پی ٹی آئی سمجھ رہی ہے نواز شریف متحرک ہو گئے: محمد زبیر
نواز لیگ کے رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف سمجھ رہی ہے نواز شریف متحرک ہو گئے ہیں‘‘ حالانکہ لندن میں بیٹھا ایک مفرور شخص کہاں تک متحرک ہو سکتا ہے‘ وہ تو صرف وطن واپسی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی حد تک ہی متحرک ہوئے ہیں کیونکہ یہی اب ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے جبکہ دیگر جملہ مقاصد وہ پہلے ہی پورے کر چکے ہیں، ان کی آزادی میں چند ایک رکاوٹیں ہیں‘ نیب دفتر حملہ کیس‘ جس میں اب دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل کر دی گئی ہے‘ سے وہ منزل بھی اب مزید دور ہوتی نظر آتی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
شہباز شریف نے عوام کو گمراہ
کرنے کی کوشش کی: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف نے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی‘‘ اور وہ اس میں بری طرح سے ناکام رہے کیونکہ یہ کارگزاری ہمارے ہاتھوں پہلے ہی سر انجام پا چکی ہے کیونکہ عوام صرف حکومت کے ہاتھوں گمراہ ہوتے ہیں؛ البتہ اپوزیشن اپنے دور میں عوام کو جس قدر گمراہ کر چکی ہے‘ اسے وہی کافی سمجھنا چاہیے اور اس سلسلے میں مزید پیش رفت اسے ہمارے لیے چھوڑ دینی چاہیے، اگرچہ عوام اب کافی چالاک ہو چکے ہیں کہ گمراہ ہوتے ہیں تو سمجھ بھی جاتے ہیں کہ انہیں گمراہ کیا جا رہا ہے، اس لیے جلد ہی راہِ راست پر بھی آ جاتے ہیں لیکن پھر بھی حکومت کسی اور طریقے سے انہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ پیغام نشر کر رہے تھے۔
مشکل گھڑی میں عوام کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''مشکل گھڑی میں عوام کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے‘‘ تاہم جب بھی ہم اس طرح کا بیان دیتے ہیں تو عوام کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ باقاعدہ خبردار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اس کا مطلب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے محتاط ہو جاتے ہیں؛ تاہم یہ ہماری بھی مجبوری ہے کیونکہ اگر عوام کو تنہا چھوڑ دیا جائے تو ہم خود اکیلے رہ جاتے ہیں جبکہ یہ ساری رونقیں عوام کو ساتھ رکھنے کے طفیل ہی ہیں جو اکثر لوگوں کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہیں جبکہ انہیں یہ کانٹا پہلی فرصت میں نکلوا دینا چاہیے کیونکہ یہ پائوں کے کانٹے سے کافی مختلف چیز ہے۔ آپ اگلے روزکراچی میں بارش کی تباہ کاریوں پر اظہارِ افسوس کر رہے تھے۔
کچھ بھی ہو جائے این آر او نہیں دوں گا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''کچھ بھی ہو جائے این آر او نہیں دوں گا‘‘ کیونکہ ممکن ہے کہ میرے پاس این آر او دینے کا اختیار ہی نہ ہو لیکن وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے وہ چیز بھی دینے سے میں انکار کر سکتا ہوں جو میرے پاس سرے سے موجود ہی نہ ہو؛ اگرچہ اپوزیشن کو اب این آر او کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں رہی کیونکہ اب وہ اس کے بغیر بھی خوب مزے میں ہے کہ ان کے کرپشن کے مقدمات غباروں کی طرح ہوا ہی میں اڑتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس کی پراسیکیوشن اپنی بلندیوں سے نیچے اتر ہی نہیں رہی اور نہ ہی سرکار کے پاس مہنگے اور قابل وکیل کرنے کے لیے پیسے ہوتے ہیں اس لیے اپوزیشن بھی تکلفاً این آر او مانگتی رہی ہے اور ہم بھی اسی تکلف سے انکار کر دیتے ہیں اور دونوں کا گزارہ خوب ہو رہا ہے۔ آپ اگلے روز وفاقی کابینہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
پاگل یا بیوقوف؟
ایک شخص کی گاڑی عین پاگل خانے کی دیوار کے ساتھ پہنچ کر خراب ہو گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے اگلے ٹائروں میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ گاڑی کے ساتھ سٹپنی بھی نہیں تھی۔ اس نے دونوں ٹائر کھولے تو معلوم ہوا کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ وہ انہیں واپس جوڑنے لگا تو اس نے دیکھا کہ ان کے جو نٹ کھول کر اس نے ایک طرف رکھے تھے‘ وہ غائب ہیں۔ اوپر دیوار پر بیٹھا ایک پاگل بھی یہ صورت حال دیکھ رہا تھا۔ اس نے اسے بتایا کہ ابھی چند بچّے جو یہاں کھیل رہے تھے، یہ ان کی شرارت ہو سکتی ہے کہ وہ نٹ اٹھا کر لے گئے ہوں۔ وہ شخص سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اب کیا کرے تو اوپر سے آواز آئی، پچھلے ٹائروں سے دو‘ دو نٹ نکال کر اگلے ٹائروں کو لگا لواور گاڑی ورک شاپ تک لے جائو۔اس شخص نے حیران ہو کر اوپر دیکھا اور بولا: ارے۔۔۔۔۔ تم پاگل ہو؟ جس پر پاگل بولا: میں پاگل ہوں‘ بیوقوف نہیں۔
اور‘ اب آخر میں الیاس بابر اعوان کی شاعری:
ایسے دیکھو جیسے دیکھا جاتا ہے
ہم جی اٹھیں گے تیرا کیا جاتا ہے
وہاں وہاں پر منزل ہم سے ملتی ہے
جہاں جہاں پر لے کر رستا جاتا ہے
جیتنے والے کی تعریفیں ٹھیک نہیں
مجھ سے سیکھو کیسے ہارا جاتا ہے
میں کاغذ کے پھول بناتا جاتا ہوں
کوئی ان میں خوشبو بھرتا جاتا ہے
دل ہے‘ کوئی نوٹوں والا بیگ نہیں
اک دوجے سے کیسے بدلا جاتا ہے
٭...٭...٭
سانس لیتے ہوئے پرچم کے سہارے بنے تھے
میرے اجداد جو مٹّی سے ستارے بنے تھے
ورنہ بہتے ہی چلے جانا تھا ہم لوگوں نے
آج وہ دن ہے کہ دریا کے کنارے بنے تھے
لُٹ کے آتا جو اُسے بانہیں کھلی ملتی تھیں
لوگ بے لوث تھے جب رشتے ہمارے بنے تھے
نفع میں ڈھال دیا طُرفہ مسیحائی نے
ہم تہی دستوں سے جتنے بھی خسارے بنے تھے
آج کا مطلع
کھلتی نہیں مجھ سے گرہیں بعض تمہاری
ہوتی ہیں جو اکثر پسِ الفاظ تمہاری