تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     25-08-2020

بڑی جنگی حقیقتیں

جب سے یہ دنیا بنی ہے‘ اس میں قتل و غارت ہوتی رہی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ اب انسان مہذب ہو گیا ہے۔ غلاموں کی تجارت ختم ہو گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ بن گئی ہے... تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا دنیا میں امن قائم ہو گیا ہے ؟پچھلے بیس سال میں افغانستان، لیبیا، عراق، شام، کریمیا، کشمیر اور فلسطین میں کیا کچھ نہیں ہوا؟ صدام حسین اور معمر قذافی کو جو لوگ میڈل پہنایا کرتے تھے، حالات بدلتے ہی وہ کیسے جنگی جہازوں کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے۔عراق کو تباہ و برباد کرنے کے بعد امریکا و برطانیہ نے اعتراف کیا کہ ان کی اطلاع غلط تھی اور صدا م حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے ہی نہیں۔ ؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ 
ہائے! اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معمر قذافی سے مغربی دنیا کو کیا خطرہ درپیش تھا کہ جیسے ہی حالات تبدیل ہوئے‘ انہوں نے لیبیا پہ دھاوا بول دیا۔ جواب یہ ہے کہ دنیا‘ بھلے کوئی لاکھ انکار کرے مگر یہ آج بھی مذاہب کی بنیاد پر گروہی تقسیم کا شکار ہے۔ مغربی طاقتوں کو جب بھی کسی مسلمان ملک میں عدم استحکام نظر آئے گا، وہ اسے تباہ و برباد کرنے میں ذرا برابر تاخیر بھی نہیں کریں گی۔ اب آپ نے یہ سچ تسلیم کرنا ہے یا نہیں‘ آپ کی مرضی۔ معمر قذافی مغرب کے لیے ذرہ برابر بھی خطرہ نہیں تھا لیکن وہ ان کے ساتھ نخوت کے ساتھ بات کرتا تھا۔
خدا نخواستہ آج پاکستان میں حالات خراب ہو جائیں تو مغربی طاقتیں پاکستان پر چڑھ دوڑیں اور یہ کوئی سازشی نظریہ نہیں بلکہ ماضی میں بھی متعدد ایسے مواقع آئے کہ پاکستان کو اپنے قابو میں لینے کی مکمل منصوبہ بندی کر لی گئی لیکن اس کا ایٹمی اور میزائل پروگرام، مگر اس کی بہادر افواج۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستانی فوج اس قدر خوفناک جنگ‘ نہ صرف یہ کہ نہایت کامیابی سے لڑ لے گی بلکہ نظم و ضبط کا بھی ایسا مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔ حالانکہ پاکستانی فوج کو بھارت نے بری طرح انگیج کیا ہوا تھا، جس کا دفاعی بجٹ پاکستان کے بجٹ سے سات گنا زیادہ ہے۔ پھر ان بیس سالوں میں پاکستان کے پاس یہ نئی خوفناک جنگ لڑنے کے لیے بجٹ تھا ہی کتنا؟ کولیشن سپورٹ فنڈ کے پچیس تیس ارب ڈالر سمیت زیادہ سے زیادہ پچاس ارب ڈالر؟ دوسری طرف افغانستان میں امریکی اتحادی 832 ارب ڈالر خرچ کر کے بھی ہار چکے ہیں۔
دنیا آج بھی گنتی کے چند بڑے متحارب گروہوں کے درمیان منقسم ہے۔ مسلمان، یہودی، عیسائی اور ہندو۔ اس کے علاوہ جو دو بڑی طاقتیں مذہب کے بجائے نیشنلزم پہ یقین رکھتی ہیں، وہ روس اور چین ہیں۔ نیٹو دنیا کا سب سے بڑا عسکری اتحاد ہے، جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہے دنیا کی کل تقسیم، جس کی بنیاد پر جنگیں ہوتی ہیں۔ آپ جتنی مرضی لیپا پوتی کر لیں کہ دنیا بہت مہذب ہو گئی ہے، انہوں نے آپس میں لڑ کے رہنا ہے۔ مغرب کا اگر بس چلے تو ترکی اور پاکستان پر چڑھ دوڑیں لیکن ان کی مسلح افواج...
کامیابی کے ساتھ جنگ سے گزری ہوئی فوج بہت زیادہ طاقت کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ موت کے خوف سے گزر چکی ہوتی ہے۔ جنگی مشقیں منعقد کر کے آپ جنگی ماحول تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن وہ خوف اور ڈر نہیں، جنگی مشقوں کے حساب سے دیکھیں تو امریکی فوج آج بھی نمبر ون ہے۔ آپ ان کے فوجی ساز و سامان، وردیوں اور آلات کو دیکھیں تو ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ اگر حقیقی جنگوں میں امریکی فوج کی کارکردگی دیکھیں تو ساڑھے سات سو ارب ڈالر دفاعی بجٹ کے باوجود اس کی کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔ ویتنام سے افغانستان تک، ہر کہیں ناکامیوں کی داستان درج ہے۔ پاکستانی فوج نے تو بھارت کی شکل میں کئی گنا بڑے دشمن کی مسلسل چھیڑ خانی کے باوجود خودکش دھماکے کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے۔ یہ دنیا کی موجودہ جنگی تاریخ میں ایک نئی Dimension ہے۔ دنیا کی ایک بہت بڑی حقیقت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے خرچ کر کے آپ اپنی فوج کو جنگجو، بہادر اور پروفیشنل نہیں بنا سکتے۔
آپ جنگ کو کیا سمجھتے ہیں؟ یہ جو قرآن میں کئی مقامات پر بیان کی گیا کہ کتنی ہی چھوٹی فوجوں نے کتنے ہی بڑے لشکروں کو شکست دے دی اللہ کے حکم سے۔ یہ آیات اس دنیا کی بہت بڑی حقیقت کو آشکار کرتی ہیں۔ آپ افغانستان میں امریکہ و اتحادیوں کی شکست کو دیکھ لیں۔ جو بات صدر ٹرمپ نے ایک بار کہی تھی، وہ بالکل ٹھیک تھی کہ آسمان سے مسلسل بمباری کر کے امریکہ افغانستان کو کھنڈر میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اس طرح لیکن جنگ جیتی جا سکتی تو کیا پوری دنیا میں ذلت اٹھانے اور طالبان سے مذاکرات کے بجائے امریکہ واقعتاً اس فارمولے پہ عمل نہ کر لیتا؟ آپ شام کو دیکھ لیں۔ شہر کھنڈرات میں بدل چکے ہیں لیکن ان کھنڈرات میں موجود مسلح افراد بدستور جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنگی ساز و سامان آپ کو جنگ جیت کر نہیں دے سکتا۔ یہ کام صرف اور صرف آپ کے سپاہی کر سکتے ہیں، جو ہوا میں اڑنے کے بجائے زمین پر کھڑے ہوں اور دشمن سے دوبدو مقابلہ کریں۔
شام اور افغانستان میں جو مسلح گروہ زمین پر موجود ہیں، وہ کئی سال تک جنگی ماحول میں زندگی گزار کر سخت جان بن چکے ہیں۔ ان سے جنگ جیتنے کے لیے ان سے زیادہ مضبوط اعصاب کے سپاہیوں کی ضرورت ہے اور مضبوط اعصاب فیکٹریوں میں نہیں بنتے۔ امریکی اشیرباد سے افغان فوج تشکیل دینے کا تجربہ ہوا مگر اس کے جوانوں اور افسروں کی ایک بڑی تعداد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر کے طالبان سے جا ملتی ہے۔اگر آپ ایک امریکی یا برطانوی فوجی کو شام میں اتارتے ہیں تو اس کے پاس اپنی ہمت قائم رکھنے کے لیے کون سی دلیل موجود ہوگی؟ کوئی بھی نہیں۔ امریکہ کی ملٹری مائیٹ دیکھیے۔ اس کے پاس 12 ایئر کرافٹ کیریئرز موجود ہیں۔ یہ وہ بحری جہاز ہیں، جن پر جنگی طیارے رکھے جاتے ہیں۔ جہاں جنگ لڑنا ہو، وہاں ایئر کرافٹ کیریئر بھجوا دیا جاتا ہے۔ اس پر سے جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹرز اترتے اور چڑھتے ہیں۔ دنیا میں کسی اور ملک کے پاس تین ایئرکرافٹ کیریئر بھی موجود نہیں۔ امریکیوں کے پاس ایسے جنگی طیارے موجود ہیں، جنہیں چڑھنے اور اترنے کے لیے برائے نام رن وے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ ہیں امریکہ کی جنگی تیاریاں‘ دوسری جانب امریکہ کے کسی ایک بھی شہر میں کسی جنگی حالت کے نفاذ کے بغیر ہی افغانستان اور عراق کو کھنڈر بنا دیا جاتا ہے۔اب آپ ساڑھے سات سو ارب ڈالر دفاعی بجٹ والے امریکہ کی بے بسی دیکھیں۔ امریکہ سالوں پاکستان پر دبائو ڈالتا رہا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیا جائے۔ ڈرون حملے کر کر کے وہ پاگل ہو گیا مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ یہ تب حل ہوا، جب پاکستانی فوج اندر گئی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو چن چن کر ختم کیا۔یہ جو دنیا میں آپ کو غربت نظر آتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دبائو میں ہی لوگ کام کرتے ہیں۔ حالات کا یہ دبائو اور غربت اگر نہ ہوتی تو دنیا کے 7.8 ارب انسان اس وقت موٹاپے کی حالت میں ساحلوں پہ پڑے ہوتے۔ بقا دائو پہ لگتی ہے تو مزدور اذیت بھری مشقت پہ راضی ہوتا ہے۔ پاکستان پہ اگر سکیورٹی دبائو نہ ہوتا تو شاید پاکستان کبھی ایٹمی طاقت نہ بنتا، کبھی اس طرح کے میزائل نہ بنا سکتا۔ یہ جتنی آرام پسند قوم ہے‘ اس کے پاس اس طرح کی جنگجو فوج ہونا تو ایک کرشمہ ہی ہے۔ 
دنیا کی بہت بڑی حقیقت یہی ہے کہ افراد ہوں یا اقوام، غیر معمولی دبائو میں وہ فولادی اعصاب کے مالک بنتے ہیں۔ ابرہام لنکن کو دیکھ لیجیے۔ دنیا کی ایک اور بہت بڑی حقیقت یہ ہے کہ فقط سپاہیوں کی تعداد اور جنگی سازو سامان زیادہ ہونے سے جنگیں نہیں جیتی جا سکتیں۔ یہودی جب پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام دیکھتے ہیں، جب وہ پاکستان اور ترک افواج کے جنگی جہازوں کو دشمن کے جہاز گراتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ کانپ اٹھتے ہیں۔ یہودی کہاں کے جنگجو ہیں؟ کیا ہم انہیں نہیں جانتے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved