وہ بطور سیاستدان اپنی دھن کے پکے اور لگن کے سچے ہیں۔ 22 سالہ جدوجہد کے بعد جب وزیر اعظم بنے تو یہ اکیلے، ان کا ہی خواب نہیں تھا بلکہ ان لاکھوں کروڑوں ووٹروں کا بھی خواب تھا کہ یہ سچا اور بہادر انسان تبدیلی ضرور لائے گا بلکہ وہ لوگ جنہوں نے خان صاحب کو ووٹ نہیں دیا وہ بھی کہیں دل ہی دل میں خان صاحب سے تبدیلی، احتساب اور خوشحالی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کو 2 سال ہو چکے ہیں جو شاید مکمل تبدیلی کیلئے تو کافی نہیں لیکن 5 سال کے مینڈیٹ کا 40 فیصد وقت ضرور ہے‘ لیکن 2 برسوں میں پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ گیا شاید اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو اندازہ نہ ہو؛ تاہم جن ووٹروں کے خواب ٹوٹے ہیں یا ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں وہ ضرور جانتے ہوں گے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ عمران خان صاحب نے بطور وزیر اعظم اپنی پہلی تقریر کی تو قائد سے بات شروع کی۔ کہا ''جب سیاست میں آیا تو جناح کا پاکستان بنانا چاہتا تھا اور اب پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتا ہوں‘ تمام پاکستان کو متحد دیکھنا چاہتا ہوں، سب کا احتساب ہو گا، قانون سب کے لیے برابر ہو گا‘‘۔ سب سے بڑا چیلنج معاشی بحران کو قرار دیا، بیروزگاری کو ملک کا دوسرا بڑا مسئلہ ٹھہرایا۔ خان صاحب کی یہ تھیوری تھی کہ کرپشن کی وجہ سے لوگ ٹیکس نہیں دیتے، لیکن اب چونکہ ایماندار حکومت آ گئی ہے اس لئے سب کو ٹیکس دینا ہوگا۔ تیسرا بڑا چیلنج خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنا تھا۔ بھارت سمیت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کا اعادہ کیا۔ کہا: بھارت ایک قدم بڑھائے، ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ ساتھ کشمیریوں کی قربانیوں کا ذکر اور مسئلے کے حل کا تذکرہ بھی۔ پاکستان کے نچلے طبقے کو اوپر لانے کا عزم، خواتین، اقلیتوں، غریب سب کے حقوق کا تحفظ، انصاف، ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی اپوزیشن کو دھاندلی کی تحقیقات کی دعوت۔ غرض یہ کہ پوری طرح سے تبدیلی کے خوابوں کی آئیڈیل تقریر کی اور سونے پر سہاگہ یہ کہ 100 دنوں میں سب بدلنے کا دعویٰ بھی کر ڈالا۔ جہاں عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ کرپٹ عناصر کو چوکوں میں لٹکتے اور جوتے پڑتے دیکھنے کا خواب سچ ہونے والا تھا‘ وہیں اپوزیشن کی نیندیں اڑ گئیں۔ پھردھیرے دھیرے وقت گزرنے لگا۔ وہ 100 دن بڑھ کر 6 مہینے، ایک سال، ڈیڑھ سال اور پھر 2 سال میں ڈھل گئے۔ اب عالم یہ ہے کہ لوگ تبدیلی سے بیزار‘ مایوس اور اس حکومت کا نواز، زرداری حکومت سے موازنہ کرتے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دورِ حکومت کے اختتام پر آٹے کی فی کلو قیمت 32 روپے تھی جو 2 برسوں بعد اب 52 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے‘ جبکہ اسی دورانیے میں چینی کی قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 85 روپے ہو گئی ہے۔ حکومت کے سالانہ پلان کی رپورٹ برائے 21-2020ء کے مطابق ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ ہونے کا اندیشہ ہے لیکن غیر سرکاری اعدادوشمارکے مطابق یہ تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ نون لیگ حکومت کے آخری سال میں معاشی ترقی 5.5 فیصد تھی جبکہ تحریک انصاف کے پہلے سال میں معاشی ترقی کی شرح 1.9 فیصد اور دوسرے سال میں منفی 0.5 فیصد پر آ گئی۔ مہنگائی کی شرح جو حکومت سنبھالتے وقت 3.92 فیصد تھی پہلے سال میں 7.34 فیصد اور دوسرے سال میں 11.22 فیصد تک پہنچ گئی تھی‘ اور پھر جولائی 2020 میں یہ کھینچ تان کر 9.3 فیصد تک واپس لائی گئی۔ نون لیگ کے آخری سال میں 3842 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا جبکہ تحریک انصاف کے پہلے سال میں 3829 ارب روپے جبکہ دوسرے سال میں 3998 ارب روپے ٹیکس جمع ہوا۔ یاد رکھیں کہ خان صاحب نے 8 ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ سٹاک مارکیٹ نون لیگ کے آخری سال مئی 2018 میں 45500 پوائنٹس پر تھی، تحریک انصاف کی حکومت کو 18 اگست 2018ء کو سٹاک مارکیٹ 42450 پر ملی جو 29672 کی سطح تک گرنے کے بعد اب بمشکل 39621 پوائنٹس پر واپس لائی جا سکی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ 2 سالوں میں پچھلی حکومتوں کے بڑے قرض ادا کئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 19.2 ارب ڈالرکے بیرونی قرضے واپس کیے اور 29.2 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ملک میں مارچ 2018ء میں مجموعی قرضوں کا حجم 230 کھرب 24 ارب روپے تھا‘ جو بڑھ کر مارچ 2020ء میں 314 کھرب 52 ارب روپے ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے 2015ء میں مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں یہ قرضہ 159 کھرب 86 ارب روپے تھا۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ زرِمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کیلئے قرضوں کا حصول ضروری تھا اور یہ کہ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کیلئے نئے قرض حاصل کرے‘ لیکن اصل بات یہ نہیں ہے۔ عام آدمی کو ملکی قرضوں یا خسارے سے کوئی غرض نہیں‘ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ آٹے، چینی کی قیمت کیا ہے اور روزگار کے مواقع کتنے ہیں۔ شاید اسی لیے وفاقی وزیر فواد چودھری نے کچھ عرصہ قبل سوال کیا تھا 'کیا اس کارکردگی کے ساتھ ہم یعنی حکومت آئندہ الیکشن میں جا سکتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کو 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں کامیابی نہیں مل پائی اور 2018ء کے انتخابات میں بھی کئی طبقات کی حمایت حاصل کرنے کے بعد ہی یہ اس پوزیشن میں آئی کہ حکومت بنا سکے۔ وہ طبقات جن کے سیاست میں آنے کا مقصد ہی کرپشن، اقربا پروری، تھانے کچہری کی سیاست اور اپنے معاشی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ کوئی بھی راہنما ایسے طبقات کو اپنے ساتھ ملا کر کیسے حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے؟ قومی اسمبلی کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے پاس قومی اسمبلی کی کل 342 نشستوں میں سے 156 نشستیں ہیں۔ سیاست کے کسی طالب علم کیلئے اس با ت کی تحقیق کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ ان 156 ارکان میں سے خاصے ایسی سیاسی جماعتوں سے پی ٹی آئی میں آئے‘ جو پاکستان کو اس حالت میں لانے کی ذمہ دار ہیں۔
دو دہائیوں پر محیط سیاسی جدوجہد اور اس سے پہلے بطور کرکٹر اور ملک میں کینسر کا جدید ہسپتال بنانے جیسے فلاحی منصوبوں پر کام نے عمران خان صاحب کو عوام میں مقبول بنایا‘ اس کے باوجود ناقدین کی طرف سے عموماً ان کی جماعت کی 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کو مقتدرحلقوں کے پلڑے میں ڈالا جاتا ہے اور حزب اختلاف کے رہنما انہیں مختلف خطابات سے نوازتے نظر آتے ہیں۔
دو سال مکمل ہونے پر حسب روایت اور حسب توقع وفاقی وزرا نے اپنی کارکردگی کی رپورٹ بھی عوام کے سامنے رکھی تھی۔ اس پریس کانفرنس کو سن کر ایسا لگا‘ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہیں ہیں‘ نوکریوں کی بارش ہو رہی ہے اور عوام کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں لگاکہ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر جس پاکستان کی تصویر کشی کی جا رہی تھی اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ مواصلات اور سڑکوں کے جن منصوبوں پر پہلے شدید تنقید کی جاتی تھی انہی موٹرویز اور سڑکوں کے جال کے میڈل فخریہ انداز میں سینے پر لگائے جا رہے تھے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی دعوے جاری تھے کہ ایک ساتھی وفاقی وزیر نے وزارت خارجہ کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا۔
اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں الزامات کا یہ سلسلہ پاکستان میں کم ہی رُکتا ہے۔ عمران خان صاحب کے اصل چیلنجز تو اِن کے معیشت، احتساب، طرز حکمرانی اور سفارت کاری کے شعبے سے متعلق وہ وعدے اور اعلانات ہیں جو ان کی انتخابی مہم اور منشور کا حصہ تھے۔