تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-08-2020

نالے پھر اُبل پڑے

کراچی کی بات ہو اور نالوں کا ذکر نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ جب بھی کراچی کے مسائل کا ذکر ہوتا ہے‘ تان نالوں پر ٹوٹی ہے۔ ٹوٹنی ہی ہے کہ ساری سرگم کا مزا یہ نالے ہی تو خراب کر رہے ہیں۔ نالے نہ ہوئے‘ رقیبِ رُو سیاہ ہوگئے! بے چاری صوبائی حکومت ہو یا مظلوم بلدیاتی انتظامیہ‘ سب کو ان نالوں کے باعث ہی تو ذلّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طعن و تشنیع کے تیر برسانے والوں کو بارش کا انتظار رہتا ہے۔ ذرا سی بارش ہوئی نہیں کہ نالوں کے ساتھ ساتھ ناقدین بھی ابل پڑتے ہیں‘ پھٹ پڑتے ہیں۔ علامہ نے کہا تھا ؎ 
اقبالؔ کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز 
ایسے غزل سَرا کو چمن سے نکال دو 
کچھ کچھ ایسا ہی صوبائی حکومت اور بلدیاتی انتظامیہ بھی سوچتی ہی ہوگی کہ نالوں کو نکال دیا جائے کہ ان کے باعث ہی لوگ تنقید کرتے ہیں‘ طنز کے تیر برساتے ہیں۔ ملحق زمین پر قبضہ کرکے ان شوریدہ سَر نالوں کی ''سَر گرانی‘‘ کم کرنے کی کوشش عشروں سے جاری ہے مگر کچھ خاص حوصلہ افزا نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ سال بھر خفتہ و بے دم پڑے ہوئے برساتی نالے بارش کا موسم شروع ہوتے ہیں انگڑائیاں لے کر بیدار ہوتے ہیں اور ہنگامہ برپا کرنے لگتے ہیں۔ جمعہ 21 اگست کی بارش نے پھر قیامت سی ڈھادی۔ اس بار کراچی کے شمالی علاقے بارش اور سیلابی کیفیت کی زد میں رہے۔ پچھلی کئی بارشوں کے دوران یہ علاقے تھوڑے سے محروم رہے تھے۔ لوگوں کا شِکوہ تھا کہ قدرت نے اُنہیں نہیں نوازا۔ قدرت تو دوسروں کا تماشا دکھاکر سمجھاتی رہی تھی ؎ 
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں 
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو! 
مگر لوگ کہاں ماننے والے تھے؟ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ تمنا تھی کہ خوب بارش ہو۔ ایسی بارش کہ رج کے نہانے کا مزا آجائے۔ قدرت نے ایسا پانی برسایا کہ مکینوں کے ساتھ ساتھ پوری پوری بستیوں کو بھی نہلادیا۔ ہم نے عرض کیا کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ اب بھی یہی ہوا۔ جو بارش کو ترس رہے تھے اُنہیں جب نوازا گیا تو رونے لگے یہ تو دعا مانگنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ ہمارا رب دعاؤں کا سننے والا ہے‘ انہیں قبول کرنے والا بھی ہے۔ دعائیں قبول ہوگئیں تو کیا ہوگا! 
معمولی سے وقفوں کے ساتھ ڈھائی تین گھنٹے تک ہونے والی بارش نے سارا منظر تبدیل کردیا۔ آن کی آن میں نالے بھر اور بپھر بھی گئے۔ اس کے بعد پانی تھا اور سڑکیں تھی۔ سڑکیں دریا کا منظر پیش کرنے لگیں۔ یہ منظر بھی زیادہ دیر نہ چلا۔ ذرا سے نشیب والے علاقوں کی شامت آگئی۔ سرسید احمد نے کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ پانی اپنی پنسال میں آہی جاتا ہے یعنی کسی نہ کسی طور اپنی سطح ہموار رکھتا ہے۔ جمعہ کو بھی یہی ہوا۔ جب پانی نے اپنی پنسال کو ڈھونڈنا شروع کیا تو لوگوں کی جان پر بن آئی۔ کئی علاقوں میں کیفیت یہ ہوگئی کہ گھر سے باہر قدم رکھنا محال ہوگیا۔ اور گھر سے باہر قدم رکھنا تو ایک طرف رہا‘ ڈھنگ سے گھر میں رہنا بھی دشوار ٹھہرا۔ بعض علاقوں میں چوراہوں اور سڑکوں پر لوگ تین ساڑھے تین گھنٹے تک ایک ہی جگہ پھنسے رہے‘ ہلنا بھی مشکل تھا۔ ریلے چلے آرہے تھے۔ سڑکوں پر پانی کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ فٹ پاتھ کہاں سے شروع ہو رہی ہے۔ بعض مقامات پر سڑک کے کٹاؤ سے گڑھے پڑگئے۔ کئی مقامات پر اس کٹاؤ سے پڑنے والے گڑھوں میں گاڑیاں پھنس گئیں۔ گھر سے محض تین چار کلو میٹر کے فاصلے پر پھنسے ہوئے لوگ تقریباً پانچ گھنٹے بعد گھر پہنچ پائے۔ اپنے ہی شہر میں کئی گھنٹوں تک چوراہوں اور دو راہوں پر بے یار و مددگار کھڑے رہنے کی کوفت عجیب تھی۔ یہ چند سو یا چند ہزار افراد کی نہیں بلکہ لاکھوں افراد کی بات ہو رہی ہے۔ 
کراچی میں برساتی نالوں کو برساتی پانی کے نکاس کے سوا ہر مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لوگ نالوں میں کچرا کچھ اس اہتمام سے ڈالتے ہیں گویا یہ اسی کام کے لیے بنائے گئے ہوں۔ اب کچرا ڈالنے کے لیے بھی نالوں کے منہ تلاش کرنا پڑتے ہیں کیونکہ یاروں نے نالوں کو بھی کنکریٹ سے ڈھانپ کر اُن پر دکانیں قائم کرلی ہیں‘ مکان بنا ڈالے ہیں۔ نالوں کے گرد زمین خاصی نرم ہوتی ہے اور اُن پر تعمیرات انتہائی خطرناک شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ نالوں سے ملحق زمین کے مکانات گرنے کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں مگر لوگ پھر بھی باز نہیں آتے۔ سمجھانے والے سمجھاتے رہ جاتے ہیں مگر ؎ 
جب چل پڑے سفر کو تو کیا مُڑکے دیکھنا 
دنیا کا کیا ہے‘ اُس نے صدا بار بار دی 
اہلِ کراچی منتظر ہیں۔ ہے کوئی جو شہر کو مسائل کی دلدل سے نکالے؟ سوال صرف نالوں کا نہیں‘ اور بھی بہت کچھ ہے جو خراب ہے۔ نالے تو یکسر ظاہری چیز ہونے کے باعث فوری طور پر نظر میں سما جاتے ہیں‘ تمام وعدوں اور دعوؤں کا پول کھول دیتے ہیں۔ بارش اللہ کی رحمت ہے۔ رحمت کو ہم اپنی نا اہلی‘ کوتاہی اور غفلت شعاری سے زحمت میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ جو بارش زندگی دینے کی پابند ہے اُسے ہم اس بات کا پابند بنادیتے ہیں کہ ہمیں جی بھرکے پریشانی دے۔ بچے معصومیت کے ساتھ پکارتے ہیں ''اللہ میاں پانی دو‘ سو برس کی نانی دو‘‘۔ اُن معصوموں کو بھلا کیا معلوم کہ پانی صرف پیاس بجھانے کے لیے نہیں ہوتا‘ بہا لے جانے کے لیے بھی ہوتا ہے! اور ہم نے پانی کو اس دوسرے کام پر ہی تو لگا رکھا ہے۔ 
بات نالوں سے شروع ہوئی ہے۔ نالے اب کراچی میں مسائل کی ایک بڑی علامت بن چکے ہیں۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بارش ہوگی تو نالے ابلیں گے‘ چلنا پھرنا دشوار کریں گے۔ بارش ہوتی ہے تو آن کی آن میں سڑکیں دریائی منظر پیش کرنے لگتی ہیں کیونکہ نالے بپھرنے لگتے ہیں۔ لوگوں کو لاکھ سمجھائیے کہ نالوں کو معاف کردیں مگر اُن کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ نالوں پر تجاوزات برقرار ہیں۔ نالوں میںکچرا پھینکنے کا عمل بھی جاری ہے۔ شہر کے نظم و نسق کا مینڈیٹ رکھنے والے اداروں کی بات تو جانے ہی دیجئے کہ اُن کا قبلہ درست کرنا بہت مشکل ہے‘ لوگ بھی تو نہیں مانتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تجاوزات کے نتیجے میں مسائل صرف بڑھیں گے‘ کم نہیں ہوں گے۔ نالوں پر رہنے والوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر پھر بھی وہ جگہ نہیں چھوڑتے۔ زندگی داؤ پر لگانا منظور ہے‘ ڈھنگ سے جینا منظور نہیں۔ سال بھر گندے پانی کی نکاسی اور بارش کے پانی سے گلو خلاصی کے لیے قدرت کی طرف سے قائم ندیوں کی مظلومیت کم نہیں ہوتی۔ ان کے پاٹ میں جھگیاں ڈالنے کا عمل سال بھر جاری رہتا ہے۔ پھر جب بارش کے نتیجے میں ندیاں بھرنے لگتی ہیں تب یہ جھگی والے بے دری کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کی پریشانی دیکھ کر دل دکھتا ہے مگر کیا کیجئے کہ ندیوں کے پاٹ پر قبضہ کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی میں اُن کا بھی بھلا ہے جو وہاں جھگیاں ڈال کر رہتے ہیں۔ 
کراچی ایک بار پھر پوری طرح بے نقاب ہوکر دنیا کے سامنے ہے۔ بارش بہت سے نقاب اتارتی ہے مگر خیر‘ شہرِقائد کو اب اس کی بھی حاجت نہیں رہی کہ بارش آئے اور اس کے مسائل بے نقاب کرے۔ اب تو مسائل سال بھر لوگوں کی نظر میں رہتے ہیں۔ ہر مسئلے نے مستقل حیثیت اختیار کرلی ہے‘ زندگی کا جُز ہوکر رہ گیا ہے۔ جنہیں جو کچھ بھی سوچنا ہے جلد از جلد سوچ لیں۔ اب مزید وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ کراچی پر متصرّف رہنے کی خواہش رکھنے والوں کو اس کے مسائل حل کرنے کے بارے میں بھی ٹھوس سوچ اپنانی چاہیے۔ جب شہریوں کے بنیادی مسائل ہی حل نہ ہو پائیں تو کیسا انتظام اور کہاں کا نظم و نسق؟ تصرف کے خواہش مند ہر سٹیک ہولڈر کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ اُس سے کہاں کہاں چُوک ہوئی ہے۔ شہر کو نئے انتظام کے تحت دینے کی بات ہو رہی ہے۔ اور اہلِ شہر کے لیے یہ سَودا کچھ زیادہ بُرا نہیں ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved