تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-08-2020

کیا خاک جئیں …

جینے کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ اِس کی قیمت اِتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اِس کے چکانے کے لیے بار بار مرنا پڑتا ہے۔ بڑے شہروں کا معاملہ کچھ زیادہ پریشان کن ہے۔ ان شہروں میں زندگی پورا خراج مانگتی ہے، انسان کو نچوڑ لیتی ہے۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے انسان کو یومیہ بنیاد پر کئی جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ؎ 
در اِسی دیوار میں کرنا پڑے گا 
زندہ رہنے کے لیے مرنا پڑے گا 
جب تک سانس میں سانس ہے تب تک انسان ہے اورجہدِ مسلسل کا عذاب ہے۔ یہ ایسی دلدل ہے جس سے مکمل طور پر نکلنا تو کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ہاں! جاں گُسل مراحل کو کسی حد تک آسان ضرور بنایا جاسکتا ہے۔ یہ کوشش تو انسان کو کرنی ہی چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ انسان اور تو بہت کچھ کرتا ہے، یہی ایک کوشش نہیں کرتا! ؎ 
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں 
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں 
زندہ رہنے کی قیمت اب بہت بھاری ہے اور چکانا بھی پڑتی ہے۔ یہ سودا سب کا ہے۔ کسی کو بھی استثنا حاصل نہیں۔ ہم زندگی بھر زندہ رہنے کی قیمت ادا کرتے ہیں اور اپنے وجود کے ساتھ ساتھ باقی دنیا سے بھی نالاں رہتے ہیں۔ نالاں رہنے سے مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ اور حل تو کیا ہوں گے‘ وہ تو کم بھی نہیں ہو پاتے۔ پھر بھی ہم عمومی سطح پر اپنی روش ترک نہیں کرتے۔ شاید اس لیے کہ دل کا بوجھ ایسا کرنے سے کچھ کم ہو جاتا ہے۔ جینے کا معاملہ زیادہ عجیب اُس وقت ہو جاتا ہے جب اِس کی خاطر مرتے رہنے کو تو ترجیح دی جاتی ہے، زندہ رہنے کا ہنر سیکھنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ ڈھنگ سے جینا ہنر ہے‘ فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی محض جیئے جائے اور زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے بہت سے معاملات کو درست کرنا پڑتا ہے، اپنے وجود کی کجی دور کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ٹیڑھے پن کو بھی سمجھتے ہوئے اُس سے بچنا پڑتا ہے۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ ایک طرف مادّی دنیا کے جلوے تبدیل ہو رہے ہیں اور دوسری طرف خیالات کی دنیا بھی جلوہ افروز ہوئی جاتی ہے۔ اس بدلتی ہوئی دنیا میں ڈھنگ سے جینے کا ایک ہی آپشن ہے‘ یہ کہ آپ بھی بدل جائیں۔ بدل جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے اُسے ترک کرکے کسی نئے سیٹ اَپ کو اپنالیا جائے۔ ایسا کرنے سے معاملات مزید بگڑتے ہیں۔ بدلنے کا عمل احتیاط طلب ہے۔ حالات کے مطابق تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ اِس عمل کو تبدیلی کے بجائے تطبیق (ایڈجسمنٹ) کہنا زیادہ درست ہوگا۔ ہم میں سے ہر ایک کو بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔ بدلتا ہوا ماحول چاہتا ہے کہ ہم کبھی کچھ نہ کچھ اور کبھی بہت کچھ ترک کریں۔ ہم نے دیکھا کہ انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ مرنے پر تو آمادہ رہتا ہے، جینے کے لیے زیادہ تیاری نہیں کرتا۔ یہ تو حد ہے کہ جینے کے لیے بھی وہ مرتے رہنے کو ترجیح دیتا ہے مگر کبھی ڈھنگ سے جینے کے بارے میں نہیں سوچتا ؎ 
لطفِ نگہِ ناز کا عالم بھی عجب ہے 
کیا خاک جئیں، مرنے سے فرصت ہمیں کب ہے! 
دنیا کی رنگینی ہمیں بہت کچھ دیتی ہے۔ یہ رنگینی ہماری زندگی کو بھی بہت حد تک رنگین بناتی ہے مگر اِس کے عوض وہ ہم سے بھی تو کچھ چاہتی ہے۔ دنیا کا میلہ محض اس لیے نہیں ہوتا کہ اُسے دیکھ کر محظوظ ہوا جائے، کچھ وقت اچھی طرح گزار کر سب کچھ بھلادیا جائے۔ یہ دنیا اگر ہمیں کچھ دیتی ہے تو ہم سے بہت کچھ مانگتی بھی ہے۔ اس میلے کی رنگینیوں میں گم ہو رہنے سے معاملات درست نہیں رہتے بلکہ مزید بگڑ جاتے ہیں۔ 
زندگی چاہے جتنی بھی آسائشوں سے ہم کنار ہو، اول و آخر امتحان ہے۔ جو لوگ ایمان کی دولت سے سرفراز ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہ تو خیر دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتے ہی ہیں اور اُخروی نتیجے کو اچھا بنانے کے لیے دن رات رب کی خوشنودی چاہتے ہی ہیں، جو کسی بھی دین پر یقین نہیں رکھتے وہ بھی روئے ارض پر اپنے قیام کی مدت کے دوران امتحانوں سے گزرتے رہتے ہیں۔ یہ دنیا سبھی کے لیے آخرت کی کھیتی ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے‘ امتحان تو اُسے دینا ہی پڑتا ہے۔ اور زندگی کا حقیقی لطف اِسی امر میں پوشیدہ ہے کہ انسان امتحان دے اور اُس میں کامیاب بھی ہو۔ 
یہ دنیا اس لیے نہیں ہے کہ اِس کی دل کشی اور خوب صورتی پر مر مٹیں۔ دنیا کے حُسن و جمال اور رنگینیوں پر مرنا بھی فطری ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے ڈھنگ سے جینے کی تیاری کرنا۔ ہم کسی بھی چیز کی ظاہری چمک دمک پر مر مٹنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اِس حوالے سے کچھ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ یہ طرزِ فکر و عمل سراسر غلط ہے۔ 
جب تک زندگی ہے تب تک صرف حقوق نہیں‘ فرائض بھی ہیں۔ ہمیں اِس دنیا سے بہت کچھ ملتا ہے اور جواب میں ہمیں بھی بہت کچھ دینا چاہیے۔ اس دنیا کی ساری رونق اِسی بات کے دم سے تو ہے کہ ہر دور کے لوگوں نے اِسے کچھ نہ کچھ دیا، اِس کی رنگینی میں اضافہ کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج ہمیں بہت کچھ نہ مل پاتا۔ ہر دور کے اہلِ فکر و نظر نے جو کچھ سوچا اور لکھا‘ وہ آج ہمارے سامنے ہے جسے پڑھ کر ہم متعلقہ دور کی فکری سطح کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اگر تاریخ کے ہر دور میں لوگوں نے دنیا کی رنگینی پر مر مٹنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو زندگی کو آسان تر بنانے کے بارے میں سوچنے کی تحریک کم ہی لوگوں کو مل پاتی اور یوں ہمیں آج بہت کچھ دکھائی نہ دے رہا ہوتا۔ ہمیں بھی اِس دنیا کو بہت کچھ دے کر جانا ہے۔ ایسا کیے بغیر جانا زندگی کا حق ادا کرنے سے چشم پوشی کے سوا کچھ نہیں۔ 
جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار ہے تب تک پورے ہوش و حواس کے ساتھ جینا ہی زندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ اگر اس دنیا میں اپنے قیام کو زیادہ سے زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانا ہے تو زندہ رہنے کا فن سیکھتے رہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں یعنی ڈھنگ سے جینے کا ہنر سیکھتے ہیں وہ ایسی زندگی بسر کرتے ہیں جو دوسروں کی نظر میں قابلِ رشک ٹھہرتی ہے۔ جو لوگ زندگی کو بامعنی بنانے پر توجہ دیتے ہیں یعنی ڈھنگ سے جیتے ہیں اُن کا پورا وجود دوسروں سے بہت الگ دکھائی دیتا ہے۔ اگر آپ بھی طے کرلیں کہ ڈھنگ سے جینا ہے اور وقت و وسائل کو ضایع ہونے سے بچانا ہے تو زندگی کا رنگ ڈھنگ ہی تبدیل ہو جائے گا۔ جینے کے لیے لازم ٹھہرا کہ دنیا پر جان نہ چھڑکی جائے۔ اس کے لیے طرزِ فکر و عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا ہر اُس انسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو ڈھنگ سے جینے پر متوجہ رہتا ہے اور دنیا پر مرنے سے گریز کرتا ہے۔ 
زندگی ایک بار ملنے والی نعمت ہے۔ اس نعمت سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے ایک دو نہیں‘ ہزار طریقے ہیں۔ انسان جس طور بھی چاہے، جی سکتا ہے۔ سوال صرف جینے کا نہیں، ڈھنگ سے جینے کا ہے۔ ڈھنگ سے جینا انسان کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے جس میں پورا اترنے کی صورت ہی میں انسان توقیر کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ ہر اعتبار سے کامیاب انسان وہی ہے جو دنیا کی رونقوں میں گم ہوکر اپنے مقصدِ حیات کو فراموش کرنے کے بجائے پورے ہوش و حواس کے ساتھ وہ سب کچھ کر گزرے جو اُس کے بس میں ہو اور اِس دوران اپنے خالق و رب کی خوشنودی کا بھی خیال رکھے۔ قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کرنے کی ایک یہی قابلِ اعتماد صورت ہے۔ انسان چاہے تو اِس دنیا میں اپنے قیام کو کسی واضح مقصد کی تکمیل کے بغیر بھی ضایع کرسکتا ہے اور اگر کرنے پر آئے تو کچھ ایسا بھی کر گزرے کہ دنیا دیکھے۔ شرط یہ ہے کہ انسان جینے پر یقین رکھے، محض مر مٹنے کی ذہنیت کا غلام نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved