ویسے تو ہر تاریخی دور میں جمہوریت کو خطرات لاحق رہے ہیں‘ لیکن آج کے جدید زمانے میں‘ جسے آپ جمہوری دور کہنے میں حق بجانب ہیں‘ اس کے لئے خطرات ایک خوفناک آندھی کی مانند بڑھ رہے ہیں۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ طاقت ور طبقات کو جمہوریت سے دل چسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ ہر حربہ استعمال کر کے عوام کو اپنے حق میں کر لیں۔ یہ بھی اس لئے کہ اقتدار حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے ان بے چارے عوام کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اندر کی کہانی ہر جگہ ایک ہی ہے کہ عوام کو خواص سے دور رکھا جائے‘ ایک فاصلہ ان کے درمیان قائم رہنا چاہئے۔ برابری اور مساوات کی باتیں تو فقط باتیں ہی ہیں‘ عمل سے جن کا کوئی تعلق نہیں۔ جو اہمیت عام آدمی کو موجودہ دور میں نصیب ہے‘ یہ جمہوریت کی مرہونِ منت ہے‘ ورنہ چند صدیاں پہلے تک تو وہ ہر طرح کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اب بھی لا تعداد سماجی اور اقتصادی زنجیریں موجود ہیں‘ مگر اب وہ خاصی نرم ہو چکی ہیں اور ڈھیلی پڑ چکی ہیں۔ عام آدمی آزادی اور برابری کے سلوک کا نظریہ کسی حد تک اپنا چکا ہے۔ امریکہ ہو یا جرمنی‘ بھارت ہو یا پاکستان‘ برابری کے حقوق کا پرچار ایک کارآمد سیاسی ہتھیار ہے‘ جو غریب آدمی کو میسر تو ہے‘ مگر اس کو موثر طریقے سے استعمال میں لانے کے لئے تعلیم‘ نظریاتی پختگی اور تنظیمی سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔
مقتدر طبقوں نے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ بس ہر وقت‘ ہر جگہ غریب آدمی‘ عام آدمی کے حقوق‘ مہنگائی کے خاتمے اور جمہوریت کے نعرے لگائو‘ لیکن کرو وہی جو اپنے مفاد میں ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں لوٹ کھسوٹ کا بازار آزادی کے بعد بھی تسلسل کے ساتھ گرم ہے۔ سامراجی غلبہ اور استحصال ختم ہوا تو گورے صاحب کی جگہ رنگ برنگے صاحبوں نے لے لی۔ آزادی‘ جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور جس کے حصول کی جدوجہد میں لاکھوں کٹ مرے‘ موہوم ہی رہی۔ عام آدمی کا تصور نظریاتی تصویر کشی میں تو بڑا جاذب محسوس ہوتا ہے‘ لیکن عملی سیاست میں اس کی اہمیت فقط ووٹ بٹورنے کی حد تک ہے۔ اس سے آگے کچھ بھی نہیں۔ انسان غریب ہو‘ ان پڑھ ہو اور سماجی درجہ بندیوں میں نچلی سطح پر ہو تو طاقت ور سیاسی خانوادوں کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ سرپرستی کی سیاست اس لئے ہمارے ہاں غالب ہے کہ براہ راست انتظامی نظام میں حقوق اور انصاف کی فراہمی نا ممکن نظر آتی ہے۔ عام آدمی کو سہارے کی ضرورت ہے‘ اور اس سہارے کی قیمت سیاسی وفاداریوں اور تابع داریوں کی روایت ہے۔ ایسی سیاسی ثقافت اور روایت ہمارے حکمران طبقات کو راس آتی ہے۔ اسی لیے وہ اس پر مُصر رہتے ہیں۔ مقابلہ بس گنے چنے سیاسی خاندانوں میں ہے‘ ہم یعنی عوام صرف پرچیاں ڈالتے رہے اور آئندہ بھی ڈالیں گے۔
میں چند امریکی سکالرز کو قریبی طور پر جانتا ہوں۔ عرصہ تک ان سے ذاتی مراسم اور دوستی رہی۔ کچھ اگلے جہان سدھار چکے ہیں‘ باقی حیات ہیں۔ ان میں سے چند ایک نے پاکستان کے سیاسی خاندانوں کے درمیان رشتے داری پر مقالے لکھے ہیں۔ ظاہراً تو آپ کو یہ لگے گا کہ کسی کا تعلق بھٹو‘ زرداری صاحب کی جماعت سے ہے‘ اور کسی کا مسلم لیگ یا تحریکِ انصاف سے‘ لیکن یہ سب دن کے اوقات کی باتیں ہیں۔ شام ڈھلتے ہی سب اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایک ہی خاندان کے لوگ دو یا تین مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے نظر آئیں گے۔ طبقات کا مرکزی نظریہ سمجھے بغیر ہم کسی بھی ملک کی سیاست کو شاید اس کے معروضی حالات میں نہ سمجھ سکیں۔ ترقی پذیر ممالک کی جمہوری سیاست میں اقتدار قائم کرنے اور اسے دوام بخشنے کے لئے ریاست کا سہارا ضروری ہے‘ یعنی کسی نہ کسی طرح اقتدار کے قریب ہی رہا جائے تو سرپرستی کی سیاست کے لئے سرکاری وسائل دستیاب ہو جاتے ہیں۔ سب سیاسی خاندانوں کی دوڑ صوبائی اور ضلعی انتظامی ڈھانچوں کو اپنے زیرِ اثر رکھنے میں ہے کہ اس کے بغیر ''جمہوری سیاست‘‘ کا جادو زیادہ کام نہیں کر سکتا۔ ہمیں تو یہ جمہوریت بھی قابلِ قبول ہے کہ آہستہ آہستہ پسے ہوئے طبقات کے دلوں کو آزادی کی روشنی شعور سے منور کر ہی ڈالے گی۔ جمہوریت کو ارتقائی نظام اس لئے کہا جاتا ہے کہ سیاسی اور اقتصادی حکمران طبقات کے غلبے کی خواہش اور اس سلسلے میں کاوش اور عوام میں آزادی کی تڑپ میں جاری تصادم کا فیصلہ ایک نسل میں نہیں ہو سکتا‘ نہ کبھی ہوا ہے۔ امریکہ میں تو اب صدیاں بیت چکیں‘ عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ایک صدی پہلے نصیب ہوا‘ لیکن وہاں سیاہ فام لوگوں کو آج بھی دبا کر رکھا ہوا ہے۔
خطرات کہاں سے ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہے؟ جمہوریت کو خطرہ کبھی عوام سے نہیں ہوا کہ یہ نظام ان کی رائے پر بنتا اور چلتا ہے‘ اور جمہوریت صرف ووٹ دینے کا حق نہیں بلکہ اس کی آخری منزل سماجی اور معاشی انصاف ہے‘ ترقی ہے‘ آگے بڑھنے کے مواقع ہیں۔ مغرب میں آزادی کی جدوجہد نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے‘ جو گزشتہ نصف صدی سے جاری ہے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ آزادی اور جمہوریت کے عمرانی معاہدے آئین اور قانون کی شکل میں تو موجود ہیں‘ مگر عملی طور پر رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں۔ پہلے ہم مغرب کی بات کر لیتے ہیں۔ اقلیتوں‘ خصوصاً سیاہ فام اقلیتوں اور عورتوں کی تحریکوں کو وہاں دبا کر رکھا جاتا ہے‘ ابھرنے نہیں دیا جاتا۔ وہاں حکمران طبقات قانون‘ عدالتوں اور میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں سول وار کے بعد سیاہ فام غلاموں کو آزادی تو مل گئی‘ لیکن اگلے ایک سو سال تک ان کے سکول علیحدہ رہے‘ ان کی بستیاں سفید فاموں سے الگ بسائی جاتی رہیں اور بسوں و ٹرینوں میں بیٹھنے کی جگہ بھی سیاہ فاموں کے لئے علیحدہ رکھی گئی۔ سیاہ فاموں کے حوالے سے معاشرے میں تعصب کس قدر زیادہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہاں کی جنوبی ریاستوں میں قانون یہ تھا کہ اگر کوئی سفید فام آ جائے تو بس کی آخری سیٹوں پر بیٹھے سیاہ فام اپنی نشست خالی کر دیں گے تاکہ وہ گورا یا گوری وہاں بیٹھ سکیں۔ گزشتہ ہفتے سول رائٹس کی پچاس سالہ تاریخ کی یاد میں واشنگٹن ڈی سی میں ایک بہت بڑا اجتماع ہو تو سب تقریروں میں جو باتیں دہرائی جاتی رہیں اور سب سے نمایاں تھیں‘ وہ آزادی اور برابری پر ابھی تک جاری رکاوٹوں اور پابندیوں سے متعلق تھیں۔ وہاں تصادم بنیادی طور نظریاتی ہے اور اس کے ساتھ نسلی بھی۔ جمہوریت پسند برابری اور انصاف کا تقاضا کرتے ہیں۔ رجعت پسند مذہبی روایات اور قومیت پرستی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ فضا ایسی ہے کہ ایک دوسرے کے جلوسوں پر حملے ہونے شروع ہو گئے ہیں۔
تصادم کی فضا اب ہر جمہوری ملک میں قائم ہے۔ زیادہ تر نا پختہ جمہوری نظاموں میں۔ جمہوریت تعاون‘ گفت و شنید اور درمیانی راہ کا تقاضا کرتی ہے۔ ان رویوں کی جگہ ہم آمرانہ مزاج مشرق و مغرب میں ابھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ تیسرا خطرہ قومیت پرستی اور پاپولزم سے ہے کہ ہمارے یا دیگر ملکوں کے حکمران شہرت اور حمایت حاصل کرنے کی سستی سیاست کرتے ہیں۔ بلند بانگ دعوے اور ہر وہ کام جو عوام کو اچھا لگے‘ مگر مشکل فیصلوں سے گریز۔ ہمارا ملک تو گزشتہ نصف صدی سے پاپولزم کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ آخری بات یہ کہ اکثریت کی بنیادیں نظریاتی ہوں‘ مذہبی یا نسلی‘ وہ اقلیت کو دبانے کے درپے ہے۔ ایسے سیاسی وجود سے جمہوریت کی روح تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار ہی جاتی ہے۔ پھر ہم بے جان جمہوریت کی دیوی کو پوجتے رہتے ہیں۔