اس وقت بظاہر تو ہمارے سیاسی ماحول میں کسی قسم کی غیرمعمولی کشیدگی کے آثار دکھائی نہیں دیتے لیکن جس طرح مولانا فضل الرحمن تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں‘ اس سے طاقتور گروہوں اور مقتدرہ کے مابین تناؤ میں اضافہ ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم غور کریں تو ہمارے معاشرے میں غیر مختتم تشدد کو بھڑکانے والے وہ تمام عوامل پائے جاتے ہیں، جنہیں کوئی بھی اندرونی یا بیرونی قوت بروئے کار لا کے سماج کو منقسم کر سکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مغربی سرحدوں پہ بسنے والے دو گروہوں میں بے چینی کی لہریں اٹھ رہی ہوں اور کچھ دوسرے گروہ خود کو ریاست کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے میں دشواری محسوس کر رہے ہوں تو ایک بڑی جماعت سے سیاسی تنازعات کو بڑھانا دانشمندی نہ ہو گی۔ دوسرے یہ کہ عالمی حالات کے تناظر میں یہاں ایک ایسی ہمہ گیر پیراڈائم شفٹ محو خرام ہے جسے ہر گروہ کیلئے دائرۂ ادراک میں لانا ممکن نہیں؛ چنانچہ اس ٹرانزٹ پیریڈ میں پالیسی امور میں تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت یقینی بنانا اگرچہ دشوار عمل ہو گا لیکن منتخب قیادت کی اولین ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ملک کو سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھنے سے روکنے کی خاطر قومی لیڈر شپ کا اعتماد حاصل کرے۔ بلاشبہ یہ پالیسی شفٹ پیچیدہ تغیر ہے جس کا بڑا حصہ آئس برگ کی طرح کنفیوژن کی دھند میں چھپا رہے گا مگر اس کے اثرات کو ہر گروہ محسوس کر سکتا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت مخالف سرگرمیاں بہت جلد ایسے سیاسی تصادم میں ڈھل سکتی ہیں جس کا مکمل ادراک خود ایسی سرگرمیاں کرنے والوں کو بھی نہیں لیکن خوش قسمتی سے ہماری قومی لیڈر شپ ان تغیرات کی حدت کو محسوس کر رہی ہے۔ غالباً اسی لئے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں‘ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمن کو برابر انگیج رکھا ہوا ہے۔ نوازشریف کے ٹیلیفونک رابطے اور شہباز شریف کی قیادت میں لیگی رہنمائوں کی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اعلانیہ ملاقات کو بظاہرحکومت مخالف تحریک کے تناظر میں دیکھا جائے گا لیکن میری نظر میں یہ پوری مساعی جے یو آئی کی طرف سے مرکز گریز جماعتوں کے ساتھ مل کر شروع کی جانے والی اُس حکومت مخالف تحریک کو ریگولیٹ کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ کسی نامطلوب تصادم پہ منتج ہو سکتی ہے۔ متذکرہ بالا دونوں بڑی جماعتوں نے پچھلے سال اکتوبر‘ نومبر میں بھی مولانا کے لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنے کو پُرامن اختتام تک پہنچانے کی خاطر ریاست کی مدد کی تھی اور آج پھر مولانا کی جدوجہد میں ان کی شمولیت سیاسی تنازعات میں توازن لانے کی کوشش نظر آتی ہے؛ تاہم ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری ہنگاموں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاست بھی سمندر کی مانند ہوتی ہے‘ سطح پہ جتنی بھی پُرشور لہریں اٹھ رہی ہوں، سطح کے نیچے سب کچھ پُرسکون رہتا ہے۔ البتہ اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی نوعیت کے کئی سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے جن کو سلجھانے کے لئے عقلِ اجتماعی کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے زیادہ ضرورت سیاسی رواداری کی پڑے گی۔
جس معاشرے میں انتہا پسندی کی جڑیں گہری اور مذہبی و سماجی تفریق روز افزوں ہو وہاں تضادات کو صرف قانونی طریقے سے ہموار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ایک فطری امر ہے، اگر کوئی حکومت احکامات تو جاری کرے مگر شہریوں کی مدد اور رہنمائی کا فریضہ سر انجام نہ دے تو ایسی مملکت فرد کو قانون کی متابعت کی ترغیب نہیں دلا سکتی۔ ہمیں اس مشکل سے نکلنے کے لئے انسدادِ دہشت گردی کی ایسی جامع پالیسی مرتب کر نا پڑے گی، جسے ملک گیر سیاسی پارٹیوں، علاقائی گروپوں اور مذہبی جماعتوں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہو۔ اس ضمن میں بھی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سمیت مولانا فضل الرحمن اور ان کے ہمنوا علماء کرام کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ امر واقعہ یہی ہے کہ بعض گروہوںکی شکایات کو قابل اعتماد قانونی طریقے سے حل نہ کر سکنے کی وجہ سے ان کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ تشدد کو متبادل کے طور پر تلاش کریں۔ پُرامن سیاسی اصلاحات کے ذریعے حکومت ان رجحانات پہ قابو پا سکتی تھی مگر افسوس کہ ہم نے تفریق کو بڑھا کے معاشرے کو منقسم کرنے اور سرحدوں پہ جنگ کے مسلسل خوف کے ذریعے آمریتوں کو مقبول بنانے میں سر کھپانا ضروری جانا۔ علی ہٰذا لقیاس! اگرچہ دنیا یہاں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو (جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور ملکی استحکام متاثر ہوا) ہماری قومی شناخت کے بنیادی نظریے سے جوڑتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ساری قباحتیں بھی عالمی طاقتوں کے تزویری مفادات کے تحت اپنائی گئی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، جنہیں سلجھانے کے لئے عالمی برادری نے اب ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ان مشکلات کی دلدل سے نکلنے کے لئے ہمیں عوامی حمایت کے حامل ایک مربوط سیاسی نظام کی ضرورت تھی لیکن ہمارے اربابِ بست و کشادکوشش بسیار کے باوجود سسٹم میں استحکام لانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہرچند کہ 2008ء اور 2013ء کے الیکشن کے ذریعے اقتدار کی پُرامن منتقلی کی وجہ سے سیاسی نظام میں کچھ توازن لانے کی کوشش ہوئی لیکن 2018ء کے انتخابات کو پھر تنازعات نے گھیر لیا۔ سچ تو یہ ہے کہ افسر شاہی کی بدعنوانی جمہوری تجربے کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے، جس سے داخلی خود مختاری کا تحفظ مشکل ہوتا گیا۔
ملک کو آج بھی بڑھتے ہوئے قرضوں کے بحران اور معاشی محاذ پر برہم کن تجارتی عدم توازن کا جو سامنا ہے، مزید برآں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہمسایہ ملک بھارت سے کشیدگی کا ہر سوچ پہ سایہ فگن ہونا اور افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کے مضمرات وقتاً فوقتاً تشدد کے ایسے رجحانات کو ابھارتے ہیں جو علاقائی سلامتی اور عالمی امن کے لئے خطرات پیدا کرتے ہیں۔ اس پراگندہ ماحول میں یہاں ذہنی ارتقا کا سفر کیسے آگے بڑھتا؟ جب ریاست معاشرے کے اندر بڑھتی ہوئی عدم رواداری کو روکنے کے لئے صحت مند سیاسی مکالمے کو فروغ دینے سے ہچکچاتی ہو اور ذرائع ابلاغ، آرٹس، ٹیکنالوجی، مکالموں اور جدید تعلیم کے ذریعے ذہنی ارتقاء کے سفر کو دوام دینے کی راہیں بدستور تنگ ہو رہی ہوں، ایسے میں ایک اعتدال پسند جماعت کے ساتھ غیر ضروری سیاسی اختلافات تشویشناک ہو سکتے ہیں۔
ابھی تو ہماری صوبائی حکومتیں شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں، سرکاری ادارے اگر قابل اعتماد قانونی ذریعے سے شہریوں کی شکایات کو دور کرتے تو تشدد کے رجحان کو فروغ نہ ملتا اور قانونی اتھارٹی ازخود جواز حاصل کر لیتی لیکن غیر معمولی اختیارات ملنے کے باوجود ہماری پولیس اور کمیونٹی کے درمیان تعلقات میں بہتری نہیں لائی جا سکی بلکہ عام شہری کے لئے انصاف تک رسائی کے مواقع بتدریج گھٹتے جا رہے ہیں۔ قانون کے موثر نفاذ کے لئے پولیس اور معاشرے کے مابین تعلق کو بہتر بنائے بغیر ریاست کی رٹ قائم نہیں ہو سکتی۔ آج بھی اکثر پولیس اہلکار شہریوں سے بدسلوکی کرکے فرد اور ریاست کے مابین بداعتمادی کی خلیج کو بڑھاتے ہیں۔ سینئر پولیس آفسیر محمد علی بابا خیل کے مطابق یہی طرزِ عمل پولیسنگ کو مؤثر بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ صوبائی حکومت نے قانونی اصلاحات اور پولیس کی استعدادِ کار بڑھانے پہ اربوں روپے خرچ کر ڈالے لیکن پولیس اور کمیونٹی کے تعلقات میں بہتری کے امکانات اب بھی بعید تر ہیں۔