یہ خبر بیس پچیس دن قبل اخبارات میں چھپی تھی اور اس موضوع پر دو سال سے آنے والی خبروں کی تاحال آخری کڑی ہے۔ اس کے مطابق وفاقی کابینہ نے ایک جامع پلان کی منظوری دی ہے جس کے مطابق موجودہ 441 وفاقی اداروں میں سے 324 برقرار رکھے جائیں گے جن میں88 بڑے اور 204 خود مختار ادارے شامل ہیں۔ 10ادارے صوبائی حکومتوں یا متعلقہ وزارتوں کو سونپ دیے جائیں گے۔ 9ادارے تحلیل و ختم کر دیے جائیں گے جبکہ 17ادار ے دیگر اداروں میں ضم کرکے ان کی علیحدہ حیثیت ختم کر دی جائے گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی زیر نگرانی اداروں کی تنظیم نو کا خاکہ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے فوراً بعد شروع ہوا تھا اور اب یہ حتمی شکل میں کابینہ کی منظوری سے گزر گیا ہے۔ میں نے اخبار بند کیا۔ مختلف سرکاری دفاتروں کے منظر حافظے میں گھومنے لگے جن سے زندگی بھر میں واسطہ پڑتا رہا تھا۔ یہ مناظر کوئی خاص خوش کن نہیں تھے۔
کمرے میں نیم تاریکی‘ گھٹن اورسگریٹ کی بو۔ تین چار میزیں مختلف سمتوں میں پڑی ہوئیں، جن میں ایک آدھ لنگڑی بھی تھی۔ ہر میز کے پیچھے کلرک بادشاہ یا سپروائزر کی کرسی۔ ایک دو میزوں پر سبز رنگ کا نچا اور ادھڑا ہوا سرکاری کپڑا۔ باقی میزیں عریاں حالت میں۔ میزوں کے سامنے ملاقاتیوں کی کرسیوں کے ہتھے ٹوٹے ہوئے اور کیلیں اکھڑی ہوئیں۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ لوہے اور لکڑی کی الماریاں جن میں کسی کا دروازہ بند ہونے کے قابل نہیں۔ یا تو ضرورت اور گنجائش سے زیادہ سامان ٹھنسا ہونے کی وجہ سے اور یا دروازوں کے قبضے ٹوٹ جانے کی وجہ سے۔ اندر ٹھونسی ہوئی فائلیں جن کے کاغذ اپنے کور سے بہت مدت پہلے باہر آ چکے ہیں۔ اکثر کاغذ ات گرد اور وقت کی مار کھا کر پیلے پڑے ہوئے۔
یہ منظر اور یہ حالتِ زار خود گواہ تھے کہ یہ ایک سرکاری محکمے کا کمرہ ہے۔ لیکن منظر یہاں ختم نہیں ہوا؛ یہاں سے شروع ہوا ہے۔ کمرے میں اگر سیٹوں پر کلرک اور سپروائزر موجود ہوں (یہاں 'اگر‘ کا لفظ بہت اہم ہے) تو کمرہ دفتری اوقات میں ذومعنی جملوں سے مسلسل گونجتا ہے۔ اس کی لذت بڑھانے کے لیے چائے کے مسلسل دور چلتے ہیں۔
اگر یہ شبہ ہو کہ یہ حالات اسی دفتر کے ساتھ مخصوص ہیں تو آئیے کسی اور سرکاری دفتر چلتے ہیں۔ یہ ایک اور دفتر ہے۔ ایک بڑے سے ہال میں جہاں پندرہ سولہ اہلکاروں کی سیٹیں ہیں۔ تین یا چار پر عملے کے لوگ بیٹھے ہیں۔ باقی سب خالی ہیں۔ یہ گیارہ بارہ سیٹیں کیوں خالی ہیں اور ان کا عملہ کہاں ہے؟ آپ کو کبھی قابلِ اطمینان جواب نہیں ملے گا۔ یہی معلوم ہوگا کہ میٹنگ میں ہیں یا سرکاری کام سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ آپ کئی گھنٹے بیٹھے رہیں یا مسلسل کئی دن چکر لگاتے رہیں‘ تب بھی ان گیارہ لوگوں کی نہ میٹنگ برخواست ہوگی نہ سرکاری کام ختم ہوگا۔ اگر کوئی پبلک ڈیلنگ کا دفتر ہے تو اس منظر میں سائلین کی بے بسی کے منظر کا اضافہ کر لیں جن میں بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہوتے ہیں۔ دفتر کے سربراہ کا کمرہ قدرے بہتر حالت میں ہوتا ہے۔ لیکن صاحب اس میں کم کم ہی پائے جاتے ہیں۔ اور اگر اتفاق سے پائے جائیں اور مزید اتفاق سے آپ کو ملاقات کے لیے بلا بھی لیں تو یہ آپ کی بدقسمتی ہے کیونکہ ان کے پر رعونت اور افسرانہ لہجے کی تاب لانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
یہ منظر میرے ساتھ یا کسی اور فرد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جس کا ان دفتروں سے واسطہ پڑا ہے یا واسطہ پڑتا ہے‘ اس کا عینی شاہد ہے۔ وفاقی دارالحکومت اور صوبائی دارالحکومتوں سے باہر نکل جائیں تو ان مناظر کی ابتری میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایک بار آپ ان دفتروں کا چکر لگا لیں تو کافی دن آپ حیرت اور تکلیف سے باہر نہیں نکل پاتے۔ حیرت یہ کہ یہ دفتر چل کیسے رہا ہے؟ اور ان دفاتر کے کندھے پر ملک کا نظام کیسے چل رہا ہے؟ اور تکلیف یہ کہ یہ ساری تنخواہیں‘ یہ سارے اخراجات ہماری جیب سے جا رہے ہیں اور ہمارے لیے ہی ان کا استعمال سب سے کم ہے۔ لیکن اصل تکلیف کا بیان تو ابھی آگے ہے۔ میں ابھی تو ان دفاتر کی بات کر رہا ہوں جو بنیادی طور پر مختلف لازمی شعبوں سے متعلق ہیں اور جن کے بغیر کسی حکومت اور کسی معاشرے کا گزارہ نہیں ہے۔ متعدد محکمے ہیں اور لاتعداد شعبے‘ جن سے واسطہ لازماً پڑتا ہے اور ایسا پڑتا ہے کہ بس!
لیکن سرکاری دفاتر کی ایک قسم اور بھی ہے۔ وہ ادارے جو علم، ادب، زبان، ثقافت، ادبی ورثہ، علمی تحقیقات وغیرہ کے فروغ اور تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ جن میں وفاقی حکومت کے ادارے بھی ہیں اور صوبائی سطح کے شعبے بھی۔ یہ ادارے وہ ہیں جہاں ایک عام آدمی کا گزر نہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عام آدمی کو یہ خبر بھی نہیں کہ اس طرح کے مختلف ناموں والے بہت سے ادارے قائم ہیں۔ اور اکثر کی نصف صدی سے بھی زیادہ عمر ہو چکی ہے۔ ان اداروں سے ادیبوں، شاعروں، ادب دوستوں، علمی شخصیات، محققین اور تعلیم سے وابستہ افراد کا رابطہ ہوتا ہے۔ ان اداروں کی بات کروں تو میری تکلیف دوچند ہو جاتی ہے۔ اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ میں خود لکھنے پڑھنے کے شعبے سے منسلک ہوں۔ ادب، شاعری، زبان، علم، صحافت وہ میدان ہیں جن میں ایک عمر گزری ہے اور ان شاء اللہ باقی بھی انہیں میں گزرے گی۔ ایسے کسی آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ ان علوم و فنون کے تحفظ اور فروغ کے لیے مزید ادارے قائم ہوں۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی، اس دورِ انحطاط میں جب ان علوم کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہے، ان کی بھرپور سرپرستی کرے اور ان کے احیا کو ممکن بنائے۔ یہ وہ خواہشات ہیں جو ہر اہلِ علم اور اہلِ ادب کے دل کی ترجمانی کرتی ہیں۔
ایک منٹ کے لیے ایسے کسی ادارے کا تصور کریں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ بعض اداروں کی عمر ساٹھ سال سے بھی زیادہ ہے۔ میں نے کالم کی ابتدا میں ایک سرکاری دفتر کا جو نقشہ کھینچا تھا‘ وہ دہرا لیں اور اس میں یہ اضافہ کر لیں کہ چونکہ یہ عوام الناس کے براہِ راست رابطے کے ادارے نہیں ہیں‘ ان کے جاگنے یا سونے سے کسی کا کام رکتا یا چلتا نہیں ہے۔ ان کے کام پر نہ توجہ ہوتی ہے اور نہ ان کی بری کارکردگی کی وجہ سے کسی حکومت کی سیاسی پوزیشن اور ساکھ خطرے میں پڑتی ہے، اس لیے سب اس طرف سے آنکھیں بند کیے رہتے ہیں۔ جو کام جیسا چل رہا ہے یا اگر نہیں بھی چل رہا ہے‘ بس ٹھیک ہے۔ عام طور پر جنہیں سیاسی طور پر خوش کرنا مطلوب ہوتا ہے یا جن کے ضرر سے بچنا مقصود یا زبان بندی مطلوب ہوتی ہے‘ وہ ان اداروں میں دھانس دیے جاتے ہیں۔ اور ظاہر ہے ایسے لوگ سیٹ پر بیٹھ کر کام کیوں کریں گے؟
میں ان چند گنے چنے اداروں کو بھی جانتا ہوں اور ان قابل قدر شخصیات کو بھی جنہوں نے مسائل کے باوجود ان اداروں کے قیام کے مقصد کی طرف خاطر خواہ پیش رفت کی اور عمدہ کام بھی سامنے آیا۔ لیکن ایسے ادارے اور افراد آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ آٹے میں نمک برابر ان لوگوں میں کوئی کارآمد شخصیت جیسے ہی ہٹی، ادارہ پھر اسی زوال، کاہلی بلکہ ہڈ حرامی کی راہ پر چل نکلا جو باقی کا شعار ہے۔ اگر ایسے اداروں کی پوری عمر کا حساب لگایا جائے‘ اچھے اور برے دونوں قسم کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ یہ ادارہ قوم کو بہت مہنگا پڑا ہے۔ اس لیے ان اداروں کی مجموعی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔آپ نے بھی یہ جملہ بہت بار سنا ہوگا‘ ہم نے بھی بہت سنا کہ فلاں اکیلے آدمی نے تن تنہا اکیڈمیوں اور اداروں سے بھی زیادہ کام کیا ہے۔ اور یقینا ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن ظالم حقیقت یہ ہے کہ ان علمی اور ادبی اداروں کے معاملے میں جملہ یہ بنتا ہے کہ ان اکیڈمیوں اور اداروں نے مل کر ایک تنہا آدمی جتنا کام کیا ہے۔ تمام تر ممکنہ سہولتوں کے بعد ایک پورے ادارے کا ایک آدمی جتنا کام۔ اور میں نے تو اداروں کو اس کام پر بھی فخر کرتے دیکھا ہے۔