تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     03-09-2020

بس بیان بازی

کیا شاندار وڈیو کلپ نظروں کے سامنے تھا، کراچی کی بارش کے گھٹنوں‘ گھٹنوں تک پانی میں ڈوبی ہوئی کسی شاہراہ پر ایم کیو ایم کے کارکن جھاڑو سے پانی نکال رہے تھے۔ ساتھ ساتھ میں کوئی صاحب مسلسل کمنٹری کر رہے تھے کہ دیکھئے صاحبان! آج جب سب ادارے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں تو ہمیشہ کی طرح صرف ایم کیو ایم میدانِ عمل میں ہے۔ چند ایک احباب قطار میں کھڑے اِن باتوں پر مسلسل سر ہلا رہے تھے۔ کمنٹری مسلسل جاری تھی ''پہلے تو یہاں بہت زیادہ پانی تھا لیکن ایم کیو ایم کے کارکنوں کی مسلسل محنت کے باعث اب یہ صرف گھٹنوں گھٹنوں تک باقی رہ گیا ہے‘‘۔ اُن کی اِس محنت پر دل سے بے اختیار اُن کے لیے دعا نکلی کہ یا باری تعالیٰ! اِنہیں ''عوام کی خدمت‘‘ کرنے کی مزید توفیق عطا فرما۔ اُن کی ذہانت کو داد دینے کا بھی جی چاہا کہ کسی خاص تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے وہ محض جھاڑوئوں کی مدد سے ہی کمر کمر تک پانی کو گھٹنوں تک لے آئے تھے۔ اگر یہ کلپ آپ کی نظروں سے نہیں گزرا تو سرچ کیجیے آسانی سے مل جائے گا اور آپ کو یقین کرنا ہی پڑے گا کہ یہ لوگ کراچی والوں کے کتنے خدمت گزار ہیں۔البتہ یہ کلپ دیکھ کر کچھ افسوس سا بھی ہوا کہ 1985ء سے کراچی کے سیاہ و سفید کی مالک جماعت کو اب اِس قدر لاچار کردیا گیا ہے کہ بے چارے جھاڑو کے ساتھ پانی نکالنے پر آ گئے ہیں ۔ ظاہر ہے جب ان بے چارو ں کے پاس اختیارات ہی نہیں ہوں گے تو پھر وہ کسی نہ کسی طرح تو عوام کی خدمت کریں گے ہی۔ ورنہ ماضی میں جب یہ ''اُن‘‘ کے زیر سایہ تھے تو اِنہوں نے شاید ہی کوئی ایسا شعبہ باقی چھوڑا ہو جس میں 'عوامی خدمت‘ کی لازوال داستانیں رقم نہ کی ہوں۔ کے پی ٹی، واٹر بورڈ، کے ایم سی، کے ڈی اے گویا شہری خدمت کے کسی بھی ادارے کا نام لیں... وہ تو بس ایسے ہی کچھ ناہنجار اِن پر نسلی منافرت پھیلانے، بوری بند لاشیں گرانے اور مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے الزامات لگاتے رہے ورنہ تو ان لوگوں کی عوامی خدمت کے جذبے نے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کردیے تھے جنہیں توڑنا کبھی ممکن نہیں ہو سکا۔ تبھی تو‘ تبھی تو ہوٹلوں میں ویٹر کے طور پر کام کرنے والے اربوں پتی بن گئے۔ موٹرسائیکلوں پر سفر کرنے والے بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک بن گئے لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی جو اِن پر انگلی اُٹھا سکتا۔
1985ء سے 2020ء آ گیا اور 'عوامی خدمت‘ کے لازوال منصوبوں کے باعث ہی آج ملک کا سب سے بڑا شہر سرے سے ڈوب چکا ہے۔ مسلسل یہ گردان کی جا رہی ہے کہ ایک ہفتے کے دوران 350ملی میٹر بارش نے سب کچھ زیر و زبر کرکے رکھ دیا۔ میئرکراچی (اب سابق) کی باتیں سنیں تو لگتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اُن سے زیادہ دردِ دل رکھنے والا کوئی دوسرا پیدا ہی نہیں کیا۔ موصوف طویل عرصے سے کراچی کے بااختیار ترین افراد میں شریک ہیں۔ کہتے ہیں ''جون 2018ء کے بعد سے کراچی کے نالوں کی صفائی نہیں ہو سکی کیونکہ وسائل نہیں تھے۔ لوگوں نے نالوں پر تجاوزات قائم کر لیں لیکن ہم روک نہیں سکے‘‘ کیوں؟ ''ہمارے پاس وسائل نہیں تھے۔ کسی حد تک نالوں کی صفائی کرائی گئی تھی لیکن صورتِ حال ایک ماہ بعد ہی خراب ہوگئی‘‘۔ کیسے؟ ''ٹنوں کے حساب سے نالوں میں آنے والے کچرے کو روکا نہیں جا سکا تھا‘‘۔ تو جناب! یہ سب کچھ کرنا آپ کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔''کیا بات کر رہے ہیں آپ؟ جب ہمارے پاس وسائل ہی نہیں ہوں گے تو ہم بھلا اِن مسائل سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو چاہیے کہ ہمیں فنڈز دیں‘‘۔ بس تان وہیں کی وہیں‘ جہاں سے پہلے دن شروع ہوئی تھی۔ پیسہ، امداد، وسائل اور بس۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دہائیوں تک کراچی کے بے تاج بادشاہ رہے۔ اِن کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال بھی نہ تھی۔ سب دیکھ رہے تھے، سمجھ رہے تھے اور جانتے تھے کہ یہ شہر جس ڈگر پر جا رہا ہے‘ اس کا انجام کیا ہے لیکن زبان سے کوئی لفظ نکالنے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔ وجہ سب جانتے ہیں کہ ڈوریاں ہلانے والے طاقتور تھے۔ تمام وسائل اور اختیارات اِن کے پاس تھے لیکن آج سب کے سب اپنی اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر رہے ہیں۔اب اگر صوبائی حکومت یہ پوچھتی ہے کہ پہلے اُن اربوں روپوں کا حساب تو دو جو آپ کو پہلے ہی دیے جا چکے ہیں تو جواب بن نہیں پاتا۔ بس اب تو یہی ہے کہ گیند وفاق، صوبے اور شہری حکومت کے درمیان گول گول گھوم رہی ہے اور گھومتی ہی رہے گی۔ 
یہ سب کچھ کراچی ہی نہیں‘ شاید پورے ملک کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔ بارشیں نہ ہوں تو خشک سالی سے مرو اور بارشیں برس جائیں تو سیلاب کی نذر ہو جاؤ۔ اب کے بھی بارشوں کے باعث پورے ملک میں ندی نالے بپھرے ہوئے ہیں۔ ہرسال ہی بپھرتے ہیں تو پھر اِس میں نئی بات کیا ہے۔جو بھی حکومت برسر اقتدار ہو‘ وہ اِس کے لیے ماضی کی حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ یہی اب پرانے پلانٹ پر مینوفیکچرڈ نئی پروڈکٹ کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ آ جا کے تان اِس پر ٹوٹتی ہے کہ نواز شریف کو ہر صورت واپس لایا جائے گا، بدعنوانوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ کوئی تو پوچھے کہ اگر اُنہیں واپس ہی لانا تھا تو اتنی کوششیں کرکے بھیجا کیوں تھا؟ کون ہے جو یہ تصور کر سکے کہ وہ حکومتی رضا مندی کے بغیر لندن جانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ دل لگتی بات تو یہ ہے کہ باتوں سے ہٹ کر حکومت ابھی تک نواز شریف کے خلاف کوئی بدعنوانی ثابت کرنے میں کامیاب بہرحال نہیں ہو سکی ہے۔ پھر تبدیلی آنے کے بعد ملک کی جو حالت ہے‘ وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میاں صاحب بھی ہیں کہ گاہے گاہے کوئی نہ کوئی تصویر جاری کر دیتے ہیں اور ٹھہرے پانی میں پھر ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔ عجیب سا کھیل جاری ہے جس کا کوئی اختتام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ وہی کھیل جو کئی دہائیوں سے مسلسل کھیلا جا رہا ہے۔ ترجیحات ایسی ہیں جن کا عوامی مسائل کے حل سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں۔ مہنگائی سے بلبلاتے عوام کی چیخ و پکار بلند تر ہوتی جاتی ہے۔ عدلیہ کی طرف سے ریمارکس سامنے آ رہے ہیں کہ کئی ایک صورتوں میں حکومت کی کوئی رٹ ہی باقی نہیں رہی، خصوصاً کراچی کی صورت حال پر جو ریمارکس سامنے آئے ہیں، وہ سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
اِن حالات میں سن رہے ہیں کہ کہ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت کی دو سالہ شاندارکارکردگی عوام کے سامنے پیش کرنے کے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ عوام کو بتایا جائے کہ اقتدار ملنے کے دو سالوں کے دوران حکومت نے کیا ''کار ہائے نمایاں‘‘ انجام دیے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اب کے تھیلے سے کیا برآمد ہوتا ہے۔ اللہ کرے کہ کچھ ایسا برآمد ہو جائے کہ عوام کی کچھ اشک شوئی تو ہو۔ اُنہیں کسی قدر تو احساس ہو کہ حکومت اُن کے مسائل حل کرنے کے لیے کس قدر سنجیدگی سے کوششیں کر رہی ہے۔ بظاہر تو کہیں سے ٹھنڈی ہوا آتی ہوئی محسوس نہیں ہو رہی۔ خود حکومتی اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ حکومت کے پہلے دو سالوں کے دوران قرضوں میں گیارہ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی قرضہ 36 ہزار ارب روپے سے بھی بڑھ چکا ہے۔ مہنگائی الگ سے ستم ڈھا رہی ہے پھر متعدد حکومتی ذمہ داران کی طرف سے سامنے آنے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات دنیا بھر میں رہی سہی ملکی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک بیان نے قومی ایئر لائن کا جو ستیاناس کیا تو اِس کے بعد وہ بیچاری گھٹنوں کے بل ہی بیٹھ گئی۔ اب ایک غیرملکی ایئر لائن سے پروازیں چلانے کا معاہدہ ہوا ہے تو باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
سچی بات ہے کہ موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے ہمارا ناقص علم تو فیل ہو چکا ہے کہ آخر حالات کس سمت جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ تو شاید کسی نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ حالات ایسا رخ بھی اختیار کرسکتے ہیں کہ سب کچھ ہی تلپٹ ہوکر رہ جائے گا لیکن پھر بھی ہماری تمام نیک خواہشات اور دعائیں حکومت کے ساتھ ہیں۔ جتنی خوب صورت بیان بازی سے وہ مسائل حل کرنے کی کوشش کررہی ہے‘ وہ بہرحال قابل تحسین ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved