوں کے حکمرانوں سے انسپائر ہوگئے ہوں۔ قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان وغیرہ کے مسلم حکمرانوں سے کہ جو سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اقتدار سے چمٹے ہیں تو الگ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ شاید ہی کوئی گمان کرسکے کہ ان ممالک کے عوام حقیقی آزادی کے ثمرات سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ بیشتر صورتوں میں تو موجودہ حکمرانوں کی گرفت ‘ سوویت یونین کی گرفت سے بھی زیادہ سخت دکھائی دیتی ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے بیلاروس کے صدر الیگزینڈر نے بھی میڈیا پر سخت کنٹرول رکھا ہوا ہے‘ آزادی ٔاظہار پر سخت پابندیاں عائد ہیں‘ مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کا چلن عام ہے ۔ آج بھی کے جی بی کہلانے والی ملک کی خفیہ ایجنسی کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ گویا اقتدار کے لیے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اب اُن کے دن گنے جاچکے ہیں۔ ملکی حالات اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث اُن کے لیے شاید زیادہ دیر تک اقتدار سے چمٹے رہنا ممکن نہ ہو۔ گویا یورپ کی آخری آمریت بھی ڈگمگانے لگی ہے۔ اب اگر بیلا روس میں الیگزینڈر کی حکومت ختم ہوجاتی ہے تو یورپ کی آخری آمریت بھی دم توڑ جائے گی ۔شاید کبھی ہماری مسلم دنیا بھی مطلق آمریت سے آزاد ہوجائے‘ لیکن سچی بات ہے کہ اس کی دوردور تک کوئی اُمید نہیں ہے‘ البتہ اچھے کی اُمید رکھنے میں کیا حرج ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved