تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-09-2020

علاج کی ضرورت

میرے دوست‘ ''خو دسے خدا تک ‘‘ جیسی شاندار کتاب کے مصنف ناصر افتخار نے ایک عجیب بات مجھے بتائی۔ انسانی ذہن پہ خیالات بارش کی طرح برستے ہیں۔ ناصر افتخار کہتاہے کہ اگر آپ اپنے ہاتھ کو حرکت دیں اور میز پہ پڑا ہوا گلاس اٹھا لیں تو یہ بات بالکل نارمل ہے۔ دوسری طرف اگر آپ کا ہاتھ خود ہی حرکت کرنا شروع کر دے تویہ کتنی عجیب بات ہے۔ آپ کا ہاتھ آپ کی مرضی کے بغیر ساتھ والے شخص کو چٹکی کاٹ رہا ہے۔ اب یہ ابنارمل ہو چکا ہے اور اس ہاتھ کا علاج ضروری ہے۔ ناصر افتخار یہ کہتاہے کہ اگر آپ خود کوئی بات سوچیں تو یہ نارمل بات ہے۔ہمارے عظیم استاد پروفیسر احمد رفیق اختر یہ فرماتے ہیں کہ انسانی ذہن خود نہیں سوچتا‘ خیالات اس پہ نازل ہوتے ہیں اور یہ ان میں سے کچھ خیالات کو تھام لیتاہے۔ ان خیالات کو‘ جو اسے اچھے لگتے ہیں؛ جیسے ایک بہت بڑی فیکٹری تعمیرکرنے کا خیال۔ انسان اگرخود پر نازل ہونے والے خیالات میں سے ہی انتخاب کرتاہے‘ اگر وہ ان خیالات کے نزول کو کنٹرول نہیں کر سکتا تو ان خیالات کو منتخب کرنے کی رفتار تو کچھ کنٹرول میں ہو۔آج کا انسان اس رفتار سے سوچنے لگا ہے‘ جیسے بڑھتے بڑھتے ایک گاڑی کی رفتار کنٹرول سے باہر ہونے لگے اور حادثہ یقینی ہوجائے۔
اب دوسری طرف دیکھیے۔کبھی آپ نے اس جوان کو دیکھا ہے‘ جو فوج میں بھرتی ہوجاتاہے۔ اسے کیسی تربیت سے گزارا جاتاہے۔ سخت ترین حالات سے۔ کبھی وہ بھوک پیاس سے گزارا جاتاہے۔ کبھی سردی میں اسے ٹھنڈے پانی میں پھینک دیا جاتاہے۔ سخت جان اور جنگجو افواج میں یہ تربیت جس قدر سخت ہوتی ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ یہ سختی برداشت کرنے کے قابل ہوتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تسکین آمیز خیال ہوتاہے کہ یہ دن گزر جائیں گے۔ وہ یہ سختی اس لیے برداشت کر رہا ہوتاہے کہ اس کے نتیجے میں بالآخر اسے آسانی ملے گی۔ آسانی کی چاہت ہی وہ قوتِ متحرکہ ہے، جس کی بنیاد پردنیا کے اربوں انسان دن رات محنت کر رہے ہیں۔ 
انسان آسانی چاہتاہے۔ جب سے انسان نے اس دنیا میں ہوش سنبھالا، وہ آسانی کی خواہش کرتا آیا ہے۔ آسانی کا سوچتے سوچتے اسے یہ خیال آیا کہ اپنا بوجھ جانوروں پہ منتقل کر دیا جائے۔ آسانی کی اسی خواہش میں اس نے پہیہ ایجاد کیا۔ بجلی بنائی، بلب اور پنکھا ایجاد کرلیا۔ تاریک غارمیں اسے مچھر کاٹتے تھے‘ اس نے پکی اینٹ کے پختہ گھر بنائے، بجلی سے ان گھروں میں روشنی کی اور چھت سے پنکھے لٹکا لیے۔ اصولاً تو یہ سفر یہاں تمام ہو جانا چاہئے تھا۔ وہ تمام سہولتیں انسان کو حاصل ہو چکی تھیں، جن کی وہ خواہش کر سکتا تھا لیکن کیا یہاں پہنچ کر انسان مطمئن ہو گیا اور اس نے قناعت اختیار کر لی ؟ اگر ایسا ہے تو جتنے بھی انسانوں کے پاس پختہ گھر، بجلی، بلب اور پنکھے موجود ہیں اور راشن بھی، انہیں مکمل طور پر مطمئن ہو جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کے پاس پنکھاتھا، اسے کولر چاہیے اور کولر والے کو اے سی۔ جن کے پاس اے سی ہیں، وہ کون سا درویش ہو گئے ہیں؟ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ انسانی تاریخ میں جو بڑے بڑے بادشاہ اور فاتح گزرے ہیں‘ ان میں سے کسی کے پاس موٹر سائیکل تک موجود نہیں تھی۔ آج کے دور میں یہ مزدوروں کے پاس بھی موجود ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ اپنے ایلچی کو پیغام دے کر دوسرے ملک روانہ کرتے تھے اور مہینوں جواب کا انتظار کیا کرتے۔ آج محنت کش بھی وٹس ایپ اور فیس بک پردوسرے ممالک میں اپنے پیاروں سے بات کر تے ہیں۔اس کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مطمئن کوئی بھی نہیں۔ 
جن کے پاس دولت نہیں، انہیں دولت حاصل کرنے کی لگن ہے۔ جن کے پاس دولت موجود ہے، وہ اس میں اضافہ چاہتے ہیں۔انسان صرف یہی نہیں چاہتا کہ اس کے پاس بہت سی دولت ہو، وہ محفوظ مستقبل کی ضمانت بھی چاہتا ہے۔ وہ اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ حالات خراب نہیں ہوں گے۔محفوظ مستقبل کی ضمانت ہی کی خاطر امرا اپنی دولت دوسرے ممالک میں منتقل کرتے ہیں۔ تاجر جب زیادہ پیسہ اکٹھا کر لیتے ہیں تو پھر وہ سیاست میں اتر آتے ہیں۔ اگر وہ اقتدار تک پہنچ جائیں تو پھر بھی مطمئن نہیں ہوپاتے۔ پھر انہیں اقتدار کا دوام درکار ہوتاہے۔ اکثر حکمرانوں کویہ خوف بری طرح لاحق ہوتاہے کہ کل جب وہ اقتدار سے محروم ہو جائیں گے اور جب دشمن مقتدر ہو جائے گا تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔اسی خوف میں وہ دشمن کو جان سے مار ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس کا نام اور نشان تک مٹا ڈالنا چاہتے ہیں۔ 
ایک طرف تو انسان مستقل طور پر آسانی کا حصول چاہتاہے، دوسری طرف یہ حقیقت اس کامنہ چڑا رہی ہے کہ تاریخ ساز کارنامے انجام دینے والے سب لوگ وہی تھے‘ زندگی پہلے دن سے جن پہ نامہربان تھی۔ ابرہام لنکن کو دیکھ لیں، ساری زندگی ناکامیاں جس کا پیچھا کر تی رہیں۔اس کا چہرہ ایک فاقہ کش کا چہرہ ہے۔ قائد اعظم کی وکالت کے پہلے تین سال دیکھ لیں۔ دور دور تک خوشحالی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔باکسر محمد علی نے ایک بار یہ کہا تھا کہ ٹریننگ کا ایک ایک لمحہ قابلِ نفرت تھا لیکن فاتح بننے کا خیال...
انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر تاریخ ساز ہستی پہ زندگی ایک دشمن کی طرح حملہ آور ہوئی۔ انہی تکالیف میں انہوں نے وہ کچھ سیکھا،اتنی ان کی capacity buildingہوئی کہ باقی ساری زندگی کے لیے وہ سکھی ہو گئے۔ اگر آ پ کو کبھی سولہ گھنٹے لگاتار گاڑی چلانا پڑے تو اس کے بعد لاہور سے اسلام آباد کا سفر آپ کے لیے ایک مذاق ہوگا۔تکلیف ہی انسان کا ظرف بڑا کرتی ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ جبلی طور پر انسان آسانی چاہتا ہے۔ دوسری طرف زندگی کی ایک خوفناک حقیقت یہ ہے کہ آسانی انسان کو کسی قابل نہیں چھوڑتی۔ کسی نے کیاخوب کہا کہ آسانی (Comfort)ایک نشے کی طرح ہے۔انسان کواس کی لت لگ جاتی ہے۔ آپ ایک کمزور انسان کو آسانی کا عادی بنا دیں‘ وہ اپنے سارے منصوبے ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گا۔ آپ کا کمفرٹ زون ہی آپ کے خوابوں کا قبرستان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان آسانی چاہتا ہے لیکن آسانی کا عادی کبھی کوئی تاریخی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ اپنی زندگی کو آسانیوں سے بھردینے والے انسان کے بس میں یہ بھی نہیں کہ اپنے دماغ پہ خیالات کے نزول کو کنٹرول کر سکے۔وہ خیالات جو اسے سخت اذیت پہنچا رہے ہوتے ہیں۔آصف علی زرداری کے دستِ راست اور صاحبِ ثروت ڈاکٹر عاصم حسین جب گرفتا رہوئے تو انہوں نے پہلا مطالبہ یہ کیا کہ انہیں ان کے ماہرِ نفسیات تک رسائی دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا وزن انتہائی تیزی کے ساتھ گرا۔ یہ حقیقت ہے اس دولت کی‘ جس کے بارے میں انسان سوچتا ہے کہ وہ اسے سکون پہنچا سکتی ہے۔ 
آپ یہ دیکھیں کہ جو انسان اگلے بیس سال کے منصوبے بنا کر بیٹھا ہوتاہے، وہ اگلے دن دل کے دورے سے فوت ہو جاتاہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ حیاتیاتی طور پر انسان کو اس طرح سے تخلیق کیا گیا ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنی زندگی ایک حد سے زیادہ آرام دہ بنا سکتا ہی نہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ جس طرح انسان کی ایک جسمانی صحت ہوتی ہے‘ بالکل اسی طرح اس کی ایک ذہنی اور روحانی صحت بھی ہوتی ہے۔ اب تو خیر انسان نے جسمانی صحت کو بھی لفٹ کرانا چھوڑ دیا ہے اور کھا کھا کے فٹ بال بنتا جا رہا ہے لیکن ذہنی اور روحانی صحت تو خیر قصہ پارنیہ بن چکی ہیں۔ ایک انسان جس کی شریانیں چربی سے بھرتی جا رہی ہے، جس کا جسم بوڑھا ہوتا چلا جا رہا ہے اور جس کی باقی کی عمر بہت کم ہے، اگر وہ اپنی وسیع و عریض زمینوں کو بھلا کر ہمسایوں کی زمینوں پہ نظریں گاڑے بیٹھا ہے تو اسے دولت کی نہیں‘ علاج کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved