تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     02-09-2020

کانگریس زندہ رہے گی یا نہیں؟

کون کانگریس پارٹی کی حالتِ زار دیکھ کر نہیں روئے گا‘ کیا ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کی سب سے پرانی پارٹی زندہ رہے گی یا نہیں؟ اس پارٹی کی بنیاد ایک غیر ملکی اے اوہیوم نے 1885ء میں رکھی تھی‘ اب کیا اس پارٹی کاجنازہ بھی ایک غیر ملکی (سونیا گاندھی) کے ہاتھوں نکلے گا؟ پچھلے 135 سالوں میں اس پارٹی میں کئی بارپھوٹ پڑی ہے اور قیادت بدلی ہے لیکن اس کے وجود کو خطرہ جیسے آج کل پیدا ہوا ہے ‘ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آج وہ اتنی بے جان ہوگئی ہے اور اس کے قائدین اتنے اپاہج ہوچکے ہیں کہ وہ پھوٹ ڈالنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو خط لکھنے والے 23 رہنماو ٔں میں سے کسی میں بھی اتنی ہمت ہے کہ وہ بال گنگا دھر تلک ‘ سبھاش چندر بوس ‘ آچاریہ کرپلانی ‘ ڈاکٹر لوہیا ‘ جئے پرکاش ‘ نجلنگپا ‘ شرد پوار وغیرہ کی طرح کانگریس کی قیادت کو للکار سکتا ہے؟ کانگریس میں ایسے لوگ بھی نہیں ہیں جیسے نارائن دت تیواری ‘ ارجن سنگھ ‘ نٹور سنگھ اور شیلا ڈیکشت ‘ جو پارٹی میں واپس آئے لیکن انہوں نے پارٹی صدر کو چیلنج کرنے کی ہمت کی۔ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں جب ان 23 رہنماو ٔں کے بولنے کی باری آئی توہوش ٹھکانے آگئے۔ انہوں نے سونیا کو کانگریس کی حالتِ زار پر غور کرنے کے مطالبے کا خط لکھا تھا۔ راہل گاندھی نے ان سب کی ہوانکال دی۔ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ سب اندرا‘ سونیا گھرانے کے گھڑے ہوئے پتلے ہیں۔ ان کی کیا حیثیت ہے؟ ان میں سے کسی کی بھی جڑیں زمین میں نہیں ہیں۔ یہ سیاسی چمگادڑ ہیں۔ یہ عمودی ہیں‘ ان کی جڑیں چھت پر ہیں۔ وہ الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کانگریس‘ جو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن چکی ہے ‘ کو ایک جمہوری پارٹی بنائے جانے پراصرارکرسکیں۔ ورکنگ کمیٹی کا اجلاس جو چھ مہینوں کے بعد ہوگا ‘ اگر غیر سونیا گھرانے کے کسی فرد کو چیئرمین بنایا جاتا ہے تو وہ دیوکانت بروا کی طرح دم ہلانے کے علاوہ اور کیا کرے گا؟ اب صرف ایک راستہ باقی ہے۔ یعنی راہل گاندھی کچھ پڑھے لکھے‘ تجربہ کار رہنماؤں اور دانشوروں سے مستقل رہنمائی لیتے رہیں ‘اپنی تقریر کو ٹھیک طرح سے کرنا سیکھیں اور مودی کی کسی بڑی غلطی کا انتظار کریں۔
امتحانات کی مخالفت‘ صرف نوٹنکی
کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اپنے بحران سے نکلنے کے بعد جو پہلا قدم اٹھایا ہے اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے سات ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے بات کی اور کہا کہ JEE (Joint Entrance Examination) اور NEET (National Eligibility cum Entrance Test) ملتوی کردیئے جائیں۔ ان دونوں داخلہ امتحانات میں تقریبا .5 25 لاکھ طلبابیٹھتے ہیں۔ ان سات وزرائے اعلیٰ میں سے چار کا تعلق کانگریس سے ہے اور دو وزرائے اعلیٰ کانگریس کی مدد سے اپنی کرسی پر ہیں۔ ساتویں وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی ہیں۔ یہ ساتوں سونیا کے ہاں میں ہاں ملائیں ‘ یہ فطری بات ہے۔دہلی کی عآپ حکومت اور تامل ناڈوکی بی جے پی حمایت یافتہ حکومت بھی ان امتحانات کے حق میں نہیں ہے۔ان حکومتوں کی اصل دلیل یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران یہ امتحانات ملک میں بڑے پیمانے پر اس بیماری کو پھیلا سکتے ہیں۔ ان صوبائی حکومتوں کی یہ تشویش فطری ہے لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ کیا یہ تشویش یونیورسٹی گرانٹس کمیشن یا وزارت تعلیم یا حکومت کونہیں ہے ؟ بلکہ اپوزیشن سے زیادہ ہے۔ اسی لئے انہوں نے امتحان کیلئے بہترین انتظامات کیے ہیں۔ JEE امتحانات 660 اور NEET کے امتحانات 3842 مراکز پر ہوں گے۔ ان مراکز پر امیدواروں کیلئے جسمانی فاصلہ برقرار رکھنے ‘ فیس ماسک لگانے اور سینیٹائزیشن کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ 99 فیصد طلبا کیلئے ٹیسٹ کے وہی سینٹرمنتخب کئے گئے ہیں جوانہوں نے خود پسندکئے ہیں۔ جن کے دور دراز کے مراکز ہیں‘ انہیں اپنا مرکزبدلنے کا موقع دیاگیاہے۔ اس کے علاوہ کچھ ریاستی حکومتیں طلبہ کے سفر اور رات کے قیام کے انتظامات بھی کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان امتحانات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کس حد تک جائز ہے ؟ اگر یہ امتحانات ملتوی کردیئے گئے تو لاکھوں طلبا کا پورا ایک سال ضائع ہوجائے گا۔ انہوں نے جو فیس ادا کی ہے ‘ وہ رقم بیکار چلی جائے گی۔ ٹرینیں اور بسیں ملک میں چل رہے ہیں جب‘ میٹروزکھلنے والے ہیں‘ منڈی اور بڑی مارکیٹیں کھل رہی ہیں‘ تو پھر امتحان کیوں نہیں ؟ یہ ایک درخواست پر بحث کے دوران سپریم کورٹ نے بھی پوچھا تھا۔ اب اگر یہ سات ریاستیں دوبارہ عدالت میں چلی گئیں تو یہ خالص نوٹنکی ہوگی۔ نتیجہ وہی ہوگا جو وہ جانتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے وزرائے اعلیٰ اور کانگریس قائدین کا یہ اقدام انہیں لاکھوں طلبااور ان کے والدین سے الگ کر دے گا۔ اپوزیشن اپنے پاوں پرخود کلہاڑی کیوں مار رہا ہے ؟
ذاتی نہیں ‘ تعلیمی ریزرویشن دیں!
بھارتی سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ذات پات کے ریزرویشن کی اہلیت پر سوال اٹھایا ہے۔ اس کی اپنی ہی عدالت کے ذریعے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے 2004ء میںجو فیصلہ دیا تھا اس پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کیاہے ‘ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ریزرویشن کے اندر(کسی خاص گروہ کو) ریزرویشن (کوٹہ) دینا نامناسب ہے ‘ یعنی سب کو ایک ساتھ ریزرویشن دینا چاہئے۔ کسی بھی ذات کو کم یا زیادہ نہیں دیا جانا چاہئے۔ تمام کوریزرویشن برابردیاجائے ‘ یہ نظریہ اب بھی جاری ہے۔ حالیہ فیصلے میں بھی ‘ اسے ابھی تک منسوخ نہیں کیا گیا کیونکہ اس کی حمایت پانچ رکنی بینچ نے کی تھی۔ اب اگر سات ججوں پر مشتمل بنچ اسے منسوخ کرتا ہے تو پھر حکومت ہی ریزرویشن کے نئے نظام کو نافذ کرے گی۔ اگر یہ نظام نافذ کیا جاتا ہے تو پسماندہ اور شیڈول ذات میں جس ذات کے لوگ زیادہ پسماندہ اورمحروم ہیں ‘ انہیں ریزرویشن میں ترجیح ملے گی۔ لیکن میراماننا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں ذات پات کے ریزرویشن کو مکمل طور پر ختم کیا جانا چاہئے۔ اب سے 60‘65 برسوں پہلے اور وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے زمانے تک میرے جیسے لوگ ریزرویشن کے سخت حامی تھے۔ ڈاکٹر لوہیا کے ساتھ مل کر ہم اپنی طالب علمی زندگی میں ریزرویشن کے نعرے لگاتے تھے‘ لیکن ذات پات کے ریزرویشن کے نتیجے میں مٹھی بھر لوگوں نے بہت سے سرکاری عہدوں پر قبضہ کرلیا۔ اس نے اپنی نئی ذات پیدا کرلی۔ اسے عدالت کے ذریعہ کریمی لیئرضرورکہا گیالیکن اس پرروک نہیں لگائی گئی۔ یہ ریزرویشن پیدائش کی بنیاد پر دیئے جارہے ہیں ‘ ضرورت کی بنیاد پر نہیں۔ اس سے حکومت میں نااہلوں کی حوصلہ افزائی کاسوال اٹھتا ہے اور کروڑوں غریب افراد اپنی اہلیت کے باوجوداپنی بنیادی حقوق کے حصول سے محروم رہتے ہیں۔ اگر ہم 60‘70 فیصدلوگوں کو معاشرے میں مساوی مواقع اور حیثیت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم میں 60‘70 فیصد ریزرویشن ذات پات کے امتیاز کے بغیر کردینا چاہئے۔ جو بھی غریب ‘ محروم ‘ پسماندہ کنبوں کے بچے ہوں انہیں مفت تعلیم ‘ مفت لنچ‘ مفت کپڑے اور رہائش کی مفت سہولیات مہیا کی جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved