تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     04-09-2020

کیا آل پارٹیز کانفرنس ہو گی؟

گزشتہ روز کراچی میں جناب آصف علی زرداری اور جناب شہباز شریف کو ایک صوفے پر بیٹھے دیکھ کر مجھے بزرگوں کا ایک قول یاد آگیا کہ الفاظ کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط سے کام لو‘ کیا پتہ آج کا دشمن کل کا دوست ہو۔ جب ایسا ہو جاتا ہے اور اکثر یہ ہو جاتا ہے تو پھر آدمی آنکھ نہیں ملا پاتا۔ میرے ذہن میں وہ تلخ الفاظ گونج رہے تھے جو شہباز شریف آصف علی زرداری کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ 
کسی بھی حکومت کے خلاف جمہوری انداز میں احتجاجی تحریک چلانے کے لیے جن حالات کی ضرورت ہوا کرتی ہے وہ تقریباً سارے کے سارے یہاں موجود ہیں۔ ایک جمہوری سیٹ اپ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خاموش معاہدہ ہوتا ہے کہ جیو اور جینے دو۔ حکومت اپنی کارکردگی کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے جبکہ اپوزیشن کا کام حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی ہوتا ہے۔ سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن بالغ نظر اور مدبر سیاستدان تھے۔ ایک بار اُن کے کچھ پرجوش ساتھیوں نے انہیں کہا: آپ اپوزیشن پر تابڑتوڑ حملے کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب سینئر سیاستدان نے یہ دیا تھاکہ وہ میرے سیاسی مخالف ہیں میرے دشمن نہیں۔ 
مثبت کام کرنے کے لیے جتنے سازگار حالات اس حکومت کو ملے ہیں ماضی کی شاید کسی حکومت کو نہیں ملے۔ جناب عمران خان کی خواہش کے مطابق گلیاں سنجیاں ہو گئیں، سب ایک پیج پر بھی ہیں، ہرچند کہیں کہ اپوزیشن ہے، نہیں ہے۔ سوائے مولانا فضل الرحمن کے کسی اپوزیشن لیڈر میں دم خم نہیں۔ جناب وزیر اعظم جو قانون چاہتے ہیں بنوا لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے کوئی ضابطہ منظور نہیں ہوتا تو صدارتی آرڈیننس کا سہارا لے لیا جاتا ہے۔ 
جب یہ حکومت برسراقتدار آئی تو چینی 52 روپے کلو تھی اور آج چینی 105 روپے فی کلو ہے۔ آج 10 کلو آٹے کا تھیلا 460 روپے کا ہے جبکہ دو سال پہلے 350 روپے کا تھا۔ اور اسی طرح پی ٹی آئی نے پٹرول، بجلی اور گیس وغیرہ کے ریٹ بہت کم کرنے کے دعوے کیے تھے مگر ہر شے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ عوام بلبلا اُٹھے ہیں۔ ان سے ایک کروڑ ملازمتوں، پچاس لاکھ گھروں اور اڑھائی کروڑ بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا‘ مگر کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ اتنے سازگار حالات میں بھی جناب وزیراعظم کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ بقول شاعر؎
موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیر
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان
سوال ایک نہیں دو ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا سربراہی سطح کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہو پائے گی یا نہیں۔ اور اگر کانفرنس کا انعقاد ہو جاتا ہے تو کیا اپوزیشن ''حکومت ہٹائو نئے انتخابات کرائو‘‘ کے محدود و متعین ایجنڈے پر تحریک چلا سکے گی؟ اگر اپوزیشن فی الواقع حکومت کے خلاف ایک بھرپور عوامی احتجاجی تحریک شروع کر لیتی ہے اور عوام کو بھی یقین ہو جاتا ہے کہ اب اپوزیشن کے قائدین متفق ہیں اور متحد بھی ہیں اور تحریک کو نتیجہ خیز بنانے کا عزم و حوصلہ بھی رکھتے ہیں تو یقینا وہ اُن کا ساتھ دیں گے۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن صاحب کا تعلق ہے وہ پہلے دن سے یکسو ہیں۔ اُن کا موقف بڑا واضح ہے کہ جب پی ٹی آئی کی اکثریت حقیقی نہیں‘ تو پھر ہمیں اس کی حکومت تسلیم کرنی چاہئے اور نہ ہی ایسی اسمبلیوں میں بیٹھنا چاہئے مگر مولانا کی دلیل کے ساتھ پیپلز پارٹی نے اتفاق کیا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) نے۔ پیپلز پارٹی سندھ کی صوبائی حکومت پر خوش ہو گئی اور جناب شہباز شریف قائد حزبِ اختلاف کا رتبہ اور چند پارلیمانی کمیٹیوں کی صدارتی کلیوں پر قانع ہو گئے اور انہوں نے گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مگر جب حکومت اپوزیشن پر دبائو بڑھاتی ہے تب یہ پارٹیاں حکومتی پھندے سے چھٹکارا پانے کے لیے ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیتی ہیں۔ اس سے پہلے بھی اپوزیشن پارٹیوں نے کئی بار آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا مگر بات رہبر کمیٹی کے اجلاسوں یا کچھ قائدین کی ملاقاتوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ 
ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے کہتے ہیں کہ اسمبلیوں کی کشتیاں جلا کر اور ہرچہ بادا باد کہتے ہوئے میدانِ عمل میں کود پڑو تو کیا یہ پارٹیاں مولانا کی تجویز پر آمناوصدقنا کہیں گی؟ کوچۂ سیاست کے پرانے گرو اور سیاست دانوں کے نبض شناس شیخ رشید احمد کا جواب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت کبھی نہیں چھوڑے گی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) اسمبلیوں سے باہر آئے گی۔
اپوزیشن کے زعما کو ادراک ہونا چاہئے کہ اب اُن کے پاس گومگو کا وقت نہیںہے۔ یوں لگتا ہے جناب وزیر اعظم نے مثالی جمہوریت اور آزادیٔ صحافت کے بارے میں بھی اپنے پرانے خیالات بدل لیے ہیں۔ اب صدارتی نظام کے لامتناہی اختیارات کی تلاش کی جا رہی ہے۔ شنید ہے کہ اس معاملے میں وہ ریفرنڈم کروانا چاہتے ہیں اور اس ہدف کے حصول کے لیے عدالت میں ایک درخواست بھی دائر ہے ۔سابق چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ ریفرنڈم کی اجازت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہی دے سکتا ہے۔ 1973ء کے متفقہ آئین میں طے شدہ پارلیمانی نظام کو چھیڑنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ اس نظام پر تمام صوبے متفق ہیں۔ کیا وزیر اعظم صاحب کو معلوم نہیں کہ ایوب خان کے صدارتی دور اور ون یونٹ نے پاکستان کو توڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے صدارتی دور میں من مانی کے کئی ریکارڈ قائم کیے اور قواعد کی پامالی کی۔ اپوزیشن کو معلوم ہونا چاہئے کہ مارچ 2021ء میں سینیٹ کے الیکشن ہونے والے ہیں۔ اس الیکشن میں وہ توازن بھی بگڑ جائے گا جو اس وقت اپوزیشن کے ہاتھ میں ہے۔ اگر سینیٹ میں بھی وزیر اعظم نے اکثریت مینج کر لی تو پھر وہ کس قسم کی قانون سازی کروائیں گے اس کا ایک ٹریلر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس مجوزہ قانون میں بلاجواز گرفتاری ہی نہیں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ (جو قانون عدالتی نظام سے ماورا ہے وہ پاکستان کے ہر شہری کے لیے ناقابل قبول ہے)۔ جناب وزیر اعظم اپنا من پسند قانون منظور کروانے کے لیے دلیل کی زبان استعمال کرتے ہیں نہ ہی وہ اپوزیشن کی ترامیم کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ حزبِ اختلاف کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ اور انڈیا ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر پاکستان کو بلیک لسٹ میں لانا چاہتے ہیں۔ کیا ہم دوسروں کو خوش کرنے کے لیے وہ کچھ کرنے کو بھی تیار ہیں جس کا مطالبہ ہی نہیں کیا گیا؟
اگر اب بھی اپوزیشن آنکھیں نہیں کھولتی اور لوگوں کو ناقابل برداشت مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات نہیں دلاتی تو پھر پانی سر سے گزر جائے گا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس اور احتجاجی تحریک شروع ہو گی یا نہیں تو اس کا انحصار حکومت کے رویے پر ہے۔ اگر اپوزیشن کو سانس لینے کی مہلت بھی نہیں دی جاتی تو پھر اپوزیشن کے پاس احتجاجی تحریک شروع کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved