بہتر زندگی کس کا خواب نہیں؟ دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ معیاری انداز سے جیے۔ معیار کا تعین دنیا کرتی ہے۔ ویسے تو خیر ہر انسان اپنے لیے ایک معیار طے کرتا ہے اور اُسی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ بھی دنیا طے کرتی ہے وہی بالعموم حقیقی معیار ہوتا ہے اور اُس معیار کے مطابق جینے ہی کی صورت میں توقیر کا سامان ہو پاتا ہے۔ ہر معاشرے میں اکثریت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور اعلیٰ تر معیار کی زندگی بسر کرنا ممکن ہو۔ ایسا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ دوسروں سے بلند ہوکر جینا زندگی بھر کی مشقّت ہے۔ ہم زندگی بھر اِس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس کے لیے صرف محنت کافی نہیں‘ سوچنا بھی پڑتا ہے۔ سوچے بغیر‘ منصوبہ سازی کیے بغیر اعلیٰ معیار کی زندگی ممکن نہیں ہو پاتی۔
کورونا وائرس کی وبا نے بہت سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ اب تبدیل ہونا پڑے گا۔ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں اور مختلف ذرائع سے ثابت بھی ہو جائے کہ کورونا وائرس اور اِسی قبیل کی دیگر بیماریوں کے ذریعے دنیا کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے تب بھی اس حقیقت کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ جو کچھ 'بڑوں‘ نے طے کیا ہے‘ وہی ہوگا۔ جنہیں صرف مطیع ہوکر جینا ہے اُن کے لیے چون و چرا کی گنجائش کہاں؟ جب تبدیلیوں کا موسم شروع ہو ہی چکا ہے تو اب تبدیل ہوئے بغیر چارہ نہیں۔
ایک زمانے سے پس ماندہ معاشروں کا بُرا حال ہے۔ اِن معاشروں کے لیے عمومی معیار کے ساتھ زندگی بسر کرنا بھی انتہائی دشوار ہے۔ ایسے میں اعلیٰ معیار یقینی بنانا بھلا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ اور وہ بھی آسانی سے؟ پس ماندہ معاشروں میں بھی قدرے بلند ہوکر زندگی بسر کرنے کی کوشش کے حوالے سے دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ اس نے جس معیار کو یقینی بناتے ہوئے جینا ممکن بنایا ہے‘ اُس معیار تک پہنچنا ہمارے لیے محض خیال و خواب کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے ہم سے صدیوں آگے جاچکے ہیں۔ سوال مادّی ترقی کا ہو رہا ہے۔ یہ ترقی کئی عشروں کی شبانہ روز محنت ہی کے ذریعے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ پس ماندہ معاشروں کو مختلف ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے نفسی پیچیدگیوں میں اس طور الجھادیا گیا ہے کہ اب معاملات کے بہتر ہونے کی کوئی راہ سُجھائی نہیں دیتی‘ کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
ترقی یافتہ اور پس ماندہ معاشروں کے درمیان فرق بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے چونکہ بیشتر معاملات پر متصرف ہیں اس لیے اپنی مرضی کے مطابق بہت کچھ ایسا کرتے ہیں جو صرف ان کے مفادات کو تقویت بہم پہنچاتا ہے۔ عالمی سطح کی تمام اہم پالیسیاں بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتی ہیں۔ فیصلہ سازی کے عمل پر متصرف ہونے کی بدولت بڑی طاقتیں اپنی مرضی کے اقدام ممکن بناتی ہیں۔ ایسے میں پس ماندہ معاشروں کی مشکلات کا بڑھتے جانا بالکل فطری امر ہے۔
فی زمانہ ہر اس معاشرے کے لیے انتہائی درجے کی مشکلات موجود ہیں جو کچھ کرنا چاہتا ہے۔ ترقی پذیر معاشروں کو اِسی لیے غیر معمولی محنت کے جاں گُسل مراحل سے گزرتے ہوئے جینا پڑتا ہے۔ ہاں! پس ماندہ معاشروں کے لیے کچھ زیادہ مشکلات اب نہیں رہیں کیونکہ غالبؔ کے بقول ع
مشکلیں اِتنی پڑیں 'اُن‘ پر کہ آساں ہو گئیں
تمام پریشانیاں اُن کے لیے ہوتی ہیں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، ڈھنگ سے جینے کے لیے جدوجہد کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ جب پست معیار کے ساتھ جینے کی ٹھان لی گئی ہو اور جو کچھ مل جائے اُسی کو مقدر سمجھتے ہوئے گزارا کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھالیا گیا ہو تو کوئی الجھن باقی نہیں رہتی!
پاکستانی معاشرے کی مجموعی ساخت ایسی ہے کہ بہت سوں کو زیادہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بھی بہت کچھ ملتا رہا ہے۔ ایک طرف کرپشن ہے اور دوسری طرف تن آسانی۔ یہ تن آسانی در حقیقت ہڈ حرامی ہے۔ محنت کیے بغیر کھانے کی ریت ایسی پروان چڑھی ہے کہ اب لاکھوں کی زندگی داؤ پر لگ گئی ہے۔ کورونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن سے معیشت کو جو دھچکا لگا اُس نے سب سے زیادہ انہیں متاثر کیا جو ہاتھ پیر ہلائے بغیر یا زیادہ جدوجہد کے بغیر پیٹ بھرنے کے عادی تھے۔ معاشی سرگرمیاں تھم جانے سے معاملات پلک جھپکتے میں فاقوں تک پہنچ گئے۔ بیشتر کو انتہائی شرمناک حالت میں دیکھا گیا۔ جب کام کرنے کی عادت ہی نہ پڑی ہو تو آنے والے ممکنہ مصائب کے بارے میں کون سوچتا ہے؟ جن کی جیب یومیہ بنیادپر خالی ہو جاتی ہو وہ مستقبل کی منصوبہ سازی کیا خاک کریں گے؟ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ لاک ڈاؤن شروع ہوتے ہی معاشی سکت جواب دے گئی۔ اِس کے بعد؟ قرض، امداد اور خیرات پر گزارا، اور کیا! زمانے کی ناہمواری اور خرابی کا ذکر کرتے ہوئے میر تقی میرؔ نے شاید ایسی ہی کیفیت سے متعلق ایک شہر آشوب میں کہا تھا ؎
دِلّی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں اُنہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
لاک ڈاؤن ختم ہوچکا۔ معاشی سرگرمیاں بحال ہوچکی ہیں۔ جو شعبے بالکل بند پڑے تھے وہ بھی اب کھل رہے ہیں اور بحالی کی طرف گامزن ہیں۔ ایسے میں اُن کی مشکلات کم نہیں ہوئیں جنہیں زیادہ محنت کرنے کی عادت تھی ہی نہیں۔ کسی نہ کسی طور گزارا کرنے کی ذہنیت نے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں آبادی کے ایک معقول حصے کو ناکارہ بنا رکھا ہے۔ یہ معیشت سے زیادہ معاشرت کا مسئلہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی معاشرت تبدیل کرنے پر متوجہ ہوں۔ ایسا ہوگا تو معیشت کو مثبت اور خوش گوار تبدیلیوں سے ہم کنار کرنے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔
پاکستانی معاشرے کو غیر معمولی جوش و جذبے کے ساتھ کی جانے والی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ اب تک تو چلن یہ رہا ہے جو لوگ غیر معمولی محنت کرتے رہے ہیں وہ محروم رہے ہیں۔ کم محنت کے ساتھ جینے والوں کو زیادہ مزے میں دیکھا گیا ہے۔ ''جگاڑ‘‘ کا چلن عام ہے یعنی لوگ ضرورت کے مطابق محنت کرنے اور لیاقت کا مظاہرہ کرنے سے کہیں زیادہ توجہ ''جگاڑ بازی‘‘ پر دیتے ہیں۔ پوری قوم کو ہر معاملے میں شارٹ کٹ تلاش کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ کوئی بھی معاملہ جتنی لیاقت، سنجیدگی اور محنت چاہتا ہے اُس کا اہتمام کرنے سے زیادہ توجہ اِس بات دی جاتی ہے کہ گاڑی کسی نہ کسی طور چلتی رہے۔
کورونا کی وبا نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے عوام بھی سمجھ چکے ہیں کہ اب بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عمومی سطح پر لوگ اچھی خاصی محنت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں۔ پس ماندہ معاشروں میں عوام کو بھرپور محنت اور دیانت کے ساتھ زندہ رہنے کی عادت پروان چڑھانے کی تحریک دینا اب لازم ٹھہرا ہے۔ ترقی پذیر معاشروں کو دیکھ کر ہر پس ماندہ معاشرہ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اس کے لیے بنیادی طور پر یہ لازم ہے کہ انسان دانش سے کام لے، حالات کی نزاکت کو سمجھے، بدلتے ہوئے ماحول میں خود کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچے تاکہ نئی طرزِ حیات سے ہم آہنگ ہوکر جینے کی راہ ہموار ہو۔
وقت بہت کچھ سکھاتا ہے۔ قدرت کے اپنے طریقے ہیں۔ وہ ہم پر مہربان ہی رہتی ہے۔ ہم جن معاملات کو مصائب سمجھتے ہیں وہ قدرت کی طرف سے کچھ سکھانے کا اہتمام ہی ہوتے ہیں، اور کچھ نہیں۔ جو سیکھ لے وہی جیتا اور جو جیتا وہی سکندر۔ یہ دو چار ہزار یا چند لاکھ کا نہیں، کروڑوں افراد کا معاملہ ہے۔ پاکستان اُن معاشروں میں سے ہے جن کے باشندوں کو بہت کچھ سیکھنا ہے، خود کو اِس طور بدلنا ہے کہ دنیا دیکھے اور تسلیم کرے کہ ہاں کوئی تبدیلی رونما ہوئی تو ہے۔ اگر یہ موقع ضایع کردیا گیا تو بہت کچھ ضایع ہو جائے گا۔ مطلوب سطح کی محنت کیے بغیر جینے والوں کو اب اپنا جائزہ لینا ہی پڑے گا۔