عالمی قوانین اور پابندیوں کے اس دور میں '' گرے لسٹ‘‘ میں جکڑا ہوا ایسا ملک جس کے اندرونی و بیرونی دوستوں اور دشمنوں کی مہربانیوں اور سازشوں سے ''بلیک لسٹ‘‘ کی تلوار کڑک رہی ہو‘ جس ملک کی مشرقی سرحدوں اور لائن آف کنٹرول پر بھارت جیسا دشمن کیل کانٹوں سے لیس دس لاکھ فوج لئے کھڑا ہو، جس کے سمندروں اور تجارتی راستوں سے دشمن کی آبدوزوں اور طیارہ بردار جہازوں کی چنگھاڑتی موجیں ٹکرا رہی ہوں، جس ملک کی اہم اور حساس نوعیت کی تنصیبات پر حملوں کے لئے دشمن لداخ، پٹھان کوٹ اور انبالہ میں فائٹر اور بمبار طیاروں کے سکواڈرن، نیوکلیئر وار ہیڈز اور میزائل لادے اڑان بھرنے کے لئے پابہ رکاب ہوں، جس کے گردا گرد دشمن ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاک افغان سرحد، بلوچستان، بالخصوص گوادر اور سی پیک کے خلاف ٹیررسٹ آپریشنز کی بھر مار کئے ہوئے ہو، اپنے سے پانچ گنا زیادہ طاقتور دشمن سے ہمہ وقت نبرد آزما رہنے والا‘ ایک ترقی پذیر اور قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک جس کی امپورٹس آسمان کو اور ایکسپورٹس زمین کو چھو رہی ہوں، جس کی صنعتی اور زرعی پیداوار زبوں حالی کا شکار ہو، جس کے اندرونی ٹیکسوں کے ناقص اور کمزور نظام اور اس پر مستزاد سر سے پائوں تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے قومی ا دارے، خسارے کے شکار ایئر لائنز اور سٹیل ملز جیسے ادارے اور آئی پی پیز اور ریلوے‘ جنہیں قائم رکھنے کے لئے ہر تین ماہ بعد سینکڑوں ارب کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے ملکی وسائل کو جھونکا جا رہا ہو، ایسا ملک جس پر کئی دہائیوں سے لدے چلے آ رہے غیر ملکوں قرضوں اور ان پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے لئے پانچ ارب ڈالر کا اوور ڈرافٹ انتظار کر رہا ہو اور جس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر فقیر کی کٹیا کی طرح خالی ہوں، کیا اس ملک کی معیشت اور اکنامک سروے کا سوالنامہ اقتصادیات کے کسی بورڈ یا ماہر معاشیات کے سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اسے جلدی سے درست کر دو؟ پاکستان کا محل وقوع ایسا ہے کہ اگر مشرقی سرحدوں یا خلیجی ممالک میں کسی بھی قسم کی گڑ بڑ ہوتی ہے یا سکیورٹی صورت حال کو خدشات لاحق ہونے لگتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑتا ہے۔
گزشتہ بیس برسوں میں پاکستانی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہر حکومت نے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہمیشہ وقتی اور ڈنگ ٹپائو قسم کے اقدامات کیے جن کا مقصد صرف اپنی مقبولیت اور سیاسی قد کاٹھ کو بڑھانا تھا۔ 2016 میں جب آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہو رہا تھا تو سب کو دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا تھا کہ 2018-2019 میں اپنا بھرم قائم رکھنے کے لئے نئی آنے والی حکومت کو کاروبارِ حیات چلانے کے لئے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جا نا پڑے گا۔ میرے خیال میں تحریک انصاف اور اس کی قیادت سے سب سے بڑی غلطی ہی یہ ہوئی۔ ان کے معاشی ماہرین کو سب سے پہلے اندازہ کر لینا چاہئے تھا کہ اقتدار سنبھالتے ہی انہیں چار و ناچار آئی ایم ایف کا سہارا لینا پڑے گا۔
اگست 2018ء میں جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اس کے ا چھے اقدامات میں تجارتی خسارے، امپورٹس میں کمی، ایکسپورٹس میں اضافہ، فوج کا اپنے بجٹ میں رضاکارانہ کمی کرنا اور وزیراعظم ہائوس اور ایوانِ صدر کے اخراجات میں بڑی کمی جیسے کئی مثبت کام شامل تھے۔ 2020ء کے ابتداء میں COVD-19 کی وبا نے آن لیا اور اس وبائی مرض کے چھ ماہ نے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک کی معیشت کو ایسے جھٹکے لگائے کہ سب کو دیوار سے لگا دیا۔ ایک طرف بے روزگاری کا ایک طوفان اٹھا تو دوسری طرف پیداواری صلاحیتیں بھی دگرگوں ہو گئیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کو ایک جانب اگر کورونا وائرس اور لاک ڈائون نے آن دبوچا تو دوسری جانب ملک کے اندر سماج دشمن عناصر پر مشتمل ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں نے بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ اور اشیائے خوردنی کی افغانستان و دیگر پڑوسی ممالک میں سمگلنگ کا عروج پر پہنچنے والا دھندہ سب کے سامنے ہے جس میں متعلقہ اداروں کے ذمہ داران اہلکاروں اور افسران نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ایک سال قبل اقتدار سنبھالنے والی کسی نئی حکومت کی معاشی اصلاحات پر روشنی ڈالنے اور ہاتھ میں مائیک اور سامنے کیمرہ لئے گلیوں بازاروں میں گھومتے پھرتے اس حکومت کی کار کردگی کے بارے سوالات پوچھنا شروع کر دیں تو اس کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ''آئو مل کر تماشا لگائیں‘‘۔ تماشا لگانا آسان ضرور ہے لیکن کبھی کسی نے یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے یا اپنے سامنے کھڑے ایک عام فہم انسان سے یہ پوچھنے کی کوشش کی جائے گی کہ ''تجارتی خسارہ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ کیا کوئی عام آدمی یہ جانتا ہے کہ اگر کوئی حکومت ایک دو سال میں مدتوں سے چلے آ رہے تجارتی خسارے کو ختم کر دے تو یہ کتنا بڑ ا کارنامہ ہے؟ دنیا میں ایسے ممالک جو تجارتی خسارہ زیرو تک کر دیتے ہیں‘ ان کے اور ان کی قیا دت کے بارے میں دنیا بھر سے کس قسم کے ستائشی کلمات اور جذبات سامنے آتے ہیں‘ کبھی یہ بھی سنانے چاہئیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر پر اپوزیشن اور اس کا ہمنوا میڈیا مسالے دار پروگرام تو کر سکتا ہے لیکن یہ بتانے کی کوشش نہیں کرے گا کہ 2018ء اور 2020ء میں زرمبادلہ کے ذخائر میں فرق کی وجوہات کیا تھیں؟ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا عمران خان صاحب نے بلاشبہ اعلان کیا تھا لیکن جب اقتدار سنبھالا تو آئی ایم ایف کا سہارا لینا کیوں لازمی ٹھہرا؟
اگر کسی کو FDI (Foreign Direct Investment) کا اضافہ دکھائی نہیں دیا تو ایسے لوگوں کا کیا کِیا جا سکتا ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالی کی کرم فرمائی کا شکریہ کہ ہماری کریڈٹ رینٹنگ پروفائل میں بہتر ی آ چکی ہے، ایف بی آر ریونیو وصولی کے لئے جون 2020ء تک کا ٹارگٹ جو 398 ارب روپے تھا، وہ بڑھ کر 411 بلین تک جا پہنچا اور جولائی کا ٹارگٹ 243 ارب روپے رکھا گیا تھا، جو بڑھ کر 300 ارب حاصل کر لیا گیا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں گرانی کی شرح جنوری 2020ء میں 14.6 فیصد تھی‘ وہ چھ ماہ بعد جولائی میں گر کر 9.3 فیصد تک پہنچ گئی۔ ٹریڈ ایکسپورٹ کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیں تو عمران خا ن حکومت میں‘ بر آمدات میں جو پاتال کی سطح تک گرتی جا رہی تھیں‘ میں بیس جولائی تک 5.80 فیصد اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جبکہ در آمدات میں 4.2 فیصد کی کمی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔کرنٹ اکائونٹ خسارہ‘ جو کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ 24 جولائی 2020ء کو 3.2 فیصد تک رہ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 جولائی کو 18.9 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو کورونا وائرس اور لاک ڈائون کی سختیوں کے باوجود کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس سلسلے میں اوور سیز پاکستانیوں کی خدمات کا ذکر اور پھر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا نہ کرنا کفرانِ نعمت ہو گا کیونکہ ان کی خدمات اور رضاکارانہ پیشکش کی وجہ سے ترسیلاتِ زر گزشتہ سالوں سے 6.35 فیصد بڑھ کر 23.12 ارب ڈالر ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ کنسٹرکشن کو ایک انڈسٹری کی شکل دی گئی ہے اور اس سلسلے میں اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو جس طرح ٹیکسوں اور غیر متعلقہ محکموں کی پکڑ دھکڑ سے رعایت دی جا رہی ہے اگر اس کی راہ میں ملک کے کرپٹ عناصر‘ جس میں متعلقہ محکموں کے کرپٹ عناصر سرفہرست ہیں‘ نے مل کر روڑے نہ اٹکائے تو اگلے دو سال میں کم ازکم 25 لاکھ سے زائد نئی نوکریوں کی گنجائش پیدا ہو گی بلکہ کنسٹرکشن سے منسلک چالیس سے زائد پہلے سے موجود صنعتیں دن رات کام کرنا شروع کر دیں گی نیز ایک اندازے کے مطابق اتنی ہی تعداد میں ان شعبوں کی نئی صنعتیں بھی وجود میں آئیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved