پاکستانی سیاست کا ایک منفرد کردار، اپنی مثال آپ اور انوکھی وضع کے مالک جناب شیخ رشیداحمد ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن جہدِ مسلسل سے وہ مقام پایا جو دنیا میں بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے انہوں نے اپنے اندر کے سیاستدان کو بھرپور انداز سے متعارف کرایا۔ شیخ رشید موجودہ قومی سیاست کا واحد کردار ہیں جو ایوب خان کے خلاف نعرہ زن رہا۔ مسلسل سیاسی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو زچ کیا، جنرل ضیاء الحق کے دور میں اپنی اہمیت منوائی۔ محمد خان جونیجو، میاں محمد نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی چھائے رہے اور آج عمران خان کی کابینہ کے بھی اہم ترین رکن ہیں۔ شیخ صاحب راولپنڈی کی اسی لال حویلی میں رہائش پذیر ہیں‘ جہاں ان کا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ حالات کیسے بھی آئے انہوں نے اپنا علاقہ، ووٹر اور اطوار نہیں بدلے۔ 1985ء سے اب تک راولپنڈی کے اسی حلقہ سے انتخابی میدان میں اترے، کامیابی کا تسلسل برقرار رہا اور آج بھی وہ قومی اسمبلی میں راولپنڈی شہر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ شیخ صاحب کے جوشِ خطابت نے بھی انہیں مقبول عوامی لیڈر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آغا شورش کاشمیری ان کے سرپرست تھے، چودھری ظہور الٰہی شہید ان پر فدا اور مجید نظامی ان کے قدر دان تھے۔وہ جلسوں کی رونق اور ٹی وی پروگراموں کی ریٹنگ بڑھانے کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔
وطن عزیز پاکستان سے شیخ رشید احمد کی محبت و عقیدت کا اظہار راولپنڈی میں واقع تاریخی لال حویلی کے باہر ہر سال 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب رات بارہ بج کر ایک منٹ پر سالانہ خطاب اور خوبصورت آتش بازی سے ہوتا ہے جو صرف جڑواں شہروں راولپنڈی و اسلام آباد ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہونے والی جشن آزادی پاکستان کی تقریبات کی اہم ترین اور مشہور روایت بن چکی ہے۔ ہر سال بچے، بوڑھے اور جوان ہزاروں کی تعداد میں شیخ صاحب کا تاریخی خطاب سننے اور آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنے کے لئے لال حویلی پہنچتے ہیں۔ یہ واحد سیاسی جلسہ ہوتا ہے جہاں تمام شرکاء خالصتاً اپنی مرضی سے تقاریر سننے کے لئے آتے ہیں۔ شیخ صاحب کے پاس الفاظ کا چنائو اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ ہرکوئی ان کی بات دلچسپی سے سنتا ہے اور معلومات کے ساتھ لطف بھی اٹھاتا ہے۔ وہ جب بھی بولتے ہیں تو لوگ توجہ دیتے ہیں اور ان کے اکثر جملے بڑی شہرت پاتے ہیں۔
راقم الحروف کو شیخ رشید احمد کی پہلی کتابیں ''فرزندِ پاکستان‘‘ اور''میدانِ خطابت کا شہنشاہ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا اور اب انہوں نے اپنی پچاس سالہ سیاسی جدوجہد پر مشتمل ایک جامع کتاب ''لال حویلی سے اقوامِ متحدہ تک‘‘ مرتب کی ہے‘ جو شائع ہو چکی ہے اور 6 ستمبر یومِ دفاع پاکستان کے موقع پر اس کی تقریب رونمائی منعقد ہو رہی ہے۔ یہ کتاب شیخ رشید احمد کی پچاس سال سے زائد سیاسی جدوجہد کے اہم ترین حالات و واقعات پر مبنی ایک اہم تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے شیخ صاحب کی یہ خود نوشت اشاعت سے قبل ہی مکمل پڑھنے کا موقع میسر آیا‘ میں تو اسے شیخ رشید یا لال حویلی کی سیاسی تاریخ کے بجائے پاکستانی سیاست کی پچاس سالہ تاریخ قرار دوں گا۔
اس کتاب میں ان کے خاندان، بچپن، لڑکپن، زمانۂ طالب علمی، سیاست کے آغاز، مشکلات، مسائل، جدوجہد سے لے کر سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات اورجیلوں میں بے گناہ کاٹی گئی قید و سزائوں سمیت زندگی کے ہر پہلو کو خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب میں شیخ صاحب نے اپنی والدہ مرحومہ خورشید بیگم کی محبت، ان کے انتقال اور اپنی زندگی کے اہم نشیب و فراز کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اہم واقعات کو انتہائی سادہ اور حقیقی انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ کتاب میں کئی اہم لیڈروں کے سیاسی عروج و زوال کی داستانیں بھی ملتی ہیں اور بہت سے اہم انکشافات بھی۔ شیخ صاحب نے کتاب میں اپنے کئی سیاسی مخالفین کا ذکر اتنی ایمانداری سے کیا ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی کیونکہ اکثر لوگ حالات و واقعات کو اپنی مرضی و خواہش کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں لیکن شیخ رشید احمد نے اپنی خود نوشت میں تمام واقعات کو ان کی روح کے مطابق اصل حقائق کے ساتھ بیان کیا ہے جس سے اس کتاب اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ کتاب میں واقعات کو افسانوی انداز دینے کے بجائے اس حقیقی ترتیب سے بیان کیا ہے کہ قاری کو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنی آنکھوں سے واقعہ یا کوئی فلم دیکھ رہا ہو۔
یہ کتاب ''دنیا پبلشرز‘‘ کی پہلی کاوش ہے جس کی طباعت میں پروف ریڈنگ، ڈیزائننگ، کمپوزنگ، سرورق، کاغذ کے انتخاب سے لے کر جلد بندی تک عالمی معیار برقرار رکھا گیا ہے اور اب اسے ملک کے کونے کونے میں تقسیم کرنے کے لئے انتہائی پیشہ ورانہ طریقہ کار اختیارکیا جا رہا ہے۔ کتاب کی قیمت صرف پندرہ سو روپے رکھی گئی ہے جو اس کے اعلیٰ طباتی معیار کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پہلی اشاعت پانچ ہزار کی تعداد میں کی گئی اور میری اطلاع کے مطابق پہلے ایڈیشن کا بڑا حصہ ایڈوانس بک ہو چکا ہے۔ شیخ رشیداحمد کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے اور ان کی خود نوشت اس کی تحریری دستاویز ہے جو آنے والی نسلوں کو قومی سیاست کی تاریخ پڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔ میرے خیال میں یہ کتاب ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی کی لائبریری میں ضرور ہونی چاہئے کیونکہ اتنی مستند سیاسی دستاویز کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ اس کتاب میں شیخ صاحب نے حالات و واقعات کو اپنی مرضی کے بجائے حقائق کے مطابق بیان کیا ہے۔
شیخ رشید احمد نے اپنی ساری زندگی خدمت کی سیاست کے لئے وقف کر رکھی ہے، انہوں نے پوری دنیا ایک کامیاب سیاح کی حیثیت سے دیکھ رکھی ہے۔ اس وقت ان کی عمر ستر برس سے زائد ہو چکی ہے اور وہ سنیئر ترین پارلیمنٹیرینز میں سے ایک ہیں۔ اطلاعات و نشریات سمیت چودہ مختلف وزارتوں کے قلمدان سنبھالنے کا اعزاز بھی ان کے حصے میں آیا۔ قومی اسمبلی سے لے کر قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک پاکستانی عوام کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ وہ جب بھی بات کرتے ہیں تو تعلیم اور صحت سے لے کر مسئلہ کشمیر تک اپنا موقف واضح انداز میں بیان کرتے ہیں۔ برصغیر کے معروف دانشور شاعر آغا شورش کاشمیری نے اپنے انتقال سے چند روز قبل شیخ رشید احمد کے بارے میں ایک نظم لکھی جسے ان کی جوانی کا عکس قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو ایسے ہی کرداروں کی ضرورت ہے جن کی زندگی کامیاب جدوجہد کا عملی نمونہ ہے۔ اپنی نئی کتاب میں انہوں نے اپنے مشاہدے اور تجربے کو الفاظ کے کوزے میں بند کر کے پاکستانی سیاست اور اپنی زندگی کے کھلے اور چھپے گوشوں تک اہلِ وطن کی رسائی ممکن بنا دی ہے۔ ان کی زندگی کا غالب حصہ کھلی کتاب کی طرح ہے، ان کی خود نوشت میں دھماکہ خیز انکشافات کے ساتھ تند و تلخ تبصرے بھی موجود ہیں۔ وہ بے دھڑک اپنی بات کہہ گزرتے ہیں۔ 'لال حویلی سے اقوامِ متحدہ تک‘ میں بھی وہی شیخ رشید نظر آئے گا، جو جلسے میں یا ٹی وی سکرین پر نظر آتا ہے۔ شیخ صاحب چھپ کر وار کرنے کے قائل نہیں، اپنے حریف کو للکارتے، میدان میں بلاتے اور پھر اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ''وکٹ کے دونوں طرف نہیں کھیلتے‘‘۔ ''پنڈی بوائے‘‘ سے فرزندِ پاکستان بننے تک انہوں نے بہت کچھ بدل ڈالا مگر اپنا انداز نہ بدلا۔ ان کی خود نوشت ان سیاسی کارکنوں کے لیے نصابی کتاب کی سی اہمیت رکھتی ہے، جو وسائل کی کمی سے گھبرا کر حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کتاب پاکستانی سیاست کے بہت سے رازوں سے پردہ بھی اٹھائے گی اور اس سے نوجوان نسل کو یہ سبق بھی ملے گاکہ انسان ہمت، حوصلے اور لگن کے ساتھ مسلسل جدوجہد جاری رکھے تو وسائل کی کمی کبھی راستہ نہیں روک سکتی اور انسان اپنی منزل ضرور پا لیتا ہے۔ سیاست کے طالب علموں اور کارکنوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔