آپ نے واٹر بیڈ کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ یہ ایسا پلنگ ہے جس کے گدوں میں پانی بھر دیا جاتا ہے اور اس پر لیٹنے والے کو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ لہروں کی آغوش میں ہو۔ اس گدے کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے آپ ایک جگہ سے دبائیں تو اس کے کسی دوسرے حصے میں ابھار پیدا ہوجائے گا اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ابھار کہاں دکھائی دے گا۔ اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے عملی سیاست کے مطالعے کا ایک نظریہ بھی تشکیل پارہا ہے جسے واٹر بیڈ تھیوری کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق عملی سیاست میں بعض اوقات سیاسی قوتیں اپنا جو بیانیہ بناتی ہیں اس کا سبب وہ نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے بلکہ کچھ اور ہوتا ہے‘ جو بتایا نہیں جاتا۔ اس کی ایک مثال سرگودھا میں ہمارے دوست حبیب الرحمن لک مرحوم یوں دیا کرتے تھے کہ سیاستدان نے بھینس لینی ہو تو بات مالک کے کردار سے شروع کرے گا۔ آپ اسی مثال کو ملکی سیاست پر پھیلا کر دیکھ لیں، ہر سیاسی جماعت جو کہہ رہی ہے اس کا مطلب وہ نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں۔ اس تھیوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب آپ سیاسی جماعتوں کے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو وہ بھی دکھائی دینے لگے گا جو عام طور پر اوجھل رکھا جاتا ہے۔ اب مسلم لیگ ن کو ہی دیکھ لیجیے کہ ڈٹ کر اینٹی منی لانڈرنگ قانون کو مسترد کررہی ہے، لیکن کیوں؟ کون سی وجہ مسلم لیگ ن کو اینٹی منی لانڈرنگ قانون کی مخالفت پرمجبور کیے ہوئے ہے؟
اینٹی منی لانڈرنگ قانون ان کاموں کی فہرست میں شامل ہے جوپاکستان کو اس لیے کرنا ہیں کہ دنیا پورے اعتماد کے ساتھ ہمارے ساتھ کاروبار کرسکے۔ اسے یقین ہوکہ پاکستان سے آنے والے یا پاکستان جانے والے پیسے کسی جرم کے ارتکاب کیلئے ہیں‘ نہ ہی کسی جرم سے کمائے گئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ‘ جہاں پیسے بھیجنا یا وہاں سے منگوانا کبھی مسئلہ ہی نہیں تھا‘ اس معاملے میں اتنے حساس ہوچکے ہیں کہ کوئی پانچ دس ہزار ڈالر بھی اچانک خرچ کر ڈالے تو ان کا مالیاتی نظام گھنٹیاں بجانے لگتا ہے۔ ان کے مقابلے میں پاکستان میں حالات یہ ہیں کہ اکثر دکانوں نے کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے فروخت صرف ٹیکس بچانے کیلئے روک دی ہے۔ ان دکانوں کے مالکان اپنے گاہکوں سے ٹیکس پورا وصول کرتے ہیں لیکن اسے حکومت تک پہنچانے کے بجائے اپنی تجوری میں بھر لیتے ہیں۔ پھر یہی کالا پیسہ کبھی آف شور کمپنیوں میں جاتا ہے، کہیں اس کے پلاٹ خریدے جاتے ہیں اور کوئی سونے کی شکل میں محفوظ کرلیتا ہے۔ جب موقع ملتا ہے تو یہی پیسہ درآمد برآمد کے کھاتوں میں سے گزر کر جائز کمائی کا روپ دھار لیتا ہے۔ جب کالے پیسے کی فراوانی ہو تو جرائم بھی پنپنے لگتے ہیں اور جرم جب سیاست میں گھس آئے تو یہی دہشتگردی کہلانے لگتا ہے۔ دنیا کو خطرہ ہے کہ پاکستان کا ڈھیلا ڈھالا مالیاتی نظام نادانستہ طور پر دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہونے لگے۔ اسی خطرے کی وجہ سے دنیا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ اپنے مالیاتی نظام کو کسی نظم و ضبط میں لے کر آؤ اور اگر نہیں لاسکتے تو پھر ہم سے کاروبار بند کردو۔ ظاہر ہے دنیا کے ساتھ کاروبار کی بندش کا مطلب ہے تباہی۔ اصولاً یہ کام ہمیں کسی دباؤ پر نہیں از خود کرنا تھا لیکن دباؤ پر ہی سہی جو کچھ پاکستان کو کہا گیا اس کا بیشتر حصہ ہوچکا ہے۔ اب معاملہ ہے اینٹی منی لانڈرنگ قانون میں ترمیم کا جس کی مسلم لیگ نون سیدھے سبھاؤ مخالفت کررہی ہے۔ مخالفت کی بنیاد بتائی جاتی ہے کہ منی لانڈرنگ کو قابل دست اندازیٔ پولیس جرم قرار دے دیا گیا ہے، اس میں تفتیشی اداروں کو غیر معمولی اختیار دیا گیا ہے اور حکومت اس کا غلط استعمال کرے گی۔
اینٹی منی لانڈرنگ قانون کا جو مسودہ قومی اسمبلی سے پاس ہوا ہے اس کے مطابق بینک، پراپرٹی ڈیلر، ہاؤسنگ سوسائٹی، وکیل، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، سٹاک مارکیٹ کے بروکر، سونار اور قیمتی پتھر بیچنے والوں کے ذمے لگایا گیا ہے کہ اپنے گاہکوں کی مکمل تفصیلات محفوظ رکھیں۔ جیسے ہی کسی پر شک پڑے اس کے بارے میں متعلقہ سرکاری ادارے کو مطلع کریں۔ اگر کوئی شخص ان کے ساتھ بیس لاکھ روپے سے زیادہ کی خریدوفروخت کرے گا تواس رقم کی ادائیگی نقد نہیں ہوسکے گی۔ سرکاری تفتیشی افسر کے پاس یہ اختیار بھی ہوگا کہ اطلاع ملنے پر وہ عدالت کی اجازت سے ملزم کے فون خفیہ طور پر سن سکے گا، اس کے کمپیوٹر کا معائنہ کرسکے گا اور ضرورت کے تحت اسے جان بوجھ کر غیرقانونی کام کرنے دے گا تاکہ ثبوت اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے جرائم پیشہ لوگوں کو بھی پکڑسکے۔ جو شخص منی لانڈرنگ میں ملوث پایا گیا اسے دس سال تک جیل ہوسکتی ہے، ڈھائی کروڑ تک جرمانے کے ساتھ جائیداد ضبطی بھی ہوسکتی ہے۔ مجوزہ قانون میں یہ بتایا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے علاوہ نیب بھی منی لانڈرنگ کی تفتیش کرسکتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو مسلم لیگ ن اور اب پیپلزپارٹی بھی مسئلہ بناکر پیش کررہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ نیب کی جانبداری اور پیشہ ورانہ صلاحیت پر بہت بڑے سوالیہ نشان ہیں، لیکن صرف نیب کو بنیاد بنا کر منی لانڈرنگ جیسے خطرناک جرم کے خلاف قانون سازی کے راستے میں روڑے اٹکانا کافی معلوم نہیں ہوتا؛ البتہ یہ اعتراض کسی درجے میں درست ہے کہ جن اداروں کو تفتیش کا اختیار دیا جا رہا ہے وہ اس کا غلط استعمال کریں گے۔ لیکن اختیار تو پولیس بھی غلط استعمال کرتی ہے، اب کیا اس سے اختیار واپس لے لیں؟ ادارو ں کا نکمّا پن ہمارا آج کا مسئلہ نہیں، لیکن مجبوری یہ ہے کہ انہی کو اختیار بھی دینا ہے، کام بھی لینا ہے اور درست بھی کرنا ہے۔ یہ سب کچھ بیک وقت ہونا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے دور میں انہی اداروں سے کام لیتی رہی ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو اپنے اداروں کی حقیقت اور عالمی دباؤ کا علم نہ ہو۔ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حمایت میں تاجر اور خوشحال طبقات ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ ظاہر ہے منی لانڈرنگ کسی عام آدمی نے توکرنی نہیں، نہ اس نے پیسہ باہر بھیجنا ہے۔ بیس لاکھ روپے سے بڑی جائیداد تو وہی خریدے گا نا جس کے پاس بیس لاکھ سے زیادہ روپے موجود ہیں۔ عام آدمی کو تو بیس لاکھ روپے کی جائیداد خریدنا پڑ جائے تو اس کی زندگی قرض چکاتے گزر جائے گی۔ ٹیکس چوری کا پیسہ بھی اسی کے پاس ہوگا نا جو بڑا آدمی ہوگا، عام آدمی کے پاس تو گھر کے خرچ کے پورے پیسے نہیں ہوتے۔ آپ ذرا ان لوگوں کا تصور کریں جن کا ٹیکس پچاس لاکھ بنتا ہے اور وہ صرف پانچ لاکھ دے کر بچ نکلتے ہیں۔ پینتالیس لاکھ ٹیکس بچا کر اگرچہ ان کی آمدن بھی سفید سے کالی ہوجاتی تھی، لیکن اس سے انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا اور وہ دندناتے پھرتے تھے۔ کوئی پوچھنے والا تو تھا نہیں اس لیے ان بڑے لوگوں کی موج تھی۔ نئے قانون کے بعد کالا پیسہ باہربھیجنا بھی مشکل ہوجائے گا اور پاس رکھنا بھی۔ اب پوچھنے والے بھی ہوں گے اور پکڑنے والے بھی۔ ان بڑے لوگوں کو پوچھے جانا اچھا لگتا ہے نہ پکڑے جانا۔ شاید یہ پہلا قانون ہے جو صرف بڑے لوگوں کے لیے مصیبت بننے والا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری معیشت میں بھی کچھ بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے۔ یہ سب سمجھنے کے باوجود مسلم لیگ ن کی طرف سے اس قانون کی مخالفت کا مطلب ہے کہ یہ غیردانستہ طورپر انہی بڑے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کررہی ہے جن کی جیبیں چوری کے پیسے سے بھری ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ واٹر بیڈ تھیوری کیا ہے۔ جان پرکالی کمائی والوں کی بنی ہے، ان کی آواز بعض شرفا اٹھا رہے ہیں۔