تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     03-09-2020

مدت سے پنپتی ہوئی سازش نے ڈبویا

موضوعات تو بہت ہوتے ہیں لیکن میں صرف عوامی مسائل کو اپنا موضوعِ تحریر بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس وقت جو ملک و قوم کو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے بارشوں کی تباہ کاریاں۔ پورے ملک میں بارشیں ہوئیں اور بارش کا پانی سیلاب کی مانند لوگوں کے گھروں‘ دفاتر اور تجارتی مراکز میں گھس گیا۔ جب یہ پانی گھروں اور رہائشی علاقوں میں داخل ہوا تو کروڑوں بلکہ اربوں کا نقصان ہوا‘ شہریوں کے گھر‘ بالخصوص گرائونڈ فلور اور بیسمنٹ وغیرہ تباہ ہو کر رہ گئے۔ صوبہ سندھ اس بار بارشوں سے شدید متاثر ہوا اور کراچی شہر مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا۔ بات کریں اگر گھروں کی تو پانی کی وجہ سے رہائشیوں کا فرنیچر خراب ہوا اور برتن اور سامان پانی میں بہہ گیا۔ اس کے علاوہ کچن تباہ ہوئے ان میں موجود مشینری مثلاً چولہے‘ فریج وغیرہ ناکارہ ہو گئے۔ گھر میں موجود کتابیں، شو پیس ، اسناد اور دیگر سامان خراب ہوا جبکہ کچھ لوگوں کی قیمتی دستاویزات جیسے پاسپورٹ‘ ڈگریاں اور دیگر اہم کاغذات پانی میں بہہ گئے۔
پانی کے تیز بہائو کی وجہ سے گھر کا پینٹ، سجاوٹ اور برقی آلات بھی خراب ہو گئے۔ بیشتر علاقوں میں پانی اب تک گھروں میں موجود ہے جس کو نکلنے میں کافی وقت لگتا نظر آتا ہے۔ اگر گھروں کے بیرونی حصوں کی بات کریں تو جہاں کیاریاں‘ لان وغیرہ تھے‘ وہ خراب ہوئے سو ہوئے لیکن جو نقصان گاڑیوں، رکشوں، موٹر سائیکلوں وغیرہ کا ہوا ہے‘ ان کو ٹھیک کرانے میں غریب و متوسط لوگوں کی تمام جمع پونجی لگ جائے گی۔ بیشتر لوگ اپنے گھروں کی دوسری منزلوں پر مقیم رہے اور جن کے پاس محض ایک ہی منزل تھی وہ بارش تلے رات گزارنے پر مجبور ہوئے۔ پورے شہر میں نیٹ بند رہا، لینڈ لائن ڈیڈ اور بجلی کی بندش کی وجہ سے جہاں فون وغیرہ چارج نہ ہو سکے وہیں شہری شدید خوف کا شکار بھی رہے۔ جن علاقوں میں بارش کے پانی کے ساتھ سیوریج کا پانی بھی گھروں میں داخل ہوا‘ وہاں کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ کالے رنگ کا بدبو دار پانی جہاں بھی گیا‘ گندگی کے ساتھ تعفن اور بدبو کی صورت اپنا نشان بھی چھوڑ گیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب راولپنڈی کے نالہ لئی میں طغیانی کے بعد پانی نشیبی بستیوں میں داخل ہوا تھا تو رہائشی علاقوں میں وہ برا حال ہوا تھا کہ وہاں تعفن کے باعث رپورٹنگ کرنا مشکل ہو رہا تھا، بیشتر گھروں کی دیواروں پر فنگس لگ گئی تھی۔
اگر کراچی کی بات کریں تو دفاتر، تجارتی مراکز اور مارکیٹوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ شہریوں کے گوداموں میں پانی بھر گیا‘ قیمتی سامان خراب ہوگیا۔ اس کے علاوہ دکانوں اور دفاتر کے گرائونڈ فلورز پانی سے باہر گئے۔ کراچی کے پوش علاقوں میں موجود مشہور ڈریس ڈیزائنرز کے بوتیکس بھی پانی سے بھر گئے اور قیمتی کپڑے خراب ہو گئے۔ حالیہ بارشوں نے عوام اور تاجروں‘ دونوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
یہاں پر میرا محکمہ موسمیات سے ایک سوال ہے کہ اگر اتنی زیادہ بارش کا امکان تھا تو عوام اور شہری انتظامیہ کو بروقت کیوں نہیں آگاہ کیا گیا تاکہ نقصان سے بچنے کے لئے کچھ تو اقدامات کر لیے جاتے۔ محکمہ موسمیات کو موسلا دھار بارش کی وارننگ بار بار جاری کرنا چاہیے تھی۔ صرف ویب پر پوسٹ کر دینے سے کچھ نہیں ہوتا‘ عوام تک خبر پہنچنا بھی ضروری ہے۔ اگر بات کریں بلدیہ عظمیٰ، بلدیاتی حکومت کی تو کیا یہ پورا سال ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے تھے جو ان سے شہر کے ندی نالے نہیں صاف ہو سکے؟ باتوں اور دعووں کے علاوہ کام بھی کرنا ہوتا ہے۔ اکثر ندی نالوں پر ناجائز تجازوات قائم ہوگئیں اور شہری انتظامیہ منہ دیکھتی رہ گئی۔
اس وقت بالخصوص شہر کے پوش علاقوں میں عوام سراپا احتجاج ہیں، میڈیا بھی ان کو کوریج دے رہا ہے، شہری خود بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں لیکن یہاں سوال ہے کہ سرجانی، لانڈھی، لیاقت آباد، سراب گوٹھ، فیڈرل بی، کیماڑی، نرسری، لیاری، شاہ فیصل کالونی، بفر زون، کھارادر، کورنگی، ملیر، ناظم آباد، گولی مار، محمود آباد اور دیگر علاقوں کے لوگوں کے مسائل کون سامنے لائے گا؟ بیٹیوں کے جہیز اور لوگوں کے ارمان پانی میں بہہ گئے، زندگی بھر کا اثاثہ اور جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی‘ کون کرے گا ان کے دکھوں کا مداوا؟ تنکا تنکا جوڑ کر جو آشیانہ بنایا تھا وہ پانی کے ریلے تباہ کر گئے۔ مسلسل بارش سے چھتیں گر گئیں اور لوگ بے گھر ہو گئے۔ ایک ایک پیسہ جمع کرکے جو موٹر سائیکل، رکشہ وغیرہ لیا تھا، وہ پانی میں بہہ گئے۔ ایک متوسط گھرانے کو عام سے گاڑی لینے کے لیے بھی سالوں پیسے جمع کرنا پڑتے ہیں‘ عمر بھر کی کمائی بھی بارش کا سیلابی پانی تباہ کر گیا۔
بہت سے شہری حالیہ بارشوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کئی افراد سیلابی پانی میں بہہ گئے۔ لواحقین دھاڑیں مار مار کر روتے رہے لیکن پانی کی بے رحم لہریں ان افراد کو بہت دور لے گئیں۔ جب اپنے پیاروں کے جسم پانی سے ملے تو وہ بے جان تھے اور روح پرواز کر چکی تھی۔ کرنٹ لگنے سے بھی درجنوں اموات ہوئیں۔ جب پانی پورے جسم پر ہو اور گھٹنوں گھٹنوں تک انسان پانی میں ڈوبا ہوا ہو تو کرنٹ لگنے کے اندیشے زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی شہری بارشوں سے زخمی بھی ہوئے‘ ذہنی کوفت اور اذیت کا جو شکار ہوئے‘ وہ الگ ہے۔ یہاں ناصرہ زبیری کا شعر یاد آیا ہے ؎
مدت سے پنپتی ہوئی سازش نے ڈبویا
کہنے کو مرے شہر کو بارش نے ڈبویا
کہا جا رہا ہے کہ معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے شہر کا یہ حال ہوا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو ڈبونے کی سازش میں ہرکسی نے مقدور بھر حصہ لیا۔ جس نے نالے پر پلاٹ بنا کر بیچے، جس نے ندی پر بستی بنائی، جس نے کوڑا کرکٹ کو نالوں میں پھینکا، جس نے پلان کے بغیر سوسائٹی قائم کی، اس سازش میں شریک ہیں۔ وہ تمام لیڈران بھی اس کے ذمہ دار ہیں جو وعدے تو بہت کرتے رہے لیکن عملی طور پر کچھ کام نہیں کیا، وہ شعبدہ بازی کرنے والے بھی جو جھاڑو لے کر اور لانگ کوٹ پہن کر جو کیمرے کے سامنے آ جاتے ہیں، جو ان کاموں کا فنڈ کھا جاتے ہیں، جنہوں نے نالوں کی بروقت صفائی یقینی نہیں بنائی‘ وہ سب اس شہر کو ڈبونے میں شریکِ جرم ہیں۔ اب شہرِ قائد کا حال یہ ہے کہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، ہر طرف کچرا اور کیچڑ ہے، حالات کب معمول پر آئیں گے‘ یہ کسی کو معلوم نہیں۔
کراچی اتنا بڑا شہر ہے مگر اس کے پاس ریسکیو اور ریلیف کی سروس نہیں ہے۔ اس کے پاس میٹرو جیسی بس سروس نہیں‘ اچھی صحت کی سہولتیں میسر نہیں‘ گندگی، کچرے کو ٹھکانے لگانے اور سیوریج کا مناسب بندوبست نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے شہر آلودگی کا شکار ہے۔ کہیں آگ لگ جائے، پانی آ جائے، کوئی چھت گر جائے یا کوئی اور حادثہ ہو جائے‘ حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی اور شہری کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ پھر آرمی آ کر ریسکیو کرتی ہے۔ کیا پاک آرمی اور بحریہ کو مستقلاً کراچی میں ایک ریسکیو سروس شروع نہیں کر دینی چاہیے تاکہ عوام کی قیمتی جانیں اور املاک بروقت بچائی جا سکیں کیونکہ متعلقہ سول اداروں سے تو کوئی امید نہیں۔
اگر ہم بات کریں اندرونِ سندھ کی، پنجاب کے میدانی علاقوں اور خیبر پختونخوا کی تو یہاں پر بھی شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔ پورے پاکستان میں ہی جولائی‘ اگست اور ستمبر تک مون سون کا موسم رہتا ہے۔ پنجاب میں ہمیشہ زیادہ بارشوں سے لاہور کے نشیبی علاقوں میں پانی بھر جاتا ہے‘ جو حادثات کا باعث بنتا ہے۔ اگر کے پی کی بات کریں تو سوات اور کوہستان میں طغیانی آنے سے 23 افراد سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اندرونِ سندھ میں حیدر آباد، سانگھڑ، ٹھٹھہ، بدین اور سجاول میں بارشوں سے کافی نقصان ہوا ہے۔ بلوچستان میں بھی بہت سے دیہی علاقے زیر آب آئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں حالیہ بارشوں سے 176سے زائد اموات ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں مکانات بارشوں سے مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔اس وقت فصلوں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ وبائی امراض کے پھیلنے کا خدشہ بھی سروں پر منڈلا رہا ہے۔ پھر بھارت‘ طغیانی کے باعث وہ جو پانی دریائوں میں چھوڑے گا‘ وہ مزید سیلاب کی صورتحال پیدا کرے گا کیونکہ ڈیم بنانے کی بات کرو تو یہاں سب اس کی مخالفت میں سامنے آ جاتے ہیں حالانکہ ہمیں چھوٹے بڑے پانی کے لاتعداد ذخیروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ پانی سمندر میں گرکر ضائع نہ ہو اور زراعت کے مصرف میں آئے۔
اب حکومت کو چاہیے کہ بارشوں کے اگلے سپیل کی تیاری کرے، ندی نالے صاف کرے، تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے اور وہاں رہنے والوں کو متبادل جگہ دی جائے۔ اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی غور و فکر کرنے اور اپنی ترجیحات میں اسے شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی مسلسل موسم کی شدت کی زد میں ہے۔ کبھی گرمی سے شہری مر رہے ہیں تو کبھی بارش سے، رہی سہی کسر بجلی کی بندش پوری کر دیتی ہے۔ گھنٹوں بلکہ اب تو کئی کئی دنوں تک لائٹ غائب رہتی ہے اور شہری اپنے روز مرہ کے معمولات انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ستمبر کے پہلے اور دوسرے ہفتے دریائوں میں طغیا نی کا اندیشہ ہے، اب وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس چیز کے لئے کس حد تک تیار ہیں‘ یہ تو ہم آئندہ چند دنوں میں دیکھ لیں گے۔ مون سون کا چھٹا سپیل بھی ملک بھی داخل ہو رہا ہے‘ اس لئے شہری احتیاط کریں۔ اربن فلڈنگ سے بچنے کیلئے سڑکوں کے ساتھ نکاسی ٔ آب کا بندوبست کریں اور کہیں بھی کچرا جمع مت ہونے دیں۔ ذمہ داران اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور مل جل کر عوام کے مسائل کا حل نکالیں۔ یہ وفاق اور صوبے کی جنگ نہیں عوام کے مسائل ہیں‘ ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر کے شہریوں کی داد رسی کی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved