تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     24-08-2020

حضرت عمرؓ کی تاریخِ شہادت

آج کل بعض حضرات نے یہ بحث چھیڑ رکھی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یومِ شہادت یکم محرم الحرام نہیں تھا، اول تو یہ ایک لایعنی بحث ہے، کیونکہ یہ کہیں بھی لازم نہیں ہے کہ یومِ شہادت اُسی دن منایا جائے، جس دن شہادت واقع ہوئی ہے، پوری امت امام عالی مقام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جمیع شہدائے کربلا رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امامِ عالی مقام کے اہلبیتِ اطہار اور اعوان و انصار رضی اللہ عنہم کا یومِ شہادت دس محرم الحرام کو مناتی ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس سے پہلے یا بعد میں نہیں منایا جا سکتا، امام عالی مقامؓ کی مجالسِ شہادت تو چہلم تک جاری و ساری رہتی ہیں، میلاد النبیﷺ کی مجالس سارا سال جاری رہتی ہیں۔ نیز ایسے تاریخی شواہد بکثرت دستیاب ہیں کہ اَبُولُؤْلُؤَہ فیروز مجوسی نے آپؓ کو زہر آلود دو دھاری خنجر سے ذوالحجہ کے آخری ایام میں فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے زخمی کیا اور اُسی کے نتیجے میں آپ کی شہادت یکم محرم الحرام کو واقع ہوئی اور آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
امام ابوجعفر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: ''حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو زخمی کیا گیا اور یکم محرم الحرام 24 ہجری کو آپ کی تدفین ہوئی، (المنتخب من ذیل المذیل، ص:11)، امام اَبُونُعَیْم لکھتے ہیں: ''حضرت سعدؓ بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں: حضرت عمرؓ کو 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو (قاتلانہ حملے میں) زخمی کیا گیا اور یکم محرم الحرام 24ہجری کی صبح آپ کی تدفین ہوئی، پس آپ کی خلافت دس سال پانچ ماہ اور اکیس دن رہی۔
علامہ ابن اثیر جزری نے ''اُسد الغابہ، ج:4، ص:156‘‘ میں،علامہ یحییٰ بن شرف نووی نے ''تَہْذِیْبُ الْاَسْمَائِ وَاللُّغَات، ج:2، ص:13 میں، علامہ ذہبی نے ''سِیَرُ اَعْلَامِ النُّبَلَاء، ج:2، ص:417تا 418‘‘ میں، حاجی خلیفہ نے ''سُلَّمُ الْوُصُوْل اِلٰی طَبَقَاتِ الْفُحُوْل، ج:2، ص:413‘‘ میں، علامہ علی القاری نے ''مرقاۃ المفاتیح، ج:9، ص:3727‘‘ میں اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ''لَمْعَاتُ التَّنْقِیْحِ، ج: 10، ص:130‘‘میں اسی طرح لکھا ہے، علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
''جب حضرت عمر فاروقؓ بدھ 26 ذوالحجہ کو محراب میں صبح کی نماز پڑھا رہے تھے تو اَبُولُؤْلُؤَہ فِیْرُوزُ نے (زہر آلود) دو دھاری خنجر سے آپ پر حملہ کیا، اس نے تین وار کیے اور ایک روایت کے مطابق چھ وار کیے، اُن میں سے ایک وار آپ کے زیرِ ناف لگا تو آپ گر پڑے، اس دوران آپ نے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو نماز میں اپنا نائب بنایا، پھر وہ پلٹ کر نکلا، راستے میں جو آیا، اُن پر وار کرتا گیا حتیٰ کہ اُس نے تیرہ اشخاص پر ضرب لگائی، اُن میں سے چھ شہید ہوگئے، فیروز اصلاً ایرانی تھا، پھر حضرت عبداللہؓ بن عوف نے اُس پر کمبل ڈالا تو اس ملعون نے خودکُشی کر لی، حضرت عمرؓ کو اٹھاکر ان کے گھر لے جایا گیا، اُن کے زخم سے خون بہہ رہا تھا، یہ طلوعِ آفتاب سے پہلے کا واقعہ ہے، پھر آپ کبھی بے ہوش ہو جاتے اور کبھی ہوش میں آ جاتے، جب ہوش میں آتے تو آپ کو نماز یاد دلائی جاتی، وہ کہتے: ہاں! جو نماز چھوڑ دے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے، پھر اپنے وقت پر نماز پڑھتے، انہوں نے پوچھا: انہیں کس نے قتل کیا ہے، لوگوں نے بتایا: مغیرہ بن شعبہ کے غلام اَبُولُؤْلُؤَہ نے، تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری موت کسی مسلمان کے ہاتھ سے نہیں ہوئی، پھر کہا: اللہ اُس کا برا کرے، ہم نے تو اسے اچھی بات کا حکم دیا تھا، مغیرہ بن شعبہ نے اُس کے ذمے دو درہم یومیہ لگائے تھے، پھر انہوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا: کیا میں اُس کے محصول میں اضافہ کر دوں،کیونکہ وہ کارپینٹر ہے، نقش و نگار کرتا ہے، لوہار ہے، تو انہوں نے اس کا محصول سو درہم ماہانہ کر دیا اور اُس سے کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ تم بہت اچھا کام کرتے ہو، تم ہوائی چکی بناتے ہو، اَبُولُؤْلُؤَہ نے کہا: میں ضرور آپ کے لیے ایک ایسی چکی بنائوں گا کہ لوگ مشرق و مغرب میں اُس کا ذکر کریں گے، یہ منگل کی شام کا واقعہ ہے اور بدھ 26 ذوالحجہ کی صبح اس نے آپ کو خنجر گھونپ دیا، پھر حضرت عمرؓ نے اپنا جانشین منتخب کرنے کے لیے ایسے چھ اصحاب پر مشتمل کمیٹی بنائی کہ رسول اللہﷺ اپنی وفات تک اُن سے راضی تھے اور وہ تھے: ''حضرات عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم، (البدایہ والنہایہ، ج:7، ص:138)‘‘۔
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
''حضرت عمرؓ کا تین دن بعد انتقال ہوا اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے، نماز جنازہ صہیب نے پڑھائی،حضرات عبدالرحمنؓ بن عوف، علیؓ، عثمانؓ، طلحہؓ، سعدؓ بن ابی وقاص نے قبر میں اتارا اور وہ آفتابِ عالَم خاک میں چھپ گیا، (الفاروق، ص:173)‘‘۔ ایک مصنف نے لکھا: ''قاتل کا خنجر سینۂ عمرؓ میں نہیں، قلبِ کائنات میں پیوست ہوگیا‘‘۔ حضرت عمرؓ کو ہمیشہ شہادت کی آرزو رہتی تھی، حدیث پاک میں ہے: '' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت اوردیارِ رسول میں موت عطا فرما، (بخاری:1890)‘‘، علامہ علی القاری لکھتے ہیں: 
''امام نووی نے کہا: دینی فتنے کے خوف سے موت کی تمنا کرنا مکروہ نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، امام شافعی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے: اللہ کی راہ میں شہادت کی تمنا کرنا مستحب ہے، کیونکہ صحیح روایت کے ساتھ حضرت عمرؓ سے ثابت ہے‘‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا:جو شہادت کی سچی تمنا کرے گا، اُسے شہادت کا درجہ عطا کر دیا جائے گا، خواہ اُسے اپنے بستر پر موت آئے (شہادت نہ ملی ہو)، (مسلم:1908)‘‘ اور کسی مقدس مقام میں بھی موت کی تمنا کرنا مستحب ہے، چنانچہ حضرت عمرؓ نے دعا کی: اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسولِ کریمﷺ کے شہر میں مجھے موت عطا فرما، ان کی صاحبزادی اُمُّ المومنین حضرت حفصہؓ نے کہا: دونوں باتیں کیسے جمع ہو سکتی ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اللہ چاہے گا تو عطا فرما دے گا، (طبقات ابن سعد، ج:3، ص:252، مرقاۃ المفاتیح، ج:4،ص: 60)‘‘، علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
''لاہور میں نمازِ جمعہ کے بعد ایک بزرگ نمازی نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی شہادت کے حصول کی دعا کی، جبکہ شہادت کا معنی ہے: مسلمان کو کوئی کافر قتل کر دے اور مقتول مغلوب ہوتا ہے اور قاتل غالب ہوتا ہے، سو یہ تو مسلمان کے مغلوب ہونے اور کافر کے غالب ہونے کی دعا ہے، میں نے اس کے جواب میں کہا: ایک چیز قبیح لذاتہٖ ہوتی ہے اور حَسَنْ لِغَیْرِہٖ ہوتی ہے جیسے جہاد کرنا، یہ فی نفسہٖ قبیح لِذَاتِہٖ ہے،کیونکہ اس سے شہر برباد ہوتے ہیں اور لوگ مارے جاتے ہیں، لیکن چونکہ یہ اِعْلَائِ کَلِمَۃُ اللّٰہ کا ذریعہ ہے، اس وجہ سے یہ حَسَن لِغَیرہٖ ہے، اسی طرح شہادت کا معاملہ ہے۔ مسلمان کا، کافر کے ہاتھوں مغلوب ہونا قبیح لِذَاتِہٖ ہے،لیکن چونکہ یہ اِعْلَائِ کَلِمَۃُ اللّٰہ کا ذریعہ بنتا ہے،اس لیے حَسَن لغیرہٖ ہے، (نعمۃ الباری، ج:4، ص: 355)‘‘۔
قبیح لِذَاتہٖ اُسے کہتے ہیں کہ کسی چیز میں ذاتی نقص ہو، لیکن اگر وہ کسی دوسری اعلیٰ چیز کے حصول کا ذریعہ بن رہی ہو تو وہ حَسَن لِغَیْرہٖ کہلاتی ہے کہ اُس مطلوبِ غیر نے اُس کے قُبْح کو حُسن میں تبدیل کر دیا، جیسے شدید سردیوں کی راتوں میں جبکہ درجۂ حرارت منفی ہوتا ہے، علی الصباح اٹھ کر وضو کرنا تکلیف دہ امر ہے، سو اس معنی میں یہ قبیح ہے، لیکن چونکہ وضو صحتِ نماز کے لیے شرطِ لازم ہے، اس لیے نماز نے مخصوص حالات میں اُس کے عیب کو کمال میں تبدیل کر دیا، چنانچہ حدیث پاک میں فرمایا: 
(۱) ''جو تاریکیوں میں چل کر مسجدوں میں جاتے ہیں، (اے رسولِ مکرم!) انہیں قیامت کے دن کامل نور کی بشارت دیجیے، (ترمذی: 223)‘‘۔(۲) ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تمہیں وہ چیز نہ بتادوں کہ جس کے سبب اللہ تعالیٰ خطائوں کو مٹا دیتا ہے اور درجات کو بلند فرما دیتا ہے، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! ضرور بتائیے! آپﷺ نے فرمایا: ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا اور زیادہ فاصلہ طے کر کے مسجدوں میں جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، پس یہ جہاد کے لیے سرحدوں پر پہرہ دینے کی مانند ہے، (مسلم: 251)‘‘۔حضرت عمرؓ نے عدل کے بارے میں رہنما اصول وضع کیے، انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو قضا کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات جاری فرمائیں:
(۱) قضا لازمی فریضہ ہے، (۲) قاضی کو مقدمے کے فریقین کے ساتھ مساوی سلوک کرنا چاہیے، (۳) بارِ ثبوت مُدّعی کے ذمے ہے، (۴) اگر مُدّعی کے پاس گواہ نہ ہوں اور مُدّعیٰ علیہ دعوے کو قبول کرنے سے انکاری ہو تو اُسے قسم دی جائے گی، (۵) فریقین کے مابین صلح کرائی جا سکتی ہے، لیکن ایسی صلح ہرگز روا نہیں جو حرام کوحلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے، (۶) اگر قاضی کوئی فیصلہ کر چکا ہے، لیکن بعد میں اُس پر آشکار ہوا کہ فیصلہ درست نہیں تھا تو وہ اپنے فیصلے سے رجوع کر سکتا ہے، (۷) غیر معینہ مدت کے لیے مقدمات کو لٹکانا درست نہیں ہے، اگر مُدّعی ثبوت پیش کرنے کے لیے مہلت چاہتا ہے، تو اُس کے لیے میعاد مقرر کی جائے، اگر مقررہ میعاد پر وہ عدالت کے معیار پر ثبوت پیش کر دیتا ہے تو اُسے اس کا حق دلا دیا جائے، ورنہ اُس کا دعویٰ خارج کر دیا جائے، (۸) ہر مسلمان شہادت دینے کے قابل ہے، سوائے اُن کے کہ جن کو جھوٹی تہمت پر کوڑے لگے ہوں یا جن کے بارے میں جھوٹی گواہی دینا ثابت ہو، (جیسے ہماری یہاں کچہریوں میں جھوٹے گواہ ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں)
اگر ہم ان اصولوں کی روشنی میں دیکھیں تو ہمارا نظامِ عدل اکثر صورتوں میں خلافِ اسلام ہے، خاص طور پر احتساب کے بعض قوانین ضدِّ اسلام ہیں، لیکن اس ادارے کو ہر دور کے حکمران نے اپنے مخالفین کو دبانے یا سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح ''پلی بارگین‘‘ کا اصول سراسر خلافِ اسلام ہے، نیز ثبوتِ جرم سے پہلے قید میں ڈالنا اور بارِ ثبوت مُدّعیٰ علیہ پر ڈالنا بھی خلافِ اسلام ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتیں ان قوانین اور نیب کے طرزِ عمل پر ریمارکس اور آبزرویشنز دیتی ہیں اور اپنے بعض فیصلوں میں سخت الفاظ میں تبصرے بھی کرتی ہیں، لیکن حکومتِ وقت کو اس کے ازالے یا اصلاح کے لیے کوئی قطعی حکم جاری نہیں کرتیں یا اصلاح تک ان قوانین کو معطل نہیں کرتیں، سو غلط ہے مگر چل رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved