دنیا میڈیا گروپ کے سینئر اینکر پرسن کامران خان سے تفصیلی انٹرویو کے دوران وزیراعظم عمران خان بڑے اعتماد اور فخر سے بتا رہے تھے کہ پاکستان عوامی جمہوریہ چین جیسے مخلص اور ہمدرد دوست کے بلاک میں کھڑا رہے گا‘ پاکستان پر جب جب سخت وقت آیا‘ چین نے ہر قدم پر ہماری سیاسی اور معاشی مدد کرتے ہوئے دوستی کا پورا حق ادا کیا‘ اس کے مقابلے میں کئی دہائیوں پر محیط پاکستان کی امریکہ کے لئے قدم قدم پر دی جانے والی قربانیوں اور خدمات کو پائوں تلے روندتے ہوئے امریکہ نے اس قدر چوٹیں اور زخم لگائے کہ پورا پاکستان بلبلا اٹھا۔
پاکستان کے ایک لاکھ سے زائد بے گناہ شہریوں، پولیس، ایف سی، فوج اور رینجرز کے جوانوں کی شہادت سمیت کھربوں روپے کی شہری و قومی املاک کو تباہ کرانے کے باوجود پاکستان پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگا کر امریکہ نے سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر کی اس بات کی توثیق کر دی کہ ''امریکہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں اپنے دوستوں کو سزا دینے میں ذرا سی بھی دیر نہیں کرتا‘‘۔ ہزار زخم کھانے کے بعد پاکستان اب فیصلہ کر چکا ہے کہ امریکہ کی ناپائیدار دوستی سے بہتر ہے کہ وہ چین کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو جائے‘ وگرنہ امریکہ تو پاکستان کے خلاف وہی زبان بولے گا جو اسے بھارت سکھائے گا۔ چین کا ہوّا دکھا کر امریکہ خود اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے بھارت کو جس طرح کیل کانٹے سے لیس کر رہا ہے‘ اس کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اس کا پہلا اور آخری نشانہ سوائے پاکستان کے اور کوئی نہیں۔
پاکستان افغان جہاد میں جب امریکہ اور یورپ سمیت اس کے اتحادیوں کے مفادات کے لئے مدد کر رہا تھا تو ایسے وقت میں بھی امریکہ چپکے سے بھارت کو بیلیسٹک میزائل تیار کرنے کے لئے تکنیکی معاونت فراہم کر رہا تھا۔ امریکہ نے اسے مخفی رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن 18 مئی 1989ء کو امریکی سینیٹ کی حکومتی امور کی کمیٹی کے روبرو اس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم ہجکاک ویبسٹر نے انکشاف کیا کہ بھارت کا بیلیسٹک میزائل صرف امریکی مدد اور تکنیک سے ہی ممکن ہوا ہے اور اس کے لئے بھارت کے ڈاکٹر اول پاکر زین العابدین عبدالکلام کو امریکیوں نے ہی بیلیسٹک میزائل جسے بھارت نے پرتھوی اور اگنی کے نام دے رکھے ہیں‘ کی ہر تکنیک فراہم کی۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ بھارت نے بیلیسٹک میزائل کا پہلا تجربہ 25 فروری 1988ء کو کیا تھا (عبدالکلام اس کا بنیادی کریڈٹ اندرا گاندھی کو دیتے تھے) اگنی پانچ جو پچپن سو کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے‘ صرف چین کو نشانہ بنانے کے لئے بنایا گیا۔
اس سے اگلے روز 19 مئی 1989ء کو واشنگٹن پوسٹ نے اپنی لیڈ سٹوری میں ولیم ویبسٹر کے سینیٹ میں دیئے گئے بیان کی روشنی میں انکشافات کرتے ہوئے لکھا ''بھارت کے مشہور سائنسدان اے پی جے عبد الکلام کو امریکی ریاست ورجینیا میں واقع Wallop Island Rocket Centre میں میزائلوں کی تیاری کے لئے خصوصی تربیت اور تکنیکی مہارت فراہم کی گئی‘‘۔ اس وقت پاکستان میں پی پی پی کی حکومت تھی لیکن بدقسمتی سے محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جو وزیراعظم پاکستان تھیں‘ کی جانب سے کوئی پالیسی بیان نہ آیا اور نہ ہی بعد میں نواز شریف نے اس کے خلاف کسی قسم کی آواز اٹھائی۔
امریکی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی‘ جس کے سامنے سی آئی اے ڈائریکٹر نے بیان دیا تھا‘ اس کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان گلین تھے جو ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کو روکنے اور ان کے تجربات کرنے کے خلاف ہمہ وقت شور مچایا کرتے تھے، تعجب انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے بھی اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ہمیں چاہئے تھا کہ اس وقت امریکہ کے اس دوغلے پن کی طرف توجہ دلاتے ہوئے دنیا کو بتاتے کہ ایٹمی توسیع پسندی کے خلاف آسمان سر پر اٹھانے والا امریکہ خطے میں کس طرح کے خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔
درحقیقت سی آئی اے کا سینیٹ کی خصوصی کمیٹی میں اعتراف ایک چال تھی کیونکہ اگر ریکارڈ سامنے رکھیں تو سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے اس بیان یا اعتراف کے صرف دو روز بعد بھارت نے پہلے بیلیسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا اور پھر وقفے وقفے سے بھارت نے مختلف رینج کے میزائلوں کے آئے روز تجربات کرنے کی ایک روٹین بنا کر خطے میں طاقت کو عدم توازن کا شکار کر دیا۔ اس ساری سازش کا اصل خالق کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ ہے۔ اس وقت یا بعد میں بھی‘ اگر پاکستان میں خود مختار اور آزاد سوچ و فکر رکھنے والی حکومت ہوتی تو یہ معاملات اقوام متحدہ کے نوٹس میں لازمی لائے جاتے، مگر بدقسمتی سے ہم نے یہ موقع گنوا دیا۔
امریکی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی، سینیٹر جان گلین اور یورپ سمیت سبھی بھارت کے اس میزائل تجربے پر چپ رہے۔ بھارت کی مذمت میں کسی ایک کا بھی ہلکا سا بیان سامنے نہ آیا۔ اس میزائل تجربے سے کوئی دو ہفتے قبل ایک مضمون میں امریکہ کے انڈر سیکرٹری برائے ڈیفنس پالیسی فریڈ اکلے کے ایک پالیسی بیان کا حوالہ دیا گیا تھا کہ فریڈ اکلے نے کانگریس اور سینیٹ کو بتایا تھا کہ اگر ہم بھارت کو اس قدر ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کر دیں کہ جس سے وہ ایک بڑی فوجی قوت بن کر ابھرے تو اس سے ہمیں یہ فائدہ ہو گا کہ اس صدی کے آخر اور اگلی صدی کے آغاز سے ہی وہ امریکی مفادات کے لئے ایک مضبوط سٹرٹیجک پارٹنر بن جائے گا۔ اب کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ بھارت کو ایٹمی قوت بنانے اور بیلیسٹک میزائلوں سمیت تمام نیوکلیئر اسلحے کی فراہمی اور تیاری میں امریکہ اور یورپ شریکِ جرم ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ بھارت کا تارا پورا ایٹمی ری ایکٹر کینیڈا کی مدد سے تیار ہوا تھا اور اس کے لئے درکار بھاری پانی کسی ا ور نے نہیں بلکہ امریکہ نے ہی بھارت کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔
بھارت کو مضبوط فوجی اور ایٹمی قوت بنانے کی راہ میں امریکہ کو جب NPT کی رکاوٹ پیش آئی تو اس نے کمال مہارت سے فرانس کو آگے کرتے ہوئے دیگر خدمات اس کے ذریعے پور ی کرانا شروع کر دیں۔ حال ہی میں بھارت اور فرانس کی رافیل طیاروں کی ڈیل کے پیچھے بھی امریکہ کا تعاون اور سفارش اس زاویے سے کارفرما تھے کہ چین کے مقابلے میں بھارت کو مضبوط کرنا امریکہ اور یورپ‘ سب کے لئے بہت ضروری ہو چکا ہے۔ یہ تو ابھی کل ہی کا قصہ ہے کہ رافیل طیارے انبالہ پہنچنے سے پہلے ہی نریندر مودی اور آر ایس ایس پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع ہو گئے تھے کہ رافیل کو آنے دو‘ پھر تمہیں بتائیں گے کہ ہم کیا ہیں۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ چین کا ہوّا دکھا کر بھارت کو فراہم کیا جانے والا امریکہ اور یورپ کا تمام اسلحہ پاکستان کے ہی خلاف استعمال ہو گا۔
اگر تاریخی واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو وائٹ ہائوس کبھی پاکستان کا دوست نہیں رہا۔ امریکہ کے لئے اپنے جسم کے ہر حصے پہ دہشت گردی کا وار سہنے والے پاکستان کی دوستی اور قربانیوں کا پاس رکھے بغیر 1985ء میں ''پریسلر ترمیم‘‘ کے نام پر پابندیوں کا بم گرانے کے بعد پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی روکنے کے علاوہ کئی برس پہلے ایف سولہ طیاروں کے لئے ایڈوانس میں لی گئی کروڑوں ڈالر کی رقم بھی امریکہ نے واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اپنے ''دوست‘‘ کو سزا دینے کے لئے امریکہ نے اس کے ہاتھ پائوں باندھ کر اس کے ازلی دشمن بھارت کے سامنے اسے پھینکنے کی سازشیں شروع کر دیں اور دوسری طرف ہٹ دھرمی سے بھارت کو مضبوط ایٹمی قوت بنانے کے لئے اس کے سائنس دانوں کی تربیت اور ان کی تکنیکی مدد بدستور جاری رکھی۔کارنیگی انڈوومنٹ برائے عالمی امن‘ جو سی آئی اے کے لئے کام کرتا ہے‘ کے ایک سینئر پروفیسر ایشلے جے ٹیلس (Ashley J. Tellis) نے ''The Evolution of U.S.Indian Ties: Missile Defense in an Emerging Strategic Relationship‘‘ کے عنوان سے انٹرنیشنل سکیورٹی کے اپنے مقالے میں پاکستان و چین کے حوالے سے نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو ترغیب دی کہ وہ ان ممالک کا مقابلہ کرنے کے لئے نیوکلیئر اور بیلیسٹک میزائلوں کی تیاری میں بھارت کو اپنے ساتھ ملائے۔