تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     01-09-2020

خبروں کا گلدستہ… (3)

مندرجہ بالا عنوان کے تحت تیسری قسط لکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ مطالعہ کی میز پر بکھرے ہوئے پھولوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دو گلدستے بن گئے تو پتہ چلا کہ کام ادھورا رہ گیا۔ اس اُمید پر کہ چھوٹی چھوٹی خبروں پر مشتمل خبروں کے یہ مجموعے قارئین کی دلچسپی کا موجب ہوں گے‘ میں نے ہمت باندھی۔ یقین جانئے کہ جو کچھ بھی کالم نگار کے دل و دماغ میں متلاطم ہوتا ہے وہ بغیر کسی قطع برید کے بالکل بے ساختہ لکھتے چلا جاتا ہوں۔دیانتداری‘ خلوص اور نیک نیتی سے۔ ہر ہفتے جب میرا کالم چھپ جائے تو اُ س پر پھولوں اور پتھروں کی بارش ہوتی ہے۔ میں ان دونوں کو سنبھال کر رکھ لیتا ہوں۔ یہ روش میں نے سہروردی صاحب سے سیکھی۔ 1957 ء میں ( پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پولیٹکل سائنس کی طالب علمی کے دوران) میں لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں حزب اختلاف کے بڑے رہنما حسین شہید سہروردی صاحب کو ملنے گیا۔ اُنہوں نے ایک دن پہلے موچی دروازے میں ایک بڑے جلسے میں تقریر کی تھی جس کے دوران اُن پر پھول کم اور پتھر زیادہ برسائے گئے تھے۔ ہماری گفتگو کے دوران اُن کا ملازم اُن کا سامان باندھنے میں مصروف رہا۔ جب اُنہیں بتایا گیا کہ سارا سامان بحفاظت پیک کر لیا گیا ہے تو اُنہوں نے پوچھا کہ اہل لاہور کی طرف سے دیا گیا کوئی تحفہ رہ تو نہیں گیا۔ ملازم نے جھٹ جواب دیا کہ حضور میں نے سارے پھول بھی اچھی طرح سنبھال لئے ہیں۔ سہروردی صاحب مسکرائے اور کہا کہ میرے اُوپر پھینکے جانے والے پتھر کیوں بھول گئے؟
شروع کرتے ہیں سب سے دلچسپ اور چونکا دینے والی خبر سے جو ہمارے پڑوسی ملک چین سے آئی اور برطانیہ کے بڑے اخبار (The Times) نے دل دہلا دینے والی تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ جنوب مغربی چین میں Atuleer نامی گائوں ایک 800 میٹر بلند پہاڑی پر آباد ہے۔ سارے باشندےYI نامی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی کل تعداد 344 ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ بچوں کا سکول پہاڑ کی چوٹی کی بجائے 800 میٹر نیچے وادی میں ہے۔ ہر دو ہفتوں کے بعد درجنوں کم عمر بچے اور بچیاں لکڑی اور درختوں کی خشک ٹہنیوں سے بنی ہوئی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے سکول سے اپنے گائوں کا سفر اس طرح طے کرتے ہیں کہ اگر آپ اُنہیں یہ کرتے دیکھ لیں تو خوف کے مارے شاید سانس بھی نہ لے سکیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس گائوں کی ساری آبادی کو ایک ایسی جگہ نئے گھروں میں متبادل رہائش دے دی گئی ہے جہاں بچوں کو سکول جانے کیلئے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ (2): خوش قسمتی سے مجھے ایک تیز رفتار ٹرین پر سفر کر کے پیرس کا سفر ڈھائی گھنٹے میں مکمل کرنے کا اکثر موقع مل جاتا ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت ہمیشہ دوپہر تک ختم ہو جاتی ہے اس لئے مجھے دنیا میں آرٹ کے سب سے بڑے عجائب گھر Louvre کو ایک بار پھر دیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پیرس کے وسط میں بہتے ہوئے دریا Seine کے بائیں کنارے پر دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹی میں سے ایک (Sorbonne ) کی زیارت کا بھی۔ اس یونیورسٹی کے باہر ساری سڑک پر یا تو قہوہ خانے ہی (جہاں ژاں پال سارتر بھی آیا کرتے تھے) یا نئی اور پرُانی کتابوں کی دکانیں۔ ان میں سب سے پرانی 1938 ء میں بنی تھی۔ وسط مئی میں یہ برُی خبر آئی کہ نہ صرف یہ تاریخی دکان بلکہ اس کے اوس پڑوس کی کتابوں کی دکانوں کو مسمار کر کے اُن کی جگہ ملبوسات اور دوسری مہنگی اور جدید فیشن کے مطابق بنائی گئی چیزیں فروخت کرنے والے شاپنگ مال تعمیر کئے جائیں گے۔ (3): پانچ مئی کو روزنامہ Times شائع ہوا تو اس میں موسم کا حال احوال لکھنے والے نے ہمیں 910 سال پہلے (5 مئی1110 ) کی شام کو آسمان پر چمکنے والے چاند کے بارے میں یہ عجیب بات بتائی کہ وہ شروع میں تو بڑا روشن تھا اور پھر اُس کی روشنی دھندلاتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ نظروں سے بالکل غائب ہو گیا۔ ساری دنیا کے ماہرین فلکیات ایک صدی سے اس معمے کو حل کرنے میں مصروف ہیں‘ آخر کار جنیوا یونیورسٹی نے یہ گتھی یوں سُلجھائی کہ اُس کے سائنس دانوں نے گرین لینڈ کے برف زاروں کی کھدائی کر کے 9100 سال پہلے گرنے والی برف کا سراغ لگا لیا۔ اس برف کا معائنہ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ 1108 اور 1110 کے درمیان آتش فشاں پہاڑوں سے آگ اور دھوئیں کے اتنے بڑے بادل نکل کر کرہ ارض پر چھا گئے تھے کہ چاند کو دیکھنا ممکن نہ رہا۔ اتفاق سے اُس رات خاص طرح کا چاند گرہن بھی تھا۔ جسے جغرافیہ کی زبان میں Dark Eclipseکہتے ہیں۔ دونوں عوامل مل گئے تو چاند انسانی نگاہ سے اوجھل ہو گیا۔ (4): وسط مئی میں لندن کے ایک بڑے نیلام گھر Sotheby'sمیں چرچل کے خطوط اور تصاویر کا ایک ذخیرہ بھی نیلامی کے ذریعے فروخت کیلئے پیش کیا گیا۔ دسمبر1931ء میں ونسٹن چرچل امریکہ میں مختلف شہروں میں لیکچر دینے گئے تو نیو یارک کے پانچویں ایونیو پر اُنہیں ایک کار نے ٹکر مار کر زخمی کر دیا۔ چرچل نے ہسپتال کے بستر سے امریکہ کے بڑے اخبارات کو خط لکھ کر پیشکش کی کہ وہ معقول معاوضہ ملنے پر اپنے حادثے کے بارے میں دلچسپ سطور لکھ سکتے ہیں اور وہ باتیں بھی احاطہ تحریر میں لائی جا سکتی ہیں جو وہ اپنی تقاریر میں بیان کرنا چاہتے تھے مگر حادثہ کی وجہ سے اد ا نہ کی جا سکیں۔ (5) :علم حیاتیات میں سب سے بڑا علمی زلزلہ لانے والے برطانوی سائنس دان کا نام چارلس ڈارون ہے۔ وہ اٹلانٹک اور بحرا لکاہل کا سفر کرتے ہوئے دور دراز کے گمنام جزیروں پر پہنچے اور وہاں کیڑے مکوڑوں‘ پرندوں اور جانوروں کے مطالعہ کے بعد انسانی ارتقا کا نظریہ مرتب کیا۔ ان کا جہاز 1820ء میں اپنے مہماتی اور تاریخی سفر پر روانہ ہوا اور سمندروں میں 50 سال خدمات سرانجام دینے کے بعد 1870 میں ریٹائر کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے وہ سرکاری کاغذات سے اس طرح غائب ہوا کہ اُس کا اتاپتہ نہ تھا کہ آخر اس جہاز کے باقیات کہاں غائب ہو گئے؟ مئی 2020 ء میں ڈرون پر نسب شدہ دور بینوں کے ذریعے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ اس جہاز کا انجر پنجر مشرقی انگلستان کے ایک ساحلی مقام پر ایک دلدل میں کیچڑ کی گہری تہہ میں دبا پڑا ہے۔ اب وہاں کی ڈسٹرکٹ کونسل جہاز کے ڈھانچے کو دلدل سے برآمد کر کے اور اُس کی مرمت کر کے نمائش کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ سیاحوں سے یہ تاریخی جہاز دیکھنے کی فیس لے کر رقم کمائی جا سکے۔ (6):جو قارئین امریکی تاریخ سے تھوڑابہت واقف ہیں وہ اٹھارہویں صدی میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں سونے کی کانوں کی دریافت سے پیدا ہونے والے ہیجانی دور کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں افرادسونے کے مٹھی بھر حصے کے حصول کے لالچ میں دیوانہ وار کیلیفورنیا کی طرف بھاگے۔ برطانیہ میں وہ مناظر تو شاید کبھی نظر نہ آئیں مگر جب یہ خبر عام ہوئی تو Vincityمیں بہتے ہوئی دریا میں سونے کا جو ٹکڑا ایک مقامی کاشتکار اور شوقیہ مچھلیاں پکڑنے والے شخص کے ہاتھ لگا جو بازار میں پچاس ہزار پائونڈ میں بکا تو اب سینکڑوں افراد برطانوی Wales کے دریائوں کے کناروں پر ڈیرے ڈال رہے ہیں۔ بظاہر وہ ماہی گیری کر رہے ہیں مگر دراصل وہ اس اُمید پر دریائوں کے پانی کھنگال رہے ہیں کہ شاید سونے کا کوئی بہتا ہوا ٹکڑا اُن کے جال میں بھی پھنس جائے اور وہ آنا ًفاناً امیر ہو جائیں۔ پانچ سالوں کے اندر سونے کی قیمت دُگنی ہوگئی ہے۔ سات سو پائونڈ فی اونس سے بڑھ کر 1400 پائونڈ فی اونس۔ یہی وجہ ہے کہ دریائوں کے پانی میں سونے کے بہتے ہوئے ذرات کو اکٹھا کرنے والوں کی جس گمنام انجمن کے کل اراکین کی تعداد60 تھی وہ تین سالوں میں بڑھ کر دو ہزار ہو گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved