یہ لوگ انہی مدرسوں کی چٹائیوں پر سالوں قرآن و حدیث کا درس لیتے رہے، فقہ کی گتھیاں سلجھاتے رہے،اپنے اپنے مسلک کے اسلاف کی باتوں کو اپنے لیے رہنما اصول جانتے رہے۔ اس ملک میں کوئی بھی مدرسہ ہو، سنی ہو یا شیعہ، دیوبندی یا بریلوی‘ اہل حدیث ہو یا سلفی‘ سب کے سب ایک درس ضرور دیتے رہے کہ یہ دنیا کا کھیل لہو و لعب ہے، یہ دنیا قرآن کی زبان میں متاع الغرور یعنی دھوکے کا سامان ہے۔ انہوں نے انہی چٹائیوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی بار بار سنی ہوگی کہ دنیا میں ایسے رہو کہ جیسے ایک مسافر ہو۔ یہ حدیث توسب کی زبان پر رواں ہوتی ہوگی کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ اس کی تو عربی تک مدتوں ہمارے سکولوں کی اسلامیات کی کتابوں میں پڑھائی جاتی رہی ’’الدنیا سجنَّ المومن و جنتّ ُ الکافرِ‘‘۔ ان کے اساتذہ بھی ایسے درویش صفت کہ دنیا کی بے رغبتی ان کی زندگی، چال ڈھال اور مال و متاع سے جھلکتی تھی ۔ اس ملک کا کوئی مدرسہ ایسا نہیں جو اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کے نفاذ کی بات نہیں کرتا۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کی حکمرانی کی مثالیں دینے والے مدارس بھی تھے اور حضرت علیؓ کی طرز حکمرانی کو مثالی قرار دینے والے بھی۔ اللہ کے قانون کی حکمرانی تو صوفیاء کا بھی درس تھا۔ کونسا مردِ تصوف ایسا ہے جس نے بادشاہوں کو شریعت کا قانون نافذ کرنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال نہ کیا ہو بلکہ شیخِ سرہند مجدد الف ثانیؒ نے اس مقصد کے لیے جہاد کیا، گوالیار کے قلعے میں قید کاٹی۔ ان سب نے ایک عہد کو متاثر کیا۔ اقامتِ دین اور غلبۂ دین پر کتابیں لکھیں، پوری پوری رات اس امت کے گرم جوش جلسوں سے خطاب کیا اور واہ واہ کے نعرے اور داد و تحسین کے القابات بھی وصول کیے۔ ان کے مکتب سے فارغ التحصیل لوگ ہوں یا ان کی لکھی ہوئی کتابوں سے دین کا فہم حاصل کرنے والے افراد، ان دونوں میں سے کتنے ایسے تھے جنہوں نے سیاسی جدوجہد کاراستہ اختیار کیا۔ ہر کسی نے اپنی اپنی تنظیم بنائی اور ہر کسی نے حکومتِ الٰہیہ کے قیام کا نعرہ بلند کیا۔ یہ سب کے سب اسے ایک اعلیٰ ترین اور دنیاوی مقاصد سے پاک تصور سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک حکومت حاصل کر کے اللہ کے قانون کو نافذ کرنا دراصل رضائے الٰہی کا حصول تھا اور اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض، طمع، لالچ یا حرص شامل نہیں تھی۔ ان سب کے اسلاف وہ تھے جنہوں نے انگریز کی حکومت کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا تھا۔ وہ جو سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی عظیم شہادتوں کے خون سے پرچم لے کر اٹھے تھے۔ جنہوں نے1857ء کی جنگ آزادی میں ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا۔ برطانیہ کے برٹش میوزیم میں آج بھی جب وہ تصویر دیکھتا ہوں جس میں دلی کی جامع مسجد کے خطیب کو توپ کے آگے باندھ کربم سے اڑایا جا رہا ہے تو سرفخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ 1953ء میں قادیانیوں کے خلاف اٹھے تو کسی کو جنرل اعظم کے ٹینک نہ ڈرا سکے، مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو پھانسی کی سزا متزلزل نہ کر سکی۔ وہ لوگ جنہوں نے چودہ سو سال بعد مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں اصحاب ِ رسولؐ کے ایمان کی جھلک تازہ کی۔ کس قدر دنیا سے لاتعلق اور بے خوف تھے یہ لوگ۔ یہ وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مل کر بائیس نکات تحریر کیے اور کہا کہ اگر ان کی بنیاد پر حکومت کی جائے تو یہ اسلامی ہوگی اور اس پر کسی شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کو انکار نہیں ہوگا کہ سب کے سب علماء نے ان نکات پر دستخط کیے تھے۔ پھر یہ سب کچھ کیسے بدل گیا؟ یہ خونریزی اور قتل و غارت، یہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنا، اپنوں کی لاشوں کو شہادت کے رتبے پر فائز اور دوسروں کو جہنم رسید کہنا! یہ سب کیسے شروع ہو گیا؟ سیّد الانبیاء ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اس عقیدے کو کھولتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ آخر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین کے نام پر دنیا کے طلبگار ہوں گے اور لوگوں کے سامنے نرمی ظاہر کرنے کے لیے دنبوں کی کھال کا لباس پہنیں گے۔ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی لیکن ان کے دل بھیڑیوں کی طرح سخت ہوں گے۔ ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے ’’کیا یہ لوگ میری طرف سے مہلت دیے جانے کی وجہ سے فریب میں مبتلا ہیں یا یہ لوگ میری مخالفت پر کمر بستہ ہیں ۔ پس میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یقینا ان لوگوں پر انہیں میں سے کچھ لوگوں کو فتنہ اور بلا کی شکل میں مسلّط کردوں گا جو بڑے سے بڑے دانش ور اور عقلمند شخص کو بھی عاجزو حیران کر دیں گے‘‘(ترمذی)۔ اللہ تبارک تعالیٰ کے فرمان کے حوالے سے یہ حدیث قدسی صرف دین کو دنیا کی خاطر بیچنے والوں کے لیے ہے لیکن ایسی ہی ایک اور حدیث قدسی ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو دنیا دار ہیں لیکن ایسا ہی رویہ رکھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد نقل فرمایا ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جن کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہیں اور جن کے دل ایلوے سے زیادہ تلخ ہیں۔ پس میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقینا ان پر ایسی بلائیں نازل کروں گا جو بڑے سے بڑے دانشور اور عقلمند شخص کو بھی عاجز اور حیران کر دیں گی۔ کیا وہ لوگ مجھے دھوکہ دیتے ہیں یا مجھ پر دلیری اور جرأت دکھاتے ہیں‘‘(ترمذی) ان احادیث قدسی کے آئینے میں اس مملکت ِ خداداد پاکستان کے ان علماء کو دیکھیں جو اللہ کی شریعت کے نفاذ کا علم لے کر اٹھتے ہیں اور ان لوگوں سے وزارتوں کے طلب گار ہوتے ہیں جن کا دین و ایمان ہی دنیا ہوتا ہے۔ حکومت سے علیحدگی جن کے لیے بے چینی اور اضطراب کا باعث بن جاتی ہے۔ مدتوں حکومت کے ایوانوں میں جلوہ افروز ہونے کے باوجود نہ انہیں روز رات کو دعائے قنوت میں اللہ سے کیا وہ وعدہ یاد آتا ہے کہ’’ ہم اُس شخص کا بائیکاٹ کرتے ہیں جو تیرا منکر ہے‘‘۔ جس کے پاس ایک سیٹ بھی ہو وہ بھی سرکار کی سرپرستی میں آنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ جن کے بزرگوں کی خانقاہوں پر بادشاہ اجازت لے کر آتے تھے۔ وہ آج خود سیاسی لیڈروں کے دروازوں پر اذنِ باریابی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ فلسفہ و منطق اور علم الکلام کے ماہر ہیں۔ یہ سب اس دنیا داری اور دنیا پرستی کی کوئی نہ کوئی توجیہہ ضرور کریں گے لیکن کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ جب تک ان کے اسلاف اس کرسی وجاہ طلبی سے دور تھے ان کا اثر اور خوف ایسا تھا کہ پاکستان کی پہلی اسمبلی جن میں ان لوگوں کا وجود تک نہ تھا، وہ قرار داد مقاصد منظور کر لیتی ہے اور آج یہ جوق در جوق اسمبلی میں آجائیں تو خواتین کے بارے میں ایسا قانون پاس ہو جاتا ہے جو مغرب کا چربہ ہے۔ دوسری جانب آپ کسی بھی قوم پرست رہنما کی گفتگو سن لیں‘ ایسی شیریں جیسے شہد میں دھلی ہو، اپنی مظلومیت کی داستانیں ایسی کہ دل روپڑے لیکن دل ایسے کڑوے کسیلے ا ور نفرت سے بھرے ہوئے کہ خوف آئے۔یہی تو وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انہیں میں سے ایسی بلائیں مسلط کر دی ہیں کہ ہر دانش مند اور عقل مند حیران اور عاجز ہے ۔ چاروں جانب نظر دوڑائیے، تجزیہ نگاروں کو اس خونی کھیل کا کوئی حل نظر آتا ہے اور نہ حکومتی ارکان کو کوئی راستہ سجھائی دیتا ہے نظر بھی کیسے آسکتا ہے، بلائیں تو اللہ نے مسلّط کی ہیں اور اس کا حل بھی اللہ کی طرف رجوع میں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے، سب کا اپنا اپنا خدا ہے ، کسی کا امریکہ، کسی کا سیاسی لیڈر، کسی کا اسٹیبلشمنٹ اور ان سب کا خدا عوام۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved