کبھی کبھی زندگی ایک ایسا سبق آپ کو سکھاتی ہے‘ تمام عمر جو یاد رہتا ہے۔ یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ زبردستی کسی سے کوئی رشتہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے‘ جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہاسٹل کے وسیع میدان‘ جہاں گھوڑوں سے لے کر مور تک‘ طرح طرح کی مخلوقات پھرتی رہتیں۔ ایک دن ہم سو کر اٹھے تو ان میں بطخوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ کچھ عرصے بعد دو عدد بطخوں کو قریب دو درجن انڈوں پہ بٹھا دیا گیا۔ آخر وہ دن آیا‘ جب یہ انڈے تڑخنا شروع ہوئے۔ پہلے ایک بطخ کے انڈوں سے تمام چوزے یکے بعد دیگرے کامیابی سے باہر نکل آئے اور وہ انہیں دنیا سے روشناس کرانے لگی۔ کچھ گھنٹوں بعد دوسری بطخ کے چوزے نکلنا شروع ہوئے۔ دوسری بطخ کے تمام چوزے بھی انڈوں سے باہر نکل آئے لیکن ایک انڈا جوں کا توں پڑا رہا۔ دوسری بطخ نے بھی جب اپنے چوزے اکٹھے کر لیے اور انہیں سنوارنے لگی تو کچھ ٹائم بعد آخری انڈہ تڑخنے لگا۔ بالآخر اس میں سے بھی ایک چوزہ باہر نکلا‘ انتہائی بدقسمت چوزہ۔
نجانے کیوں اس کی ماں نے اسے پہچاننے سے صاف انکار کر دیا۔ دونوں بطخیں اپنے اپنے چوزوں کو لے کر دانہ چگنے لگیں۔ وہ بیچارا بار بار ان کے قریب جانے کی کوشش کرتا تو بطخیں اسے چونچ مار کے ایک طرف کر دیتیں۔ وہ ایسا بدقسمت تھا کہ پہلے سانس سے زندگی اس پہ نامہربان تھی۔ ہم لڑکے حیران تھے اور اس کی حالتِ زار پہ ہمیں ترس آ رہا تھا لیکن ہم اس کی ماں کے دل میں رحم کیسے پیدا کرتے۔ خدا یہ کہتا ہے کہ دلوں میں جو محبت ہوتی ہے‘ وہ میں نازل کرتا ہوں۔ حدیث کے مطابق اللہ نے اپنے رحم کے سو حصوں میں سے ایک حصہ زمین پہ اپنی مخلوقات پہ نازل کیا ہے۔ اسی کی وجہ سے مخلوقات دوسروں پہ‘ بشمول اپنی اولاد پہ رحم کرتی ہیں۔ جب یہ رحم اٹھا لیا جائے گا تو حشر کے میدان میں ماں باپ اپنی اولاد کو پہچاننے سے انکار کر دیں گے۔ بیچارہ چوزہ زندہ تو تھا کہ پرندے ماں کے دودھ پہ منحصر نہیں ہوتے اور پہلے دن سے چلنے پھرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن ماں جیسی نعمت کی محرومی اس پہ اثر انداز ہو رہی تھی۔ بطخوں کے چوزے شروع شروع میں بالکل مرغی کے چوزوں کی مانند پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ وقت اسی طرح گزرتا گیا۔ وہ ہمیشہ ان کے پاس جانے کی کوشش کرتا رہا اور مار کھاتا رہا۔ آخر وہ ان سے کچھ فاصلے پہ رہنے لگا۔ ماں کی آغوش میں پلنے والے چوزے تیزی سے بڑے ہو رہے تھے مگر وہ بدقسمت چوزہ جسامت میں ان سے آدھا تھا۔ ایک دن جب ہم سکول سے ہاسٹل آئے تو میدان میں پیلے پروں کے ڈھیر پڑے ہوتے تھے۔ چوزے یکایک سفید ہو گئے تھے۔ ادھر وہ بدقسمت بدستور پیلے رنگ کا تھا۔
ایک دن ہم وہاں سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ وہ ایک طرف پڑا ہوا ہے اور سر اٹھانے کے قابل بھی نہیں۔ وہ بیمار تھا۔ میرے دوست عدنان کو اس پہ بہت ترس آیا۔ سکول میں ایک عدد '' ڈاکٹر‘‘ بھی ہمیں میسر تھا‘ جو درحقیقت کوالیفائیڈ نہیں بلکہ نیم حکیم تھا۔ عدنان چوزے کو اٹھا کر اس ''ڈاکٹر‘‘ کے پاس لے گیا۔ اس نے جب چوزے کی حالتِ زار دیکھی تو بجائے اس پہ ترس کھانے کے وہ ہنسنے لگا۔ پھر اس ''ڈاکٹر‘‘ نے اس کا سر دو انگلیوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اٹھا کر چھوڑ دیا۔ اس بیمار میں سر اٹھائے رکھنے کی طاقت بھی نہ تھی۔ کمزور ی سے اس کا سر ڈھلک گیا۔ اس پہ وہ اور خوش ہوا اور یہی حرکت بار بار کرنے لگا۔ مجھے اس سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ آخر ''ڈاکٹر‘‘ نے کہا کہ اسے شہد چٹائو اور دھوپ میں رکھ دو۔ بس اتنا کافی ہے! عدنان نے بیمار چوزے کے لیے شہد خریدا۔ ہم ہاسٹل کی تین منزلہ چھت پر آئے۔ اسے شہد چٹایا اور دھوپ میں لٹا دیا۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک گھنٹے بعد آکر اس کا معائنہ کرتے ہیں۔ جب ہم دوبارہ آئے تو وہ قدرے بہتر تھا اور چل پھر رہا تھا۔ ہم دوبارہ نیچے چلے گئے۔ دوسری بار جب ہم چھت پر آئے تو وہ نظر نہیں آیا۔ عدنان نے چھت سے نیچے دیکھا تو چیخ اٹھا۔ وہ نیچے میدان میں پڑا تھا اور اس کا پیٹ پھٹا ہوا تھا۔ ہم بھاگ کر جب نیچے آئے تو دیکھا کہ وہ کب کا مر چکا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ بطخیں اور ان کے بڑے بڑے چوزے وہاں سے شور مچاتے ہوئے گزرے تو ہمیشہ کی طرح وہ ان کی طرف بھاگا اور چھت سے چھلانگ لگا دی۔ یہ اپنے بہن بھائیوں سے جا ملنے کی ایک جبلّی خواہش تھی۔ اتنی طاقت اس میں کہاں تھی کہ پَر پھڑپھڑاتا۔
عدنان بہت دکھی تھا۔ کئی سال بعد مجھے معلوم ہوا کہ پرندوں میں تو یہ ایک معمول ہے۔ عقابوں میں دو یا تین میں سے جو بچہ اپنا کھانا چھین کر نہیں کھاتا اور قدرے کمزور رہ جاتا ہے‘ ماں باپ اسے چھوڑ کر اپنی تمام تر توانائیاں طاقتور بچّے کا پیٹ بھرنے میں لگا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کمزور بچہ چند ایک دن میں بھوک سے ہلاک ہو جاتا ہے۔ بعض جانوروں میں بھی ایسا دیکھا گیا ہے۔ انسانوں میں ماں باپ بیمار اور کمزور بچّے کو آخری وقت تک بچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں بلکہ دوسروں سے کہیں زیادہ توانائی اس پہ صرف کرتے ہیں۔ اس چوزے نے مجھے یہ سبق سکھایا کہ کسی سے زبردستی کا کوئی رشتہ قائم کرنے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی کہ اگر ہم اس چوزے پہ رحم نہ کھاتے اور چھت پر نہ لے جاتے تو شاید وہ خود ہی ٹھیک ہو جاتا اور زندہ رہتا۔ سروائیو کرنے کے قابل وہ تھا ہی تو کئی ہفتے زندہ رہا۔ ہمارا رحم اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ ایک سبق یہ تھا کہ دوسروں کی مدد اچھی چیز ہے لیکن کسی کا رازق بننے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔
ایک واقعہ وہ تھا‘ جو دنیا میں چمپینزیوں کی سب سے بڑی ماہر جین گوڈال بتاتی ہیں۔ ایک مادہ چمپینزی فی فی کے ہاں ایک بچہ جوجی (فرضی نام) پیدا ہوا۔ یہ بچہ جب بڑا ہو گیا تو مقررہ وقت پر اس نے ماں کا دودھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ فی فی نے ہر ممکن کوشش کی لیکن جوجی لڑائی جھگڑا کر کے اپنی منواتا رہا۔ پھر فی فی کے ہاں دوسرا بچہ پیدا ہوا تو ایک دن اچانک وہ غائب ہو گیا۔ شاید جوجی نے ہی اسے مار کے کہیں چھپا دیا تھا۔ اس کے بعد فی فی نے جوجی کو روکنے کی کوشش بند کر دی اور وہ بدستور ماں کا دودھ پیتا رہا۔ پھر فی فی شدید بیمار ہو گئی اور کچھ دن بیمار رہ کر فوت ہو گئی۔ جوجی دو تین دن تک اپنی مردہ ماں کے پاس بیٹھا رہا۔ پھر بھوک اور غم کی شدت سے وہ بھی مر گیا۔ جوجی کی عمر حالانکہ اتنی ہو چکی تھی کہ اگر وہ مناسب وقت پر دودھ چھوڑ کردوسرے چمپینزی بچوں کے ساتھ گھومنا اور کھانا پینا شروع کر دیتا تو ماں کی موت کا صدمہ برداشت کر لیتا۔ اس کے لیے مگر اس کی ماں ہی کُل کائنا ت تھی۔ اس واقعے میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ انسان کو سخت جان بننے کی کوشش کرنی چاہیے اور کسی کو اپنی کُل کائنات بنانے سے گریز بھی۔
بطخ کے بد قسمت چوزے کا واقعہ انسان کو غم زدہ کر دیتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ چوزے میں اتنی سمجھ تھی ہی نہیں کہ وہ پہلے سانس سے اپنے بدقسمت ہونے پر دکھی ہو سکتا۔ اپنی چھوٹی سے چھوٹی محرومی پہ آٹھ آٹھ آنسو بہانے اور ساری زندگی اسے یاد رکھنے کی صلاحیت صرف انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی حقیقت تھی کہ گو ہم اس کی موت کا سبب بنے لیکن دنیا میں اس کی تکالیف کاخاتمہ بالآخر ہماری وجہ سے ہی ہوا۔ چوزے کا اپنا trial تو کوئی تھا نہیں کہ اس میں دیرپا غم پالنے کی صلاحیت ہی نہیں لیکن اس کے ذریعے نرم دل لڑکوں کا ٹرائل ضرور ہوا۔ جن کے دل سخت تھے‘ ان کے لیے اس واقعے میں کوئی رمز تھی ہی نہیں۔ ان کے لیے راوی سدا بہار چین لکھتا ہے۔