نفسی ساخت میں نشتر کی طرح اتر جانے والی حقیقت ہے خوف۔ خوف چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو، انسان کو اندرونی شکست و ریخت سے دوچار کرکے دم لیتا ہے۔ ایک دنیا ہے کہ کسی نہ کسی خوف سے دوچار رہتی ہے اور اُس کا خمیازہ بھی بھگتتی رہتی ہے۔ ہم زندگی بھر کسی نہ کسی خوف کے سائے میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی نوعیت کے خوف کے بغیر زندگی بسر کرنا یکسر ناممکن ہے۔ بہت سوں کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ خوف کے بغیر زندگی ادھوری ہے! آپ جانتے ہیں خوف کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟ اس دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے خوف کا جواز پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے! خوف کی اس سے بڑی کامیابی بھلا کیا ہوگی؟
خوف بھیس بدل بدل کر ہمارے سامنے آتا ہے اور ہمیں اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ کبھی لوگوں کا خوف لاحق ہوتا ہے اور کبھی قدرتی آفات کا۔ کبھی حادثات کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ یہ خوف ہی تو ہے جو ہمیں قدم قدم پر نفع و ضرر کے اندیشے سے دوچار رکھتا ہے۔ خوف میں مبتلا ہونے کی صورت میں بروقت اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت دم توڑتی جاتی ہے۔ انسان اگر خوف کا شکار ہو تو بیشتر معاملات میں شش و پنج کا شکار رہتا ہے۔ ایسے میں وہ کوئی بھی فیصلہ ڈھنگ سے نہیں کر پاتا۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خوف انسان کے دل و دماغ کو جکڑے رہتا ہے اور فیصلہ کرنے کا وقت گزر جاتا ہے۔ خوف کسی فرد سے لاحق ہو یا پورے ماحول سے‘ انسان کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتا۔
اس حقیقت کو سمجھنے میں کبھی کبھی لوگوں کو ایک عمر لگتی ہے کہ لوگوں سے کیا ڈرنا، ہم اُنہی میں تو رہتے ہیں۔ ماحول سے ڈرنے کا مطلب ہے اپنے آپ سے ڈرنا کیونکہ ماحول ہمارے بغیر نامکمل ہے۔ اگر ہم ماحول کا حصہ نہ ہوں تو جینا ہی مشکل ہو جائے۔ ایسے میں یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ ہم ماحول سے ڈریں۔ کسی بھی ماحول میں ڈھنگ سے جینے کے لیے اُس سے ڈرنے کے بجائے اُسے سمجھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے تاکہ اُس کے تقاضوں کو نبھانا ممکن ہوسکے۔
انسانوں کو مل جل کر رہنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ کوئی بھی انسان یکسر تنہا رہتے ہوئے زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ اُسے بہت سے معاملات میں دوسروں سے براہِ راست تعاون درکار ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو دوسروں کی اشیا و خدمات تو درکار ہوتی ہی ہیں۔ ایسے میں یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ لوگوں سے خوف کھایا جائے۔ ہم سب ایک جیسے ہی ہیں۔ کوئی تھوڑا سا مختلف ہے تو اپنے خیالات کے باعث یا پھر مزاج کی وجہ سے۔ خیالات اور مزاج کے فرق کی بنیاد پر کسی کو سمجھنے سے گریز کرنا اور اُس سے خوف زدہ رہنا یکسر بلا جواز ہے۔
کیا انسان کے لیے کسی نہ کسی طرح کا خوف ناگزیر ہے؟ کیا خوف زدہ ہوئے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کے لیے ایک خاص حد تک خوف لازم ہے۔ اس معاملے میں سمجھ بوجھ کی بہت اہمیت ہے۔ بہت سے معاملات میں ہماری معلومات ناقص ہوتی ہیں۔ ہمیں حالات کا درست اندازہ نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں تھوڑا بہت خوف کام کا ثابت ہوتا ہے۔ نامعلوم سے خوف ہی کی بدولت ہم کچھ سوچنے اور کچھ کرنے پر مائل ہوتے ہیں۔ کم و بیش ہر انسان بعض نامعلوم معاملات کے حوالے سے خوف کا شکار رہتا ہے۔ وہ جن معاملات سے بخوبی واقف نہ ہو اُن کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ خوف ہی تو اُسے کچھ جاننے کی تحریک دیتا ہے۔ خوف انسان کی بہتر ذہنی تربیت اور عمل پسندی کے لیے ضروری ہے مگر ایک خاص حد تک۔ اگر خوف کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو یہ پنپتا ہی چلا جاتا ہے۔ کسی بھی خوف کو ایک خاص حد تک رکھنا ہی دانش ہے‘ حکمت ہے۔ اگر بند نہ باندھا جائے تو ہر خوف ریلے کی طرح بڑھتا آتا ہے اور سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔
انسان کو لاحق ایک بڑا خوف ہے لوگوں کی رائے کا۔ ہم میں سے بیشتر کو یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ اگر کچھ سوچیں گے یعنی خیالات کا اظہار کریں گے یا کچھ کریں گے تو لوگ بُرا مانیں گے، باتیں بنائیں گے۔ زندگی کی گاڑی کو قدم قدم پر روکنے والا خوف یہ ہے کہ ''لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ لوگ بالعموم تماشا دیکھنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ انہیں کسی کے بارے میں حقیقی مفہوم میں سنجیدہ ہونے سے کچھ غرض نہیں ہوتی۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگ آپ کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں تو یہ آپ کی شدید غلط فہمی ہے۔ لوگوں کو بالعموم کسی سے اتنی غرض نہیں ہوتی کہ اُس کے بارے میں سوچتے رہیں۔ وہ بیشتر وقت ''جیسا ہے‘ جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ تماشا ختم تو اُن کی توجہ بھی ختم۔
اگر آپ کو یہ خوف لاحق رہے کہ لوگ آپ کے بارے میں باتیں بناتے رہیں گے تو سمجھ لیجیے آپ جی چکے۔ لوگ باتیں ضرور بناتے ہیں مگر ایک حد تک۔ وہ ہر وقت آپ کے بارے میں نہیں سوچتے رہتے۔ اُنہیں اور بھی بہت سے فضول کام کرنا ہوتے ہیں! اگر آپ کا اندازہ درست مان لیا جائے کہ لوگ باتیں بناتے ہیں تو یہ بھی دیکھیے کہ لوگ دوسروں کے بارے میں بھی تو باتیں بنائیں گے۔ بھری دنیا میں صرف آپ ہی تو نہیں جس کے بارے میں لوگ باتیں بنائیں۔ لوگوں کے پاس اور بھی بہت سے لاحاصل اور غیر متعلق موضوعات ہیں۔
بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ''لوگ کیا کہیں گے‘‘ کو جی کا روگ بناکر کوئی بھی ڈھنگ کا کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ دوسروں کی رائے سے خوف زدہ رہنے والوں کو بیشتر معاملات میں ادھورے من کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ لوگوں کی رائے کا خوف بیشتر معاملات میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ کیریئر ہی کو لیجیے۔ اگر آپ یہ سوچنے بیٹھ جائیں کہ آپ کچھ کریں گے اور لوگ باتیں بنائیں گے تو ہوچکا وہ کام۔ ایسے میں کیریئر ایک طرف دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ صلاحیت و سکت رکھنے کے باوجود کسی شعبے سے محض اس لیے دور رہتے ہیں کہ لوگوں کی رائے کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی شعبہ پسند بھی آتا ہے، دل چاہتا ہے کہ کچھ کیا جائے مگر یہ خیال ہمارے پاؤں پکڑ لیتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ تمسخر اڑائے جانے کا خوف ہمیں بہت سے معاملات میں کچھ کرنے سے روک دیتا ہے۔
کسی بھی معاملے میں بلا جواز شرم یا ہچکچاہٹ کی کوئی گنجائش نہیں۔ شرم اور جھجھک کے باعث ہم کسی جواز کے بغیر اندر ہی اندر الجھے رہتے ہیں۔ بعض معاملات میں تھوڑی بہت شرم یا ہچکچاہٹ بلا جواز نہیں ہوتی مگر ہمیں حقیقت پسندی اور معقولیت کا دامن تھام کر آگے بڑھنے پر توجہ دینی چاہیے‘ صلاحیت و سکت کو اِسی صورت بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ جب ہم غیر ضروری طور پر شرم، جھجھک اور ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں تو بہت سی زمینی حقیقتوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔
دنیا کا محبوب ترین مشغلہ ہے تماشا دیکھنا۔ اُسے یہ شوق پورا کرنے دیجیے، تماشا دیکھتے رہنے دیجیے۔ دنیا کو اس سطح سے کبھی بلند نہیں ہونا۔ بلند فرد کو ہونا پڑتا ہے‘ دنیا کو نہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ اگر آپ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ گھوڑے پر سوار ہوکر کیسے دکھائی دیں گے تو آپ کبھی گھڑ سوار دستے کے سربراہ نہیں بن سکتے۔
یہ دنیا اُنہی کا احترام کرتی ہے جو اِس کی عمومی روش کو نظر انداز کرکے اپنے حصے کا کام اپنی مرضی کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ دنیا صرف اُنہی کو ڈرا سکتی ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں۔ جو خوف زدہ ہوئے بغیر اپنا کام کیے جاتے ہیں‘ وہ کامیاب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کی نظر منزل پر ہونی چاہیے اور سفر سے غرض ہونی چاہیے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو چلتے رہتے ہیں۔ جو ڈر کر رک گئے وہ پیچھے ہی رہ گئے ؎
جب چل پڑے سفر کو تو کیا مُڑ کے دیکھنا
دنیا کا کیا ہے‘ اُس نے صدا بار بار دی