لندن بااثر اور طاقتور افراد کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ جو بھی لندن میں پناہ حاصل کر لیتا ہے‘ اسے واپس لانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک کا برطانیہ کے ساتھ ملزم حوالگی کا معاہدہ بھی نہ ہو تو یہ عمل قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک الطاف حسین، اسحاق ڈار اور سلمان شہباز کو پاکستان واپس لانے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں حکومت مسلم لیگ نون کے مرکزی قائد میاں نواز شریف کو کیسے واپس لائے گی؟ یہ ایک ایسا ملین ڈالر سوال ہے جو پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ہر شخص (بشمول میرے) کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ نواز شریف کے کردار کو پاکستانی سیاست سے نکالا نہیں جا سکتا‘ وہ ابھی تک اس میں پوری طرح سے موجود ہیں اور اُن کی جماعت بھی ابھی تک متحد ہے‘ منتشر نہیں ہوئی۔ یہ وہی مسلم لیگ ہے جو پرویز مشرف کے کُو اور نواز شریف کی سعودی عرب جلا وطنی کے بعد بکھر گئی تھی‘ چوہدریوں کی قیادت میں مسلم لیگ ق اور دوسرے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بٹ گئی تھی، لیکن اس بار اُس کے ارکانِ اسمبلی بھی جڑے ہوئے ہیں اور تنظیمی ڈھانچہ بھی برقرار ہے۔ گویا پوری کوشش کے باوجود خطرہ ٹلا نہیں، بلکہ پوری طرح موجود ہے اور کسی وقت بھی حکومت کے خلاف بگل بج سکتا ہے۔ خاص طور پر جب سے مریم نواز شریف کی پیشی پر ہنگامے کا واقعہ پیش آیا ہے حکومت کیلئے سب اچھا سمجھنے والے حلقے بھی چوکنا ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد یہ خبریں بھی آئیں کہ بلاول بھٹو زرداری کا نواز شریف سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔ نومبر کے بعد سے اب تک یہ پہلا موقع تھا کہ نواز شریف نے کسی سیاسی رہنما سے اس طرح بات کی ہو۔ یہ دوسری ''سیاسی حرکت‘‘ تھی جس نے حکومتی کیمپ میں تشویش کی لہر دوڑا دی کہ نوازشریف نے اب باہر بیٹھ کر ملکی سیاست کی باگیں کھینچنا شروع کر دی ہیں، اور پھر نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو منانے کے لئے فون بھی کیا۔ انہیں اس بات کا یقین دلایا کہ اُن کی آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) بھرپور شرکت کرے گی۔ اس رابطے سے گویا حکومت پر ایک بجلی سی گری، کیونکہ بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ نواز شریف کی خاموشی نے مسلم لیگ (ن) کو ایک بے عمل جماعت بنا دیا ہے۔ اگرچہ شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے رابطے میں تھے، مگر سیاسی میدان ٹھنڈے پڑے تھے، ایک بے یقینی اور انتشار کی کیفیت طاری تھی، لیکن نواز شریف کی دو ٹیلی فون کالز نے حکومت کی نیندیں اڑا دیں اور بے جان اپوزیشن میں بھی ایک نئی جان پڑنے کے امکانات روشن ہونا شروع ہو گئے۔ غیر فعال شہباز شریف بھی تحریک میں آ گئے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ اچانک سے حکومت نے نواز شریف کی واپسی کے گڑے ہوئے مردے کو پھر سے زندہ کر دیا ہے کیونکہ صرف آٹھ ہفتوں کی ضمانت پر جانے والے نواز شریف نومبر 2019ء سے تاحال بغرض علاج لندن میں ہیں اور پچھلے ان دس مہینوں میں کئی بار نواز شریف کی مختلف تصاویر بھی منظر عام پر آئیں لیکن حکومت کو پروا نہ ہوئی؛ تاہم اب وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کی ہدایت جاری کر دی ہیں اور وزارتِ قانون کو اس سلسلے میں فوری اور ایفیکٹیو اقدامات کرنے کو کہا ہے، لیکن اب بھی بہت سے لوگ یقین نہیں کر رہے کہ حکومت واقعی نواز شریف کو واپس لانا چاہتی ہے۔ کابینہ میں اس حوالے سے بڑی گرماگرمی دیکھنے میں آئی کہ نواز شریف کو پاکستان واپس کیوں نہیں لایا جا رہا؟ بلکہ وزیر اعظم عمران خان تو اس قدر غصے میں ہیں کہ انہوں نے اس بات کی تحقیقات کا حکم بھی دیا ہے کہ نواز شریف کس طرح پورے سسٹم کو چکر دے کر نکل گئے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ انہیں کس نے اور کیوں نکالا؟ اور جب تک وہ خاموش رہے تو کسی کو پروا نہ ہوئی لیکن ان کی دو ٹیلی فون کالز نے سوئے ہوئے سسٹم کو جگا دیا کیونکہ پاکستان کا حکومت برطانیہ سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہے جس کے تحت وہ براہ راست کسی شخص کو طلب کر سکے‘ لہٰذا حکومت نے سزا یافتہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو وطن واپس لانے کی ٹھانی ہے۔ سوچ میں اس اچانک تبدیلی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دو برسوں میں حکومت کوئی ایسی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے جیسی عوام کو تحریک انصاف کی حکومت سے توقع تھی‘ لہٰذا ایسے میں اپوزیشن کو پھر سے عوامی مہم چلانے کا موقع مل سکتا ہے اور یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ اپوزیشن مڈ ٹرم الیکشن جیسے ون پوائنٹ ایجنڈا پر متفق ہو کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ نواز شریف نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ کیس میں نیب کی سزا کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس میں 10 سال، مریم نواز کو 7 سال جبکہ کیپٹن صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تھا اور عدالت نے ان کی سزائیں معطل کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ دوسری طرف نیب نے بھی ناصرف ان سزاؤں کی معطلی کے خلاف درخواست دائر کی بلکہ العزیزیہ کیس میں سزا بڑھانے کی درخواست بھی دے رکھی ہے۔ منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں العزیزیہ اور ایون فیلڈ کیسز میں شریف فیملی اور نیب کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، معزز عدالت نے 4صفحات کے فیصلے میں نواز شریف کو مختصر مہلت دے کر 10 ستمبر کو سرنڈر ہونے کا حکم دیا ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کی سزا معطلی کے بعد ضمانت منظور ہوئی اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو مشروط ضمانت ملی‘ اور نوازشریف کا موجودہ سٹیٹس یہ ہے کہ وہ اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں، یہ لیگل پوزیشن ہے کہ وہ ضمانت پر نہیں ہیں اور علاج کے لیے بیرون ملک موجود ہیں۔ عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے کہا کہ نوازشریف کی ضمانت مشروط اور ایک مخصوص وقت کے لیے تھی، اگر لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تو کیا العزیزیہ کی سزا ختم ہو گئی؟ یہ وہ قانونی سوالات ہیں جو نواز شریف کی عدم واپسی کی صورت میں ان کے خلاف ہو سکتے ہیں اور انہیں عدالت سے مفرور بھی قرار دیا جا سکتا ہے جس کا اثر ان کے موجودہ مقدمات کی درخواستوں پر بھی پڑے گا‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ نواز شریف جب تک لندن میں ہیں وہ حکومت کی دسترس سے باہر ہیں‘ اور جس علاج کے مقصد سے وہ ضمانت لے کر باہر گئے تھے وہ تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ برطانوی قوانین کے مطابق، برطانیہ میں موجود کوئی بھی شخص اگر بیمار ہو جائے تو برطانوی حکومت اسے اس وقت تک اپنے ملک واپس نہیں بھیج سکتی جب تک وہاں کے ڈاکٹرز اس کو سفر کرنے کیلئے مکمل طور پر فٹ قرار نہ دے دیں‘ یا پھر وہ شخص خود اپنے ملک جانا چاہے۔ میاں نواز شریف تو ویسے بھی برطانیہ میں اپنی ایک میڈیکل ہسٹری رکھتے ہیں۔ وہ دل کے عارضہ کے ساتھ ساتھ شوگر اور گردوں کے بھی مریض ہیں۔ ایسے میں خود میاں نوازشریف کی مرضی کے بغیر ان کو واپس پاکستان لانا قریب قریب ناممکن ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز بڑے واضح انداز میں کہہ چکی ہیں کہ نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں، ان کی جان کو خطرہ ہے اور جب تک ان کا علاج مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک ان کی واپسی نہیں ہو گی۔ بظاہر قرائن بھی یہی بتا رہے ہیں کہ اگر حالات سازگار نہیں ہوتے تو سابق وزیر اعظم اتنی جلدی واپس نہیں آ سکیں گے۔
میرے خیال میں تو حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ نواز شریف ایک بار پھر مریض بن کر لیٹ جائیں، اور اس کے ساتھ مریم نواز کی زباں بندی کی شرط بھی شامل ہے۔