''سرگزشت‘‘ معروف صحافی اور مدیر عبدالمجید سالک کی آپ بیتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ چالیس برسوں پر محیط ان ہنگامہ خیز دنوں کی کہانی بھی ہے جب ہندوستان کے عوام فرنگی راج کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ میں نے سرگزشت پڑھنا شروع کی تو اس کے اسلوب نے جیسے مجھے اپنے سحر میں لے لیا۔ الفاظ کی سادگی و شگفتگی‘ اور دلچسپ واقعات کی تصویر کشی۔ کتاب شروع کریں تو ختم کیے بغیر چین نہیں آتا۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ غلام رسول مہر نے سالک کی تحریر کے بارے میں کہیں لکھا ہے ''وہ جس موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں اسے الفاظ کا لباس پہنا کر ایک جیتی جاگتی شے بنا دیتے ہیں‘‘ تو سرگزشت ایک ایسا ہی نگارخانہ ہے جس میں اس دور کے کردار چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ بعض کتابیں بلا ارادہ لکھی جاتی ہیں۔ سرگزشت کا قصہ بھی ایسا ہی ہے۔ عبدالمجید سالک کی زندگی صحافت، ادب اور سیاست کے پُرشور راستوں پر گزری تھی۔ وہ 'زمیندار‘ اور پھر 'انقلاب‘ جیسے اخبارات کے مدیر رہے تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی۔ اُنہوں نے کئی کتابیں بھی تحریر کیں‘ لیکن اپنی سوانح عمری لکھنے کا کبھی ارادہ نہ کیا۔ اس کے لیے اُنہیں ایک اور معرف ادیب اور صحافی چراغ حسن حسرت نے مائل کیا‘ لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا۔ پہلے تو سالک ٹال مٹول کرتے رہے کہ میری سوانح عمری میں رکھا ہی کیا ہے‘ لیکن حسرت بھی ہمت نہ ہارے اور سالک کو تجویز پیش کی‘ کالم تو آپ لکھتے ہی ہیں‘ آپ امروز اخبارکے لیے اپنی زندگی کے حالات کالم کی شکل میں لکھیں‘ یہ کالم ہر ہفتے امروز کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہو گا۔
یوں اس کہانی کو سنانے کا آغاز ہوا جس کی ابتدا 1894ء میں گورداسپور سے ہوئی جب سالک کی پیدائش ہوئی۔ سالک کے دادا کتابوں کے رسیا تھے۔ اس زمانے میں عالم ہونے کے ساتھ تین اور علوم سے آگاہی ضروری تھی: طب، خوش نویسی اور شاعری۔ سالک نے بہت کم عمری میں دادا سے فارسی کی بنیادی کتابیں پڑھ لی تھیں۔ 1906ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد سالک کو بٹالہ بھیج دیا گیا‘ جہاں سے اُنہوں نے میٹرک پاس کیا۔ پھر چچا نے نوکری کے لیے وزیرستان بُلا لیا۔ وزیرستان میں ان کا دل نہ لگا اور وہ لاہور آ گئے‘ جہاں بٹالہ کے جاننے والے ان کے دو دوست ایک کھولی میں رہتے تھے۔ یہ بھی ان کے ساتھ رہنے لگے اور ریلوے میں 20 روپے ماہانہ پر ملازم ہو گئے لیکن انہیں پٹھانکوٹ کی یاد آتی تھی اور پھر وہ لاہور میں ریلوے کی ملازمت ترک کرکے پٹھانکوٹ کے ایک سکول میں استاد کے منصب پر فائز ہو گئے۔ ان کی تنخواہ 25 روپے طے پائی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علمیت کا ایک معیار کسی کا شاعر ہونا بھی سمجھا جاتا تھا جبکہ سالک بھی شعر کہتے تھے۔ نوخیز شاعر اپنی شاعری کی اصلاح کے لیے اساتذہ سے رجوع بھی کرتے تھے۔ سالک نے بھی علامہ اقبال کو خط لکھا۔ اپنی شاعری کا نمونہ منسلک کیا اور اصلاح کی درخواست کی۔ علامہ اقبال نے سالک کے خط کا باقاعدہ جواب دیا‘ اس خط کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں‘ جس میں اقبال بہت اہم نکتے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں: ''یاد رکھیے طبیعت انسان کو آسمان سے ملتی ہے اور زبان زمین سے، اگر آپ کی طبیعت شاعرانہ ہے تو آپ خود بخود شعر گوئی پر مجبور ہوں گے، باقی رہی زبان تو اس میں میں موزوں استاد نہیں ہوں‘‘
گھر میں کتابیں اور رسالے تواتر سے آتے تھے۔ سالک نے بہت چھوٹی عمر میں ہی بہت سی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ ایک دن سالک کو خیال آیا‘ کیوں نہ ایک ادبی رسالہ نکالا جائے۔ رسالے کا نام بھی سوچ لیا گیا ''فانوسِ خیال‘‘۔ والد نے بہتیرا منع کیاکہ یہ کام آسان نہیںکیونکہ پٹھانکوٹ میں نہ تو کاتب میسر تھے‘ نہ پرنٹنگ پریس اور نہ ہی یہاں رسالے کی فروخت کا انتظام تھا‘ لیکن سالک کے سر پر ادبی رسالہ نکالنے کا جنون سوار تھا۔ اس وقت سالک کی عمر 20 سال تھی۔ اس عمر میں تو لوگ دنیا کو تسخیر کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ رسالے کا آغاز ہو گیا۔ سالک کی محنت سے رسالے میں بڑے بڑے ادیبوں کی نگارشات شامل ہوتی تھیں جن میں فراق، راشدالخیری اور پیارے لال شاکر بھی شامل تھے۔ یہ رومان زیادہ دیر نہ چل سکا۔ دس ماہ بعد ہی وسائل کی کمی کی وجہ سے رسالے کو بند کرنا پڑا۔ حساب کیا تو 700 روپے کا نقصان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ اب پھر نوکری کی تلاش میں وہ لاہور آ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کاغذ سستا تھا اور لاہور میں تاجرانِ کتب دھڑا دھڑ کتابیں شائع کر رہے تھے۔ وہ لاہور تو آ گئے‘ لیکن روزگار کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ایسے میں کشمیری بازار میں کتابوں کے ایک تاجر نے اِنہیں مختصر ناول لکھنے کو کہا۔ سالک کیلئے لکھنا ایک عام سی بات تھی۔ انہوں نے ایک دو دنوں میں بیس اور اڑتالیس صفحوں کے دو ناول لکھ دیئے۔ تاجر نے کہا: اگر آپ چاہتے ہیں کہ بطور مصنف آپ کا نام ناولوں پر شائع ہو تو آپ کو بالترتیب 15 اور 20 روپے ملیں گے‘ لیکن اگر آپ اپنے نام کی اشاعت سے دست کش ہو جائیں تو معاوضہ بڑھ کر 20 اور 30 ہو جائے گا۔ سالک صاحب کو اس وقت پیسوں کی اشد ضرورت تھی اس لیے انہوں نے پچاس روپے لے کر اپنے دو ناول بیچ دیے۔ بعد میں نہ جانے وہ کس نام سے شائع ہوئے ہوں گے۔ اُنہی دنوں مولوی سید ممتاز علی دو رسالے ''پھول‘‘ اور '' تہذیبِ نسواں‘‘ شائع کر رہے تھے اور اُنہیں ایک ڈپٹی ایڈیٹر کی ضرورت تھی۔ ابتدائی انٹرویو کے بعد سالک کو سید ممتاز علی کے دارالاشاعت میں تیس روپے ماہانہ پر ملازمت مل گئی۔ سالک کا کام دونوں رسالوں کے ساتھ مولوی صاحب کی کتابیں لکھنے میں معاونت کرنا بھی تھا۔ اس دور کا سالک کی زندگی میں اہم کردار ہے۔ یہیں پر ان کو ادارت اور انشاء پردازی کی مہارت حاصل ہوئی۔ مولوی ممتاز علی کا ایک وسیع کتب خانہ تھا۔ سالک یہاں سے دو چار کتابیں لے جاتے۔ پڑھ کر واپس کرتے اور پھر کچھ نئی کتابیں لے جاتے۔ یوں کچھ عرصے میں اُنہوں نے متعدد کتابیں پڑھ ڈالیں۔ مولوی ممتاز علی کے ساتھ کام کرنے کا ایک اور مثبت پہلو بہت سے اہم لوگوں سے میل جول تھا جیسے علامہ اقبال، شیخ عبدالقادر، نواب ذوالفقار علی خان، میاں شاہ دین، حکیم فقیر، جگل کشور، احمد شاہ بخاری اور پیر رفیع الدین۔ مولوی ممتاز کے دو بیٹے سید احمد علی اور سید امتیاز علی تاج بھی سالک کے حلقۂ رفاقت میں شامل تھے۔ پھر دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہو گیا اور فرنگی حکومت نے اخبارات پر پابندیاں بڑھا دیں۔ یہ پابندیاں دوسرے علاقوں کی نسبت پنجاب میں زیادہ تھیں۔ اس وقت مولانا ظفر علی خان اپنے اخبار ''زمیندار‘‘ کے ذریعے کلمۂ حق کہہ رہے تھے۔ انہیں جیل اور نظر بندی کی سزائیں معمول کی بات ہو گئی تھی۔ پے در پے ضمانتوں کی طلبی سے زمیندار اخبار بُری طرح متاثر ہوا تھا۔ سالک کو اچھی طرح یاد ہے جب رولٹ ایکٹ کا شور ہوا تھا اور جب ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال نے فرنگی حکومت کی بے جا پابندیوں کے خلاف اپنی تقریروں سے آگ لگا دی تھی ور پھر 1919ء کا جلیانوالہ باغ کا واقعہ جس نے پورے ہندوستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
1919ء کا سال سالک کو اس لیے بھی یاد رہاکہ اس سال انڈین نیشنل کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت کانفرنس کے سالانہ اجلاس امرتسر میں ہورہے تھے۔ سالک ہندوستان کے دوسرے نوجوانوں کی طرح وطن کی آزادی کے جذبے سے معمور تھے۔ انہوں نے خود امرتسر جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک دوست کو اپنے ہمراہ لے لیا تھا۔ راستے بھروہ سوچ رہے تھے کیسا ہو گا وہ منظر جب وہ قومی رہنماؤں کی کہکشاں کو ایک ساتھ دیکھیں گے۔ دور سے پنڈالوں کی رونق نظر آ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کسی میلے کا سماں ہے۔ سالک اور ان کے دوستوں نے اپنے قدم تیز کر دیے۔ (جاری)