تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-08-2020

کچھ اِدھر سے کچھ اُدھر سے

بارشوں نے تو ہمارا وہ حال کر دیا ہے جو کسی کاقلندر کی کسی بات نے کر دیا تھا یعنی‘ پانی پانی۔ اس تسلسل اور قوّت سے پہلے ایسا کب ہوا ہوگا، بس یوں سمجھیے کہ ہماری صورت حال اگر کراچی جیسی نہیں تو اس سے کچھ زیادہ مختلف بھی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ عارضی ہے۔ لیکن خاصی پریشان کُن اور تکلیف دہ۔ سڑکیں یہاں بھی کہیں کہیں تالاب کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ گاڑیاں بند ہو جاتی ہیں اور راستے بھی۔ یہ صورت کھیتوں، کھلیانوں کے لیے تو شاید اتنی نقصان رساں نہ ہو، کچی بستیوں اور اندرونِ شہر کے پرانے مکانوں کے لیے یہ ایک آفت سے کسی طور کم نہیں ہے۔ یہاں گھنٹہ گھنٹہ پھر لگاتار اور موسلا دھار بارش بھی ہوتی ہے۔ اگر وقفے وقفے سے رات بھر ہوتی رہی تو دن میں بھی نہ خود دم لیتی ہے نہ کسی اور کو لینے دیتی ہے۔ ادھر باقی پرندوں نے تو کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی البتہ چڑیاں پانی میں باقاعدہ نہاتی اور بارش کے مزے لیتی پائی گئی ہیں۔ لان بار بار پانی سے بھرتے ہیں اور بار بار پمپ لگا کر اسے نکلوانا پڑتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیڑ پودے بھی اس سے لطف اندوز ہونے کی بجائے پریشان پریشان دکھائی دیتے ہیں اور یہی کہنا پڑتا ہے کہ باقی درجہ بدرجہ خیریت ہے۔ پالتو کتوں کا ایک دم خاتمہ ہو گیا تھا، کچھ مر گئے اور کچھ فرمائش پر دوستوں کو دے دیئے گئے۔ اب ایک عرصے بعد سیاہ رنگ کا ایک پپّی کہیں سے لایا گیا ہے جو گھاس پر چلتا ہوا ایک عجیب ہی منظر پیش کرتا ہے اور یہی جی چاہتا ہے کہ یہ بڑا نہ ہو اور یہیں رُک جائے کہ اس کی آواز بھی دل کُشا ہے اور سائز بھی۔
اور کچھ زیادہ خبریں نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو زیادہ خوش کُن نہیں ہیں۔ مثلاً جامن اور چیکو کی فصل اس بار نہ ہونے کے برابر تھی۔ پورے یعنی صحیح و سالم چیکو خال خال ہی دستیاب ہوئے ہیں کیونکہ زیادہ تر پر چڑیوں اور طوطوں نے طبع آزمائی کر رکھی تھی۔ لیموں تو خیر ہے ہی سدا بہار پھل، سٹرس کے دیگر ثمرات بھی یوں سمجھیے کہ اپنے نصف سائز تک پہنچ چکے ہیں۔ چنانچہ فی الحال صرف لیموں چل رہا ہے یا امرود۔ بارشوں کی وجہ سے لالیوں کے علاوہ باقی پرندوں کا آنا جانا بہت کم ہو گیا ہے البتہ چڑیاں پائی جا رہی ہیں، کوّے یا قمریاں جو کہیں نہیں جاتیں شاید اس لیے کہ انہوں نے اپنی رہائش بھی انہی پیڑوں میں رکھی ہوئی ہے۔ بارش کی وجہ سے آج تو واک بھی نہیں ہو سکی تھی، ہلکی ایکسر سائز پر ہی گزارہ کرنا پڑا۔
ایسا لگتا ہے کہ ان بارشوں کی وجہ سے شاید سردیاں بھی کچھ وقت سے پہلے ہی شروع ہو جائیں اور یہ غیر معمولی بارشیں موسم پر بھی اثر انداز ہوں۔ کارونا کی وجہ سے موسم گرما کا انتظار کرتے رہے اور وہ آ کر گزر بھی گیا اور اس کے باوجود خدا کا شکر ہے کہ اس کا زور بتدریج کم ہو رہا ہے۔ خدا کرے کہ عاشورہ کے دو دن بھی خیر و عافیت سے گزر جائیں اور یہ بلا پھر زور نہ کر جائے کیونکہ یہ اجتماعات قدرتی ہوں گے اور کوئی احتیاط بھی نہیں کی جا سکتی کہ حالات خاصی حد تک معمول پر آنے لگ گئے ہیں۔ اگرچہ احتیاط کا مشورہ اب بھی دیا جا رہا ہے تا کہ یہ پھر عود نہ کر آئے کیونکہ ایک حد تک تو اس نے کچومر ہی نکال کر رکھ دیا تھا۔ معیشت کو جو دھچکا لگا ہے اس سے جانبر ہونے میں بھی ایک عرصہ لگے گا۔ ہمتِ مرداں مددِ خدا۔
صبر و ضبط
ایک درویش کے بارے میں روایت ہے کہ ایک مسئلہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ ایسے معاملات میں گھر سے نکل جانا مفید رہتا ہے، چنانچہ اس نے زادِ راہ کی مختصر گٹھڑی اپنے ساتھ رکھی اور نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں کئی شہر اور گائوں اس نے گزار دیئے حتیٰ کہ ایک شام اسے کسی گھر میں مہمان ہونا پڑا۔ وہ صحن میں لیٹا ہوا تھا کہ چھت پر سے کچھ لوگ اس پر آوازے کسنے لگے۔ کبھی اس کی داڑھی کو نشانہ بناتے اور کبھی اس کی ہیئت کذائی کو۔ لیکن وہ بڑے صبر و تحمل سے برداشت کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ کھانا کھاتے اور ہڈیاں اس پر پھینکتے رہے اور جب انہوں نے اس پر شراب کا گلاس بھی انڈیلا تو اسے شدید غصہ آیا لیکن اس نے اپنے غصے اور طیش کو اتنی کاوش سے ضبط کیا کہ وہ مسئلہ جو کئی دنوں سے اسے پریشان کر رہا تھا، اس پر وا ہو گیا!
منقوش (طویل نظم)
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ کتاب ایک طویل نظم پر مشتمل ہے جسے نوید ملک نے تخلیق کیا ہے اور جسے رومیل ہائوس آف پبلی کیشنز راولپنڈی نے شائع کیا ہے۔ انتساب اس کے دو ہیں۔ پہلا والدِ مرحوم و مغفور محبوب حسین،و الدہ اور خالو صوفی ضمیر اختر نقیبی کے نام اور دوسرا سلمان علی، عرفان علی، محمد عبدالرحمن اور بیگم کے نام ہے۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور پروفیسر احسان اکبر اور ڈاکٹر امجد حسین کرناٹک (بھارت) کی شاعر اور نظم کے بارے تحسینی ر ائے درج ہے۔ کتاب پیپر بیک میں شائع کی گئی ہے اور 50 صفحات پر مشتمل ہے۔ شاعر کے دو شعری مجموعے ''اک سفر اندھیرے میں‘‘ اور ''کامنی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ آزاد نظم کا نمونہ ہے، رواں اور خوبصورت انداز بیان ہے۔
اور‘ اب آخر میں یہ منقبت:
یادِ حسینؓ اب جو منانے کو رہ گئی
اک رسم سی ہمارے نبھانے کو رہ گئی
اس کا سبق تو ہم سے فراموش ہو چکا
بس داستاں ہی اُس کی سنانے کو رہ گئی
ہم ایک دوسرے کے ہی کاٹا کیے گلے
رُسوائی ایک یہ بھی اٹھانے کو رہ گئی
کیا چیز کھو گئی تھی سرِ دشتِ کربلا
جس کی تلاش ایک زمانے کو رہ گئی
وہ بے مثال تھا مگر اُس شخص کی مثال
گاہے بگاہے بزم سجانے کو رہ گئی
اک لفظ ہے کہ خود پہ ہی روشن نہیں ہُوا
اک بات ہے کہ سب سے چھپانے کو رہ گئی
ہم اُن کو ناپسند ہیں وہ ہم کو ناگوار
دیوار ایک یہ بھی گرانے کو رہ گئی
اک خواب دیکھنے کے لیے رہ گیا‘ ظفرؔ
اور ایک پیاس جیسے بجھانے کو رہ گئی
آج کا مقطع
عزاداری میں شامل تو سبھی ہوتے ہیں لیکن
ظفرؔ‘ جس پر گزر جائے اسی کی کربلا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved