حکومتی جھوٹ کی سزا عوام کاٹ رہے ہیں: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''حکومتی جھوٹ کی سزا عوام کاٹ رہے ہیں‘‘ جبکہ ان جھوٹوں کی سزا وہ پہلے ہی کافی کاٹ چکے تھے جنہیں ہمارے قائد 'سیاسی بیان‘ کہا کرتے تھے اس لئے وہ جھوٹ پارلیمنٹ میں بھی بولا گیا۔ عدالت میں بھی اور عوام میں بھی، جبکہ حکومتی جھوٹ صرف عوام میں بولنا چاہئے، اس لئے اس میں کوئی ورائٹی نہیں ہے، نیز ہمارے عملی جھوٹ کی روشن مثال ہمارے قائد کی صحت کی صورت حال ہے کہ وہ بیمار بھی ہیں اور علاج بھی نہیں کرواتے حتیٰ کہ ہسپتال کی انہوں نے وہاں شکل تک نہیں دیکھی بلکہ اکثر اوقات سیر سپاٹا ہی کرتے پائے جاتے ہیں، جس کی تصاویر بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں فواد چودھری کے نواز شریف بارے ٹویٹ کا جواب دے رہی تھیں۔
عاشورہ کے بعد اپوزیشن متفقہ لائحہ عمل بنائے گی: کائرہ
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''عاشورہ کے بعد اپوزیشن متفقہ لائحہ عمل بنائے گی‘‘ اور اس سے پہلے ہم اس ایجنڈے پر متفق ہونے کی بھی کوشش کریں گے کیونکہ پہلے بھی ہماری طرف سے ہی اختلاف کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اختلافِ رائے ہی جمہوریت کی جان ہے اور ہم جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار بھی ہیں جبکہ جو کارنامے ہم اپنے دور میں کر گزرے ہیں وہ جمہوریت ہی کا ثمر ہیں کیونکہ اس میں پوچھنے والا تو کوئی ہوتا ہی نہیں لیکن اب پی ٹی آئی کے اس غیر جمہوری دور میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی پوچھ گچھ شروع ہو جاتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نواز شریف کمٹمنٹ کر کے گئے‘ واپس آنا چاہئے: یاسمین راشد
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کمٹمنٹ کر کے گئے‘ واپس آنا چاہئے‘‘ کیونکہ وہ ہمیشہ اپنی کمٹمنٹ پوری کرتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی ہر کمٹمنٹ پوری کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں تبدیلی بھی آئی ہے اور نیا پاکستان بھی بن گیا ہے بلکہ اب تو یہ پھر پرانا ہو رہا ہے کیونکہ ہر نئی چیز کو بالآخر پرانا ہونا ہوتا ہے جبکہ ہماری اہم ترین کمٹمنٹ یہ تھی کہ بزدار صاحب اپنے عہدے پر قائم رہیں گے جو اُسی طرح اپنے عہدے پر براجمان ہیں اور اپوزیشن کی ساری قیاس آرائیاں ناکام ہو کر رہ گئی ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھیں۔
تبدیلی نظر آنی چاہیے‘ عوامی مسائل کیلئے خود نکلوں گا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''تبدیلی نظر آنی چاہئے، عوامی مسائل کے لئے خود نکلوں گا‘‘ بشرطیکہ مجھے پہلے ہی نہ باہر کر دیا جائے کیونکہ آثار مجھے کچھ اچھے نظر نہیں آتے اور جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے تو بیشک یہ نظر نہیں آ رہی، اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ اگر کہیں ہے تو اسے نظر بھی آنا چاہیے جیسا کہ میں ہوں اور نظر بھی آ رہا ہوں اور جب تک ہوں، سب کو نظر بھی آتا رہوں گا اور اگر گیا تو سب کو جاتا ہوا بھی نظر آئوں گا جبکہ میری تبدیلی تو اتنی بڑی تبدیلی ہو گی کہ سب کو‘ اور، دُور سے ہی نظر آنا شروع ہو جائے گی، بیشک میں خود نظر نہ آؤں، تبدیلی ضرور سب کو نظر آئے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
نیب کا فیصلہ بعد میں آتا، وزرا
اعلان پہلے کر دیتے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''نیب کا فیصلہ بعدمیں آتا، وزراء اعلان پہلے کر دیتے ہیں‘‘ جبکہ یہ دونوں کام ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں اور دونوں کا اکٹھا بیان آنا چاہئے جس سے ثابت ہو کہ سب ایک صفحے پر ہیں اور اس ضمن میں کسی کے ذہن میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے اور اس مثبت بیان پر میں جائز طور پر حکومت سے داد کا طالب ہوں جبکہ احتسابی ادارے کو بھی میرا ممنون ہونا چاہئے اور اگر اس نے اپنے فیصلے وزراء کے بیانات کے بعد ہی دینا ہیں تو اس کارِ خیر میں مجھے بھی شریک کر لیا کرے کیونکہ ایک عرصۂ دراز سے ہر نیک کام میں میری شمولیت مستقل چلی آ رہی ہے۔ آپ اگلے روز منصورہ میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
سانپ
ٹرین میں ایک مسافر سفرکررہا تھا۔ سامنے والی برتھ پر ایک انگریز بیٹھا اخبار پڑھنے میں منہمک تھا۔ یکایک اس نے دیکھا کہ اس کی برتھ کے دوسرے سرے پر ایک سانپ بیٹھا ہے۔ اس نے سانپ سانپ کہہ کر چلانا شروع کیا تو انگریز نے اخبار ذرا نیچے کھسکایا اور بولا، ''یہ میرا نہیں ہے!‘‘
پاگل
کریانے کی دو دکانیں ساتھ ساتھ تھیں‘ ایک روز ایک دکاندار نے دیکھا کہ ساتھ والی دکان کا لڑکا اُس کی بوری میں سے آٹا نکال کر اپنی بوری میں ڈال رہا ہے۔ اس نے لڑکے کے مالک سے شکایت کی تو اس نے بتایا کہ لڑکا پاگل ہے، جس پر دکاندار خاموش ہو رہا۔ کچھ دن بعد اس نے پھر دیکھا کہ وہ لڑکا اس کی بوری میں سے آٹا نکال کر اپنی بوری میں ڈال رہا ہے جس پر اس نے ساتھ والے دکاندار سے دوبارہ شکایت کی تو وہ بولا''آپ کو بتایا تھا کہ لڑکا پاگل ہے‘‘۔ اس پر وہ بولا''اگر یہ واقعی پاگل ہے توکبھی اپنی بوری میں سے آٹا نکال کر میری بوری میں بھی ڈالے!‘‘
اور‘ اب آخر میں حسین مجروح کی شاعری:
رخشِ مفاد و مصلحت! مُنہ میں ذرا لگام لے
اپنے غبار و گرد سے جھک کے دُعا سلام لے
اے میری دسترس کی شام! مجھ میں کوئی دیا جلا
نیند کھڑی ہے منتظر کب مرا ہاتھ تھام لے
میں ترا مبتلا سہی‘ لیکن ترا گدا نہیں
خواہشِ خود سپردگی‘ مجھ سے بھی کوئی کام لے
کرنا ہے کل جو فیصلہ آج ہی کر اے زندگی!
وقت پہ منحصر نہ ہو، ہاتھ میں انتظام لے
آیا ہے تیرے پاس دل پیار کی اشرفی لئے
حسنِ مطالبہ شعار دولتِ خواہشِ خام لے
یورشِ حُسن صلح کر والیٔ ملکِ چاہ سے
مسندِ عشق کے عوض اُس کے سبھی غلام لے
کارِ جنوں محال تھا آمد و آمدن کے بیچ
دل بھی یہ طے نہ کر سکا کس طرح درہم و دام لے
آج کا مقطع
جس کو ہر دم اچھالتا ہوں‘ ظفرؔ
ایک اٹھنّی ہے‘ وہ بھی کھوٹی ہے