جاہ وجلال سے بھرپوروزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب اور نئی جمہوری حکومت کے قیام کو حکمرانوں کے ذرائع ابلاغ نے عوام کے شعور پر مسلط کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ ایک جمہوری حکومت سے دوسری تک اقتدار کی منتقلی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیا جارہا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ حلف برداری کے بعد نواز شریف کے الیکشن مہم میں کیے گئے انقلاب کے وعدے سبز باغ بن کے رہ گئے ہیں۔ اس حکومتی وجمہوری تبدیلی سے اس نظام کی ظلمتوں سے بدحال پاکستان کے کروڑوں محنت کش عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آنے والی ہے۔ یہاں جمہوریت دولت کی لونڈی ہے۔ حالیہ انتخابات میں انتخابی مہم پر اخراجات کی بہت سی حدیں مقرر کی گئیں لیکن سب جانتے ہیں یہ پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات تھے۔ یہاں کے محنت کشوں کو صرف ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ ووٹ لینے کا حق ان مٹھی بھرلوگوں کے پاس ہی ہے جو سیاست کے کاروبار میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران مغرب کی معاشی واقتصادی پالیسیوں کی غلامانہ تقلید کرتے ہیں۔ مغربی سامراجی ممالک کے سیاسی ڈھانچوں کی بے ہودہ نقالی کی جاتی ہے۔ نقالی پر مبنی معاشی وسیاسی پالیسیوں کا نتیجہ شدید تر ہوتے ہوئے سامراجی استحصال ، معاشی عدم استحکام اور سماجی انتشار کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اگر مغرب میں کسی حدتک سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام رہا ہے تو اس کی وجہ سترہویں، اٹھارویں اور انیسویں صدی میں امریکہ اور یورپ میں برپا ہونے والے صنعتی اور قومی جمہوری انقلابات ہیں۔ نومولود مغربی بورژوازی نے نسبتاً ترقی پسندانہ سماجی کردار ادا کرتے ہوئے ان انقلابات کی قیادت کی تھی اور جاگیرداری کو بطور ایک نظام اکھاڑ کر سرمایہ داری کی بنیادیں رکھی تھیں۔ گو مغربی ممالک میں برپا ہونے والے انقلابات کی خصوصیات مختلف ممالک میں مختلف تھیں لیکن ان انقلابات نے چند ایک مشترکہ تاریخی فرائض سرانجام دیئے تھے۔ مثلاً ان انقلابات نے نئی اقوام کی تشکیل کرتے ہوئے قومی ریاست کو جنم دیا، جاگیر داری کا خاتمہ کرکے زرعی انقلاب برپا کیا گیا، صنعتی وسماجی شعبوں میں جدید انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا جس پر جدید صنعتی ریاست اور سماجی رشتے استوار ہوئے۔ اسی طرح مذہب کو ریاست سے الگ کرکے سیکولر ریاست قائم کی گئی اور پارلیمانی جمہوریت کو بطور سیاسی نظام رائج کیا گیا۔ اگر ہم دوسری عالمی جنگ کے بعد آزاد ہونے والے نوآبادیاتی ممالک پر نظردوڑائیں تو پاکستان اور ہندوستان سمیت بے شمار دوسرے ممالک میں سرمایہ دارانہ انقلابات کے فرائض مکمل ہی نہیں ہوسکے۔ اس ادھوری، سرمایہ داری نے ان ممالک کے سماج کو پیچیدہ اور حالات کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ تاریخی طورپر پچھڑے ہوئے ان ممالک میں ادھورے سرمایہ دارانہ نظام نے ایک نئے مظہر کو جنم دیا ہے جسے بالشویک انقلاب کے قائد لیون ٹراٹسکی نے غیرہموار اور مشترک ، ترقی کا نام دیا تھا۔ ان ممالک میں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور بھیانک ترین پسماندگی بانہوں میں بانہیں ڈالے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ بمبئی کے ایٹمی بجلی گھر میں یورینیم کی سپلائی بیل گاڑیوں پر ہوتی ہے۔ پاکستان میں کوڑا چننے والے بچوں کے پیروں میں جوتے نہیں ہوتے لیکن ہاتھ میں موبائل فون ضرور ہوتا ہے۔ افغانستان کے بیشتر علاقوں میں لینڈلائن فون کبھی نہیں آیا لیکن سیٹلائٹ فون کا استعمال نظر آتا ہے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں جاگیرداری کا خاتمہ کرنے کے بجائے سرمایہ دار طبقے نے وڈیروں اور جاگیرداروں سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے، بعض صورتوں میں تو جاگیردار، سرمایہ دار بن گئے ہیں۔ قومی سالمیت کا بہت شور مچایا جاتا ہے لیکن تیسری دنیا کے ان ممالک میں قومی سوال حل نہیں ہوسکا اور لولی لنگڑی سرمایہ داری یکجا اور جدید قوم تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے۔ مظلوم قومیتوں کا استحصال جاری و ساری ہے۔ سکولوں، ہسپتالوں، پانی، بجلی، ذرائع آمد و رفت، ریل سمیت تمام تر سماجی و معاشی انفراسٹرکچر کی حالت خستہ ہے۔ زبوں حالی بڑھتی جارہی ہے۔ تعلیم اور علاج کا حصول ان ممالک کے 85فیصد عوام کے لیے تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ بھارت جیسی نام نہاد سیکولر ریاستوں میں بھی ریاست، استحصالی نظام کو قائم رکھنے کے لیے مذہب کو استعمال کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کی بات کرنا بذات خود ایک مذاق ہے۔ مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ریاست سیکولر نہیں ہوسکتی۔ یہاں نہ صرف مذہبی اقلیتوں کا استحصال جاری ہے بلکہ ایک دوسرے سے برسرپیکار دوسری لاتعداد فرقہ وارانہ تنظیمیں خونریزی کررہی ہیں۔ خواتین کی حالت مغربی ممالک سے بھی بدتر ہے اور بدترین سماجی، معاشی اور طبقاتی استحصال کا شکار ہیں۔ پچھلے 65سال میں ترقی کی بجائے ہر شعبہ تنزل کا شکار رہا ہے۔ اس ساری کیفیت کی بنیادی وجہ پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کی تاریخی طور پر تاخیر زدگی ہے۔ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ جب ریاست پر براجمان ہو کر تاریخ کے میدان میں داخل ہوا تو اس میں تکنیکی اور مالیاتی طور پر قومی و عالمی منڈی میں سامراج کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں تھی۔ ان حالات میں مقامی سرمایہ داروں کے پاس سامراج کی گماشتگی اور کمیشن ایجنٹ بن کر سامراجی لوٹ مار اور استحصال میں حصہ داری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ پاکستانی سرمایہ داری اس قدر زائد اور دولت پیدا کرنے کے قابل نہیں تھی کہ جس سے انفراسٹرکچر کی تعمیر ہوسکے اور قومی جمہوری انقلاب کے دوسرے فرائض پورے کیے جاسکیں۔ موجودہ عہد میں عالمی سطح پر سرمایہ داری کے زوال کی وجہ سے صورتحال بدتر ہوتی جارہی ہے۔ سرمایہ داری کے معاشی بحران کا تمام تر بالواسطہ بوجھ ٹیکسوں، اجرتوں ، کٹوتیوں اور مہنگائی کے ذریعے محنت کشوں پر ڈالا جارہا ہے جس سے غربت اور محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ دارانہ انقلاب کے ادھورے فرائض صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ادا کیے جاسکتے ہیں۔ اس صورت میں تاریخی طور پر پچھڑے ہوئے سماج کو سینکڑوں سالوں کا تاریخی سفر ایک چھلانگ کے ذریعے عبور کرکے سرمایہ داری سے اگلے سماجی مرحلے میں داخل ہونا ہوگا۔ یہ سفر اب زوال پزیر سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے طے نہیں کیا جاسکتا۔ سرمایہ داری کا بحران اتنا شدید ہے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک بھی سماجی اور معاشی طور پر زوال پزیری کا شکار ہیں۔ یورپی ممالک میں خاص طور پر آئے روز کٹوتیوں کے خلاف تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان جیسے تباہ حال ملک میں نئی جمہوری حکومت بھلا کیا بہتری لاسکتی ہے؟ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نوازشریف کی تقریر ، انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں اور دعوئوں سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ عوام نے نواز لیگ کو بے کسی اور مایوسی کے اندھیرے میں ووٹ دیا ہے لیکن یہ نظام اور اس میں برسراقتدار آنے والی حکومتیں ان اندھیروں کو مٹانے کی اہل نہیں ہیں۔ دوسری طرف عوام ہیں جو آمریتوں کے بعد جمہوریت کی وحشت بھی دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے لبرل اور سیکولر حکمرانوں کے معاشی حملے بھی برداشت کیے ہیں اور نام نہاد ملائوں کی بربریت بھی دیکھی ہے۔ سلگتے ہوئے مسائل سے نجات تو بہت دور کی بات، اس نظام میں بہتری اور آسودگی کی گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی پر براجمان موقع پرستوں کے بعد اب سرمایہ داروں کی حکومت کھل کر وار کرے گی۔ بیروزگاری اور مہنگائی بڑھے گی۔ نجکاری کا عمل تیز تر ہوگا۔ لیکن برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ محنت کش عوام کے رستے ہوئے زخموں کا درد غصے میں تبدیل ہوگا۔ غصہ بغاوت کو جنم دے گا۔ بغاوت جب انقلاب میں تبدیل ہوگی تو انقلاب کے سبز باغ دکھانے والوں کو پتا چل جائے کہ انقلاب ہوتا کیا ہے! پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ دارانہ انقلاب کے ادھورے فرائض ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سے ہی ادا کیے جاسکتے ہیں۔ اس صورت میں تاریخی طور پر پچھڑے ہوئے سماج کو سینکڑوں سالوں کا تاریخی سفر ایک چھلانگ کے ذریعے طے کرکے سرمایہ داری سے اگلے سماجی مرحلے میں داخل ہونا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved