تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     27-08-2020

سراب

کبھی آپ کے ساتھ زندگی میں ایسا ہوا ہے کہ کسی جگہ بہت سے لوگ اکٹھے ہوں اور اچانک وہاں کوئی شخص کوئی عجیب‘ الٹی سیدھی حرکت کر دے اور سب لوگ حیرت سے اس کی طرف دیکھنا شروع ہو جائیں۔ اگر آ پ دوستوں کے درمیان بیٹھے ہوں اور آپ بے عقلی کی کوئی بات کر دیں تو سب آپ کی طرف حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس وقت انسان کتنا شرمندہ ہوتا ہے کہ وہ سب نارمل لوگوں سے الگ ہو گیا ہے۔
انسانی نفسیات ہے کہ دوسروں کے درمیان آپ ان جیسے نارمل اور ہوش و حواس والے انسان بننا چاہتے ہیں۔ اگر 80 سال تک انتہائی عقلمندانہ باتیں کرنے والا کوئی شخص اچانک الٹی سیدھی باتیں کرنا شروع کر دے تو لوگ اس کی ساری زندگی کو نہیں دیکھتے بلکہ فوراً اسے دماغی ہسپتال لے جاتے ہیں۔ اپنے آپ سے باتیں کرتا کوئی آدمی جب آپ کو کہیں نظر آتاہے تو آپ کو اس پہ ترس آتا ہے۔
آج کل مگر آپ ایک بڑے شاپنگ پلازا میں جاتے ہیں۔ وہاں سب نارمل لوگوں کے درمیان ایک جگہ ایک آدمی‘ جس کے سر اور آنکھوں پر کچھ آلات نصب کر دیے گئے ہیں، ایک ان دیکھی مخلوق سے لڑ رہا ہے۔ دراصل وہ ایک گیم کھیل رہا ہے۔ اسے جو عینک پہنا دی گئی ہے، اس کی وجہ سے اسے اپنے وہ دشمن دکھائی دیتے ہیں، جو کسی اور کو دکھائی نہیں دیتے۔ یہ اس قدر Real ہوتا ہے کہ اسے اب اس بات کی کوئی پروا نہیں رہی کہ میرے آس پاس جو سینکڑوں لوگ چل پھر رہے ہیں، وہ مجھے ہوا میں مُکّے مارتا دیکھ کر میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ حقیقت میں مگر وہاں کوئی دشمن نہیں۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھوں سے عینک اتاری جائے گی تو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوگا، اسے کوئی چوٹ نہیں لگی ہو گی۔ کچھ کمزور دل لوگ اس عمل میں اس قدر زیادہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ وہ عینک اتار کے پھینک دیتے ہیں۔
چلیں! وہ تو تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ کوئی دشمن موجود نہیں۔ یہ سب کچھ تصوراتی ہے۔ وہ ہنستے کھیلتے اس عمل میں سے گزر جاتے ہیں اور اس سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ اگر آپ افریقہ سے ایک ایسا قبائلی پکڑ لائیں، جس نے ساری زندگی کوئی الیکٹرونک چیز دیکھی ہی نہ ہو۔ اگر اس کی آنکھوں پر یہ عینک پہنائی جائے اور دشمن اور پر حملہ آور ہو تو اس کا کیا حال ہوگا؟ وہ تو جی جان سے اس کے خلاف لڑے گا۔
انسان دنیا میں جو کچھ دیکھتا‘ سنتا ہے، وہ سب کا سب اس کے پانچ حواس‘ آنکھ، کان، ناک، زبان اور جلد پہ منحصر ہوتا ہے۔ ان حسیات کو دھوکا دیا جا سکتا ہے۔ نظریۂ ارتقا کو غلط ثابت کرنے کی خاطر اپنی زندگی وقف کر دینے والے ترک مصنف ہارون یحییٰ نے ایک اور نظریہ پیش کیا تھا؛ گو کہ نظریۂ ارتقا کے بارے میں اس کے تصورات یکسر غلط تھے۔ کرّۂ ارض پہ ارتقا وقوع پذیر ہوا ہے، اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ سب سے پہلے دنیا میں سمندروں میں آبی حیات پیدا ہوئی، قریب 53 کروڑ سال پہلے۔ پھر 31 کروڑ سال پہلے ریپٹائلز وجود میں آئے۔ 20 کروڑ سال پہلے میملز وجود میں آئے۔ پانچ کروڑ سال پہلے پرائیمیٹس زمین پہ پیدا ہوئے۔ پرائمیٹس میں دماغ سب سے زیادہ ارتقا سے گزرا ہوا ہے جبکہ ہومو سیپیئنز (Homosapien) یعنی ہم قریب تین لاکھ سال پہلے پیدا ہوئے۔
لیکن ہارون یحییٰ نے ایک بہت دلچسپ نظریہ دیا۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ ایک بہت پریشان کن صورتِ حال میں گھرے ہوتے ہیں۔ آپ سے قتل ہو گیا ہے یا آپ کا کوئی پیارا فوت ہو گیا ہے۔ صدمے اور خوف سے آپ کی حالت خراب ہو چکی ہے۔ اچانک آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ میں تو خواب دیکھ رہا تھا۔ اس وقت انسان کس حال میں ہوتا ہے؟ خواب دیکھنے کے دوران اسے ایک فیصد شک بھی نہیں ہوتا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں‘ وہ حقیقت نہیں۔ وہ اسی طرح اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے جیسے واقعتاً وہ اس خوفناک صورتِ حال سے گزر رہا ہو۔ 
خواب میں آپ کھانا کھاتے ہیں۔ ایک ایک نوالے کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ آپ خواب میں جو کچھ بھی دیکھتے ہیں، وہ سو فیصد حقیقت محسوس ہوتا ہے۔ آپ اپنے کپڑوں سمیت ایک ایک چیز کو جزئیات میں دیکھتے ہیں۔ چکھتے ہیں، سنتے ہیں، سونگھتے ہیں، لمس محسوس کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی تمام 5 حسیات آپ کو سارا ڈیٹا اسی طرح فراہم کر رہی ہوتی ہیں، جیسے حقیقت میں۔ اس کے بعد اچانک آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی آنکھیں تو درحقیقت بند تھیں۔ جو کچھ آپ نے دیکھا‘ وہ حقیقت نہیں تھا۔
ہارون یحییٰ یہ سوال کرتا ہے کہ آپ دنیا میں ستر سالہ زندگی گزار چکے ہیں۔ اچانک اگر ایک صبح آپ کی آنکھ کھل جائے۔ آپ کو معلوم ہو کہ جو کچھ آپ نے دیکھا، آپ کی شادی، آپ کے بچے، آپ کی نوکری، آپ کی دولت، وہ سب کچھ خواب تھا تو آپ کیا کریں گے؟ جیسے آنکھوں پر جدید ٹیکنالوجی والی ایک عینک لگا کر Senses کو دھوکا دیا جا سکتا ہے، جیسے خواب میں Senses کو دھوکا دیا جا سکتا ہے، اسی طرح یہ بھی تو ممکن ہے کہ آپ کی پوری زندگی ہی ایک خواب ہو۔ جو کچھ دنیا میں آپ نے دیکھا، وہ سب خواب تھا۔ Sensesکو دھوکا دیا جا سکتا ہے۔ آج جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آپ ایک شخص کو پرستان کی سیر کروا سکتے ہیں۔ اسے جنات سے لڑوا سکتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی ترقی کرتی رہی تو ایک دن یہ ممکن ہوگا کہ آپ ایک شخص کو تصوراتی دنیا میں لے جائیں۔ اس کے بعد وہ مستقل طور پر اسی دنیا میں رہے۔ اسے ڈرپس کی مدد سے گلوکوز ملتی رہے اور وہ سالہا سال اس تصوراتی دنیا میں ہی پھرتا رہے۔ 
دنیا میں اتنی پریشانیاں ہیں کہ کچھ لوگوں کے اعصاب ٹوٹ چکے ہیں۔ انہیں ایک جائے پناہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ سکون محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سکون آور ادویات کھاتے ہیں لیکن انہیں پھر سے جاگ کر زندگی کے خوفناک حقائق میں واپس آنا پڑتا ہے۔ اگر وہ اپنی ساری دولت دے کر ایک ایسی دنیا میں جا سکیں، جہاں پریشانیاں نہ ہوں، صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں تو کون ایسی دنیا کا رخ نہ کرنا چاہے گا۔ شوبز کے بڑے بڑے سٹارز ڈپریشن کا شکار ہیں۔ 
ہارون یحییٰ کا سوال بہت اہم ہے۔ اگر ایک دن ہماری آنکھ کھلے اور معلوم ہو کہ ہم ایک بہت طویل خواب دیکھ رہے تھے۔ اتنا طویل کہ اس دوران ہمیں سب کچھ بھول گیا۔ ہم نے جو کچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا، وہ سب کچھ تصوراتی تھا تو پھر ہم کیا کریں گے ؟ آپ یہ دیکھیں کہ انسان خواب کے اندر بھی تو خود کو سوتا ہوا دیکھتا ہے۔ بعض لوگ خواب کے اندر خواب دیکھتے ہیں۔ پھر خواب میں جاگ اٹھتے ہیں۔ اس کے بعد اصل میں جاگ اٹھتے ہیں۔ کہیں ایسا ہی کوئی خواب ہم پہ طاری نہ ہو۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ خواب میں انسان تعلقات تک استوار کر لیتا ہے۔ اس سے بڑا کیا دھوکا ہو سکتا ہے Senses کے لیے۔ 
یہ عین ممکن ہے کہ دنیا کی یہ جو ہماری زندگی ہے، یہ ایک خواب ہو۔ اگر آپ مذہبی اعتبار سے دیکھیں تو دنیا کی اس زندگی کو دھوکے کا گھر کہا گیا ہے۔ یہ سب کچھ، جو حقیقت میں اپنا وجود نہیں رکھتا۔ آپ اپنے بچّے کوہنستا کھیلتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ وہ تو ایک کھلونے کی مانند ہے، جو دنیا میں آپ کا دل بہلانے کے لیے خدا نے تخلیق کیا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے دنیا کی یہ زندگی اس قدر خوفناک ہو چکی ہے کہ اگر آج انہیں معلوم ہو کہ یہ سب کچھ ایک خواب تھا تو وہ خوشی سے پاگل ہو جائیں۔ یہ زندگی ایک خواب ہی تو ہے۔ جب آپ کا کوئی پیارا فوت ہوتا ہے تو اچانک احساس ہوتاہے کہ یہ دنیا ایک دھوکے کی جگہ ہے۔ جو آپ کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہوتا ہے، وہ اچانک مر کے مٹی ہو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved