مشہور فارسی محاورہ ہے آن دفتر را گاؤ خورد، و آں گاؤ را قصاب برد۔ وہ کاغذات کا ڈھیر گائے کھا گئی اور وہ گائے قصاب لے گیا۔ محاورہ آگے بھی چلتا ہے۔ و آں قصاب در راہ مُرد۔ اور وہ قصاب راستے میں مر گیا۔ اگر دفتر کے معنی سرکاری دفتر لیے جائیں تو ہمارے علمی ادبی اداروں پر بالکل درست بیٹھتا ہے۔ دفتر،گائے، قصاب، مقاصد، تنخواہیں، اخراجات سب ختم۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔
وہ سرکاری ادارے جن کا تعلق روزمرہ کی سہولیات مثلا پانی‘ بجلی‘ گیس وغیرہ سے ہے، جو ملک گیر اور بڑے ادارے ہیں اور جن کا عوام الناس سے براہ راست روزمرہ کا تعلق ہے، ان کی ناقص کارکردگی ظاہر کرنا آسان ہے اس لیے کہ ان کا تعلق ہر شخص کے ساتھ ہے۔ یہ جو سرکاری سرپرستی میں چلنے والے علمی، ادبی، ثقافتی ادارے ہیں ان کے بارے میں بات کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ وجہ یہ کہ ان علوم و فنون سے ہمارا بھی گہرا تعلق ہے اور دل چاہتا ہے کہ ان کے فروغ کے لیے نئے ادارے وجود میں نہ بھی آئیں تو کم از کم پہلے ادارے تو محفوظ رہیں‘ لیکن دوسری طرف سفاک حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر ان اداروں نے علم، ادب، تحقیق، ثقافت کے راستوں میں اتنے گہرے گڑھے کھود ڈالے ہیں اور ان راستوں پر اتنے پھاٹک لگا دئیے ہیں کہ نئے کاموں اور مطالبات کی ہمت کی ہی نہیں جا سکتی۔ اس پر طرہ یہ کہ کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جائے تو سربراہ سے لے کر نچلے عملے تک ہر ایک تنخواہ یافتہ علم، ادب، ثقافت کی گردن مروڑ دینے کا اتنا شور مچاتا ہے کہ جیسے یہ فی سبیل اللہ سب خدمات انجام دے رہے تھے۔ چاہے آپ خود بھی علم، ادب، صحافت، قلم سے منسلک ہوں لیکن ذرا ان پر اور ان کے کاموں پر انگلی اٹھا کر دیکھیے۔ پنجے جھاڑ کر ایسے آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے جیسے علم و ادب کے وارث بس یہی ہیں۔ آپ تو بس ان کی کرسی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے کسی ادارے کا تصور کیجیے۔ ایک چھوٹے سے ادارہ کو بھی جگہ یا عمارت درکار ہے۔ اس عمارت کا کرایہ، دیکھ بھال کے اخراجات۔ ادارے کا سربراہ اگر ریٹائرڈ افسر ہو تب بھی اس کی تنخواہ، مراعات،گاڑی، پٹرول، مہمان نوازی کے خرچ۔ پھر اس ادارے میں کچھ محققین جو عموماً بڑے گریڈ کے افسران ہوتے ہیں‘ان سب کے لیے مذکورہ بالا یا ان میں سے اکثر اخراجات۔ پھر نچلا عملہ۔ قاصد، نائب قاصد، ڈرائیور، سٹور کیپر، سٹینو، سیکرٹری و علیٰ ہٰذاالقیاس۔
تو جناب یہ سب کتنے اخراجات ہوئے؟ فی ماہ لاکھوں میں تو یقینا۔ اب حکومتوں کے پاس اتنے پیسے تو ہوتے ہی نہیں کہ بھاری گرانٹس دے سکیں لہٰذا جو پیسے ملتے ہیں ان سے یہ تنخواہیں اور اخراجات ہی پورے ہوجائیں تو بڑی بات ہے؛ چنانچہ پیسے آئے‘ تنخواہوں اور اخراجات میں صرف ہوئے اور ٹائیں ٹائیں فش۔ کسی کتاب، کسی تحقیق کے چھاپنے کا کیا سوال؟ کسی علمی‘ ادبی بامقصد کام کا کیا امکان؟ کسی علم انگیز موضوع پر مکالمے کی کیا گنجائش؟ ان اداروں اور متعلقہ وزارتوں کے درمیان مسلسل خط و کتابت اسی سلسلے میں چلتی رہتی ہے کہ گرانٹ بڑھائی جائے‘ گزارہ نہیں ہوتا یا پھر ادارہ اپنے مختلف ملازمین کے درمیان چپقلش اور سیاست کا مرکز بنا رہتا ہے اور یہی معرکے نمٹاتا رہتا ہے۔ تو خلاصہ یہ کہ یہ ادارے برسوں سے محض تنخواہیں ادا کرنے کا فریضہ انجام دینے سے زیادہ کچھ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں‘ اور یہ توقع بے سود ہے کہ آئندہ یہ صورت حال بدل جائے گی۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔ ایسے بہت سے ادارے جو بظاہر بہت اچھے مقاصد کے لیے قائم ہوئے تھے‘ اپنے مقصد میں کتنے کامیاب ہوئے؟ بعض اداروں کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہے۔ ان کی کارکردگی کیا ہے؟
سیدھا سا سوال ہے۔ ایک ادارے پر اٹھنے والے مجموعی سالانہ اخراجات اور ادارے کی پوری عمر میں ہونے والے کل اخراجات بمقابلہ ادارے کی کارکردگی۔ کون سا پلڑا بھاری ہے؟ اس کے بعد کسی مائی کے لعل کی ہمت ہے کہ وہ مزید کسی علمی ادبی ادارے کے قیام کا مطالبہ کرے؟ سچ تو یہ ہے کہ اکثر کو باقی رکھنے کی تائید کے لیے بھی بڑی بے ضمیری درکار ہوگی۔
اداروں کے اندر چپقلش کا بھی سن لیجیے۔ ایک وفاقی علمی ادبی ادارے نے برسوں وہ منظر دیکھے ہیں جس میں سربراہ اور نائب سربراہ کے درمیان ہر وقت جنگ و جدل کی کیفیت رہتی تھی۔ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کو چلنے نہیں دیتا تھا اور نتیجہ یہ کہ دونوں مل کر اس ادارے کو چلنے نہیں دیتے تھے۔ اسلام آباد کے ایک علمی ادارے کے سربراہ نے چن چن کر اپنے عملے میں وہ لوگ تعینات کیے جو ایک تو غیرمشروط وفاداری کا دم بھرتے ہوں، دوم ان کی شخصیت سربراہ کی شخصیت سے بڑی نہ بن سکے، سوم ان کی مسلکی ترجیحات سے بھی ہم آہنگی ہو۔ اس کو گولی ماریں کہ منتخب لوگ تعلیمی اور سند کے لحاظ سے اس علمی اور تحقیقی ملازمت کے معیارات پر پورے اترتے تھے یا نہیں‘ جب ملازمتوں کا یہ معیار ہو تو تحقیق کے معیار کا خود اندازہ لگا لیں۔
نون لیگ کے سابق دور میں کچھ ایسے لوگوں کو جگہ دی گئی جن کا ایک مقصد ادارے کے ذریعے اپنی ذات کو نمایاں کرنا تھا۔ اس زمانے میں ان کے ادارے کی ہر کتاب پر خواہ وہ ری پرنٹ ایڈیشن ہو، اس سربراہ کا نام کسی بہانے سرورق پر شائع ہونا لازمی تھا، خواہ اس کام سے ان کا دور کا بھی تعلق نہ ہو۔ کوئی ادبی میلہ، کوئی کانفرنس ان کی ذات بابرکات کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی تھی اور ظاہر ہے سب انکے ادارے کے خرچ پر۔ ایسے لوگوں کی سیاسی، نظریاتی ترجیحات بھی لازمی ہوتی ہیں کیونکہ سہاروں کے بغیر وہ دھڑام سے گر پڑتے ہیں؛ چنانچہ سرکاری خرچ پر اور تحقیق کے نام پر یہ کام بھی ہماری جیبوں سے پیسے نکلوا کر کیے جاتے رہے ہیں۔
پہلے عرض کیا ہے کہ بات سب وفاقی اداروں کی ہے لیکن ابھی گفتگو مخصوص اداروں کے بارے میں ہے۔ مجھے وہ سرکاری بینک یاد آتا ہے جو پندرہ بیس سال پہلے بھی سرکاری تھا اور میرے دفتر کے بالکل قریب۔ مہینے کے اکثر دنوں میں عملے کی دس فیصد تعداد بھی موجود نہیں ہوتی تھی۔ جو موجود ہوتے تھے غیر موجودین کے حصے کا کام بھی انہیں پر ہوتا تھا؛ البتہ مہینے کے ابتدائی دنوں میں اچانک رونق بڑھ جاتی تھی۔ بیس سال پہلے کئی بار یہ منظر دیکھا کہ پانچ چھ مشٹنڈے اپنی تنخواہ کا چیک وصول کرنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ منیجر ڈرا سہما بیٹھا انہیں چائے پلوا رہا ہے۔ اس کے بعد اب یہ اگلی پہلی تاریخ کو نظر آئیں گے۔ کسی کی مجال نہیں کہ ان سے کچھ پوچھ سکے۔ چیک تو کیا چائے روکنے کا حوصلہ بھی کسی میں نہیں۔ بینک کی مثال تو محض بات سمجھانے کے لیے ہے۔ آپ ان علمی ادبی اداروں میں جا کر دیکھیے۔ صورت حال میں زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔
پس چہ باید کرد اے اقوام شرق؟ کسی ایک نیک نام ادارے اور قابل قدر شخصیت کے کام کی بنیاد پر لاتعداد کام چور، کاہل اور نکمے اداروں کا غیر متناہی مدت تک کے لیے پیٹ بھرا جاتا رہے؟ اس وجہ سے کہ یہ ادارے علم، ادب، تحقیق کی بنیاد پر وجود میں آئے تھے، ان کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جائیں؟ علم، ادب کے نام پر دکانداریاں باقی رکھی جائیں؟ سچ بات یہ ہے کہ یہ ملک و قوم پر بہت بڑا ظلم ہوگا۔
ڈاکٹر عشرت حسین کے خاکے کے مطابق کن وفاقی اداروں کو باقی رہنا ہے؟ کن کو ختم ہو جانا یا دیگر اداروں میں ضم ہوجانا ہے۔ کچھ معلومات آچکی ہیں اور کچھ آجائیں گی۔ پھر جو ادارے باقی رہیں گے، ان کی کارکردگی کا معیار کیا طے ہوگا؟ ان اداروں میں نااہلوں کی چھانٹی کس طرح ہوگی؟ ابھی کچھ پتہ نہیں۔ ملکی خزانے پر اس کے کیا اثرات ہوں گے، ابھی کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ قوی اندیشہ ہے کہ یہ سب ادارے ختم ہوں اور صورتحال جوں کی توں رہے۔ طریق کوہکن میں بھی پرویزی حیلے کرشمے دکھاتے رہے تو اس اکھاڑ پچھاڑ کا کیا فائدہ ہوگا؟ ایسا نہ ہوکہ اگلی گائے آئے، وہ بھی نیا دفتر کھا جائے اور اسے بھی نیا قصاب باندھ کر لے جائے۔