تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-08-2020

ہُن خوش او؟

اس قوم کا بڑا دل ہے‘ لکڑ ہضم پتھر ہضم ۔
جب بائیس برس قبل اسلام آباد آیا اور خبریں نکالنا شروع کیں تو میرا حیرت سے منہ کھل جاتا ‘ہائیں یہ بھی ہوسکتا ہے؟ ہر دفعہ کوئی خبر نکلتی تو سوچتا اس سے بڑا سکینڈل اور کیا ہوگا اور ہر دفعہ میں ہی جھوٹا نکلتا۔ ایک دفعہ ایک ای میل عارف والا سے کسی نے بھیجی تھی ۔ وہ پٹرول پمپ کے مالک تھے۔ لکھا کہ یہ سکینڈل بریک اور رپورٹ کرنا بند کریں۔ میرا پٹرول پمپ ہے‘ کہیں ہمارے علاقے کے لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ اگر اسلام آباد میں اتنے بڑے ڈاکے پڑ سکتے ہیں تو وہ عارف والا کا ایک پٹرول پمپ کیوں نہیں لوٹ سکتے؟مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ کیسے اسلام آباد میں جاری لوٹ مار کے اثرات نیچے تک جاتے ہیں اور عام لوگ جب دیکھتے ہیں کہ ہر طرف انی مچی ہوئی ہے اور جو جتنا بڑا ڈاکو ہے اس کا اتنا ہی احترام ہے تو وہ اپنے اپنے لیول پر دھوکہ ‘ فریب اور لوٹ مار کی کوشش کرتے ہیں ۔ 
اس تمہید کا مطلب کچھ اور ہے۔ ابھی ایک وفاقی وزیر کی پریس کانفرنس سن رہا تھا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ ملک میں گندم کی کمی ہوگئی ہے اور اب گندم سے بھرے آٹھ جہاز پاکستان کی طرف چل پڑے ہیں ۔ اندازہ کریں گندم کا سیزن ختم ہوئے ابھی دو ماہ ہوئے اور گندم کا مسئلہ پیدا ہو بھی گیا ۔گندم ایسے غائب نہیں ہوئی بلکہ پوری محنت کی گئی تاکہ فصل کٹنے کے ساتھ ہی اس کی شارٹیج کی جائے۔ کسانوں سے جو گندم خریدی گئی اس کا ریٹ چودہ سو روپے تھا اور اب جو باہر سے گندم منگوائی گئی ہے اس کا ریٹ تقریباً 2000 روپے فی چالیس کلو گرام ہے۔ یوں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو گندم کسانوں سے سرکاری ریٹ پر خریدی اس حساب سے کسانوں کو 100 ارب روپے کم دیے گئے۔ اب وہی اربوں روپے غیرملکی کسانوں کو دیے جارہے ہیں‘ اوریہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا۔ پرویز مشرف دور میں بھی یہی کچھ ہوا تھا ۔ شوکت عزیز اس وقت وزیراعظم بن چکے تھے۔ ان کی کابینہ میں وزارتِ زراعت نے ایک سمری پیش کی جس میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ گندم کی قیمت پچیس سے پچاس روپے فی من بڑھا دیں کیونکہ خطرہ ہے کہ کسان گندم کی کاشت کم کررہے ہیں اور پاکستان کو شدید کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ جب یہ سمری کابینہ میں پہنچی تو شیخ رشید صاحب نے مخالفت کی‘ جبکہ شوکت عزیز کو پہلے ہی کچھ پتہ نہ تھا ‘یوں کسانوں کیلئے پچیس سے پچاس روپے فی من کا اضافہ نہیں ہونے دیا ۔ اُس سال گندم کی کاشت اتنی نیچے جاگری کہ کابینہ اور شوکت عزیز نے ڈیڑھ سے دو ارب ڈالرز کی گندم باہر سے منگوائی اور سارا پیسہ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور دیگر غیرملکی کسانوں کو ادا کیا گیا ۔بہرحال پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنتے ہی گندم کی قیمت پونے پانچ سو روپے فی من سے ایک ہزار روپے سے اوپر تک لے گئے اور پھر آنے والے برسوں میں گندم کی اتنی پیداوار ہوئی کہ دس سال تک کسی نے گندم کی امپورٹ کا سوچا تک نہیں ۔ مگر جنہوں نے مال کمانا ہوتا ہے وہ کب باز آتے ہیں۔ اس وقت بھی جب گندم وافر مقدار میں گوداموں میں پڑی تھی‘ کچھ ملکوں سے گھٹیا گندم منگوا لی گئی ۔ پاکستان نے اس فاضل گندم میں سے کئی ملکوں کو تحفہ بھی دیا اور افغانستان کو بھی سپلائی کی جاتی رہی ۔
اب ذرا سن لیں۔ پچھلے سال پھر وہی ہوا جو شوکت عزیز نے کیا تھا ۔ اس دفعہ فرق یہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان ہیں۔ ایک سمری پھر کابینہ کو بھیجی گئی‘ جس میں بتایا گیا کہ کسان اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں‘ زراعت کی گروتھ بہت نیچے چلی گئی ہے‘ ہمیں چاہیے کہ گندم کی قیمت بڑھائیں ۔ شیخ صاحب نے پھر کہا کہ جناب بہت مہنگائی ہوجائے گی اور ووٹ خراب ہوں گے۔ نواز شریف کے دورمیں بھی گندم کی قیمت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا تھا اور عمران خان صاحب 2014 ء کے دھرنے میں کہتے تھے کہ نواز حکومت کسان دشمن ہے اور وہ اقتدار میں آکر گندم کی قیمت بڑھائیں گے۔ جب وہ وزیراعظم بن گئے تو گندم کی قیمت معمولی سی بڑھائی گئی اور اسے1365 کیا گیا ‘ اس دوران سندھ حکومت نے اکتوبر‘ نومبر 2019 ء میں قیمت چودہ سو روپے کر دی تو وفاقی حکومت نے بھی دبائو میں آکر مارچ میں چودہ سو روپے کر دی‘ لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی کیونکہ اب گندم کی کٹائی ہورہی تھی کاشت نہیں ۔
کسانوں نے کم ریٹ کی وجہ سے زیادہ گندم کاشت نہیں کی اور اتنی گندم کاشت کی جتنی اپنی ضرورت کے لیے تھی یا پھر کچھ بیچ کر خرچے پورے کرنے کا پروگرام تھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی فصل گوداموں تک بھی پوری نہیں پہنچی تھی کہ گندم کی شارٹیج ہوگئی ۔ یہی کچھ گنے کے ساتھ ہوا۔ شوگر ملوں نے برسوں تک کسانوں کا استحصال کیا اور گنے کی قیمتیں روک کر کسانوں کو تباہ کیا۔کسانوں کا دبائو استعمال کرتے ہوئے حکومت سے تیس ارب روپے کی سبسڈی بھی لے لی۔ گنے کی سپورٹ پرائس سے بہت کم قیمت پر گنا خریدا گیا اور چھ چھ ماہ تک ادائیگیاں نہ کی گئیں۔اب پاکستان میں تاجروں نے حکومتیں سنبھال لی ہیں۔ پہلے نواز شریف کے ساتھ سب صنعت کار اور تاجر اسمبلیوں میں پہنچے اور انہوں نے حکومت کو نفع نقصان پر چلانا شروع کیا ۔ ان کی کتاب میں کسان نہیں تھا‘ کیونکہ نواز لیگ کو ووٹ شہروں سے پڑتا تھا۔ ان کی بلا سے کسان مرے یا جیے۔ پیپلز پارٹی کسانوں‘ مزدورں کی پارٹی سمجھی جاتی تھی‘ لیکن پھر اس پارٹی نے بھی نواز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بزنس مین بننے کا فیصلہ کیا اور ملوں کے مالک بن بیٹھے بلکہ سندھ میں پولیس کے ذریعے کسانوں سے زبردستی گنا لیا گیا ۔ عمران خان کو نواز شریف کی کسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے کچھ سپورٹ سرائیکی علاقوں سے ملنا شروع ہوئی‘ جب انہوں نے دھواں دھار بیانات جاری کیے کہ وہ اقتدار میں آگئے تو کسانوں کو زیادہ قیمت دیں گے‘ مگر جب عمران خان صاحب کو حکومت ملی تو پتہ چلا کہ ان کی پارٹی میں بھی وہی کاروباری بیٹھ گئے ہیں اور وہی حشر کررہے ہیں جو نواز لیگ اورپیپلز پارٹی دور میں ہوتارہا تھا ۔ اب حالت یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب ڈالرز سے زیادہ کی گندم اور چینی باہر کے کسانوں سے منگوائی جارہی ہے۔ چینی جو دو سال پہلے پچپن روپے فی کلو تھی پی ٹی آئی کے نیک لوگوں کے دور میں ایک سو روپے عبور کر گئی ہے جبکہ گندم دو ہزار روپے فی من کے ریٹ پر باہر سے منگوائی گئی ہے۔ 
اندازہ کریں جب آپ کو ایک ایک ڈالر کے لیے بھیک مانگنی پڑرہی ہے اس وقت آپ نے غیرملکی کسانوں سے دو ہزار روپے فی من‘ قیمت ڈالروں میں دے کر‘ گندم خریدی لی لیکن اپنے کسان کے لیے پندرہ سو روپے بھی نہیں تھے‘ جن کے لیے آپ دھرنے کے دنوں میں بڑھکیں مارتے تھے۔یہ ہیں اس ملک کی پالیسیاں اور اس ملک کے سرکاری بابوز اور حکمران۔ صرف شیخ صاحب کے کہنے پر ‘اُ نہیں خوش کرنے کے لئے پہلے شوکت عزیز نے دو ارب ڈالرز تو اب عمران خان نے تقریباً ایک ارب ڈالرز غیرملکی کسانوں کو دے دیے ۔ شیخ صاحب نے اپنے ووٹ بچا لیے‘ چاہے کسان متاثر ہوئے اور ملک کا ادھار میں مانگا ہوا ایک ارب ڈالر خرچ ہوگیا ۔ شیخ صاحب ہن خوش او؟ 
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی 
اب کسی بات پر نہیں آتی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved