تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-06-2013

ڈیرہ غازی خان کی اُستانیوں سے معذرت!

تین ماہ قبل جب ڈیرہ غازی خان میں سات سو گونگے، اندھے اور بہرے بچوں کے سکول کی گیارہ استانیوں کے برطرف ہونے کے بعد مجھے مس عفیفہ کا ایک خط ملا تھا، تو میرا خیال تھا کوشش کرنے میں ہرج نہیں ہے۔ اس خط کو چیف جسٹس کے نام چھاپا کہ شاید امید کی کوئی شکل نکل آئے۔ اس خط میں اس نے تفصیل سے لکھا تھا کہ کیسے اس علاقے کی پڑھی لکھی لڑکیوں کے ساتھ ظلم ہورہا تھا اور بیوروکریسی ان کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی تھی۔ چیف جسٹس تک یہ آواز نہ پہنچ سکی۔ وہ استانی خود پریشان تھی کہ اس خط کے بعد اس کا کیا حشر ہوگا۔ اسے ہر طرف سے ڈرایا گیا کہ اب تمہاری خیر نہیں ہے۔ خیر اس لڑکی کے گھروالوں کی مہربانی کہ انہوں نے اس بچی کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے پر کچھ نہیں کہا۔ اس کے بعد ، ایک ٹیکسٹ پیغام چیف سیکرٹری پنجاب ناصر کھوسہ کو کیا کہ جناب آپ کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے اور اللہ نے آپ کو بڑی عزت دی ہے، اگر مناسب سمجھیں تو اپنے ہی شہر کے ان سات سو اندھوں، گونگے بچوں کی استانیاں ان کو واپس کرادیں۔ میری ان کے بارے میں رائے ہمیشہ اچھی رہی ہے لیکن پتہ چلا کہ وہ بھی بغاوت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور شاید اس شرط پر وہ چیف سیکرٹری لگے تھے کہ اپنے علاقے کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔ لڑکیوں کی برطرفی بھی ان کے دور میں ہوئی تھی۔ ناصر کھوسہ نے اس معاملے میں مدد کرنے سے انکار کر دیا اور میرے فون تک سننے بند کر دیے۔اس دوران سعودی عرب سے ایک انسان دوست نے ای میل کی کہ وہ ان استانیوں کی تنخواہ ادا کرنے کو تیار ہیں تاکہ گونگے بہرے بچوں کو ان کی استانیوں سے محروم نہ رکھا جائے؛ تاہم میرا خیال تھا ابھی بھی کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس دوران نگران حکومت بن گئی۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کی بیگم جگنو محسن کو فون کیا اور ان سے درخواست کہ وہ اپنے میاں سے بات کریں کہ وہ سات سو بچوں کو ان کی استانیاں واپس کریں۔ ان سے پرانا تعلق ہے۔ جگنو محسن نے کہا یہ لو نجم سے خود ہی بات کر لو۔ انہیں پورا معاملہ سمجھایا تو کہنے لگے پارٹنر ایک ٹیکسٹ میسج کر دو۔ ان کی مہربانی کہ انہوں نے اس پر سنجیدگی کام شروع کردیا۔ انہوں نے سپیشل سیکرٹری ایجوکیشن محی الدین وانی کو کہا کہ اس معاملے کو دیکھیں اور حل کریں۔ وانی کا دو دن بعد تبادلہ ہوگیا ۔ اتنی دیر میں فائلوں پر کام ہوتا رہا۔ نجم سیٹھی اسلام آباد آئے تو فون آیا کہ پارٹنر آجائو گپ شپ کرتے ہیں۔ جاتے ہی پوچھنے لگے کہ کیا بنا ؟ میں نے کہا سر میں آپ سے پوچھنے آیا ہوں کہ ان استانیوں کا کیا بنا اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں ۔ کہنے لگے کہ پہلے ان استانیوں سے چیک کرو کیونکہ انہوں نے احکامات کر دیے ہیں اور اب فائل وزرات خزانہ کے پاس ہے۔ میں نے چیک کیا تو پتہ چلا کچھ نہیں ہوا۔ سیٹھی صاحب نے میرے سامنے فون اٹھا کر اپنے سیکرٹری سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ فائل پر کام ہورہا ہے۔ اس سے زیادہ نجم سیٹھی صاحب اور کیا کرا سکتے تھے۔ اس دوران میں وہ استانیاں بھی اس بچی کا مذاق اڑانا شروع ہوگئیں کہ دیکھ لیا انجام اپنا۔ سکول کے اسٹاف کو بھی اس بچی کی یہ حرکت پسند نہیں آئی۔ جب فائل فنانس ڈویژن کے پاس گئی تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ جناب یہ کیا ظلم ہونے والا ہے۔ پنجاب کے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ پتہ چلا کہ ایک استانی کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہے اور اگر ایک سال کے لیے ان کی نوکری میں توسیع دی گئی تو اس پر تو جناب ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہوگا۔ اب کیوں کہ نجم سیٹھی اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھ رہے تھے لہٰذا اب کچھ نہ کچھ کرنا بھی تھا اور فائل کا پیٹ بھی بھرنا تھا ۔ لہٰذا پنجاب کے خزانے کو بچانے کے لیے یہ فیصلہ ہوا کہ تیس دن کے لیے ان لڑکیوں کی ملازمت بحال کی جاتی ہے۔ یوں ایک ماہ کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے کا بجٹ منظور کر کے ڈیرہ غازی خان کے بابو ( ڈی سی او) کو کہا گیا کہ وہ ان لڑکیوں کے تیس دن کے لیے جاب کے احکامات جاری کردیں ۔ ڈی سی او صاحب نے فائل روک لی۔ ڈی سی او کا کہنا تھا کہ جناب اب ملک میں الیکشن ہورہے ہیں اگر ان گونگے بہرے بچوں کی استانیوں کو تیس دن کے لیے نوکری دی گئی تو شاید پورے ڈیرہ غازی خان کا انتخابی نتیجہ بدل جائے گا۔ جب مہینہ ختم ہونے میں تین دن باقی تھے، تو ڈیرہ غازی خان کے ڈی سی او کو رحم آگیا کہ اب آرڈر جاری کردیں۔ لڑکیوں نے سکول جانے سے ہی انکار کر دیا کہ تین دن کے لیے کون اپنے آپ کو ذلیل کرائے۔ دوسری طرف پتہ چلا کہ ایک فائل نجم سیٹھی کو بھیجی گئی اور کہا گیا کہ گورنر پنجاب مستقبل کے نئے سول حکمرانوں کی سروس اکیڈمی لاہور میں مہمان خصوصی بن کر جارہے ہیں اور وہ پانچ کروڑ روپے عطیہ دینا چاہتے ہیں۔ فنانس جو ڈیرہ غازی خان کی گیارہ لڑکیوں کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے دینے کو تیار نہیں تھا، فوراً اس تجویز پر راضی ہوگیا کہ پانچ کروڑ روپے گورنر کو جاری کر دیے جائیں تاکہ وہ نئے بابوئوں میں وہ رقومات بانٹ دیں۔ تاہم جب یہ فائل نجم سیٹھی کے پاس پہنچی تو انہوں نے اعتراض کر دیا کہ اتنی بڑی رقم محض گورنر‘ سول سروس اکیڈمی کو دینا چاہتے تھے اور لوگوں کا پیسہ اس طرح خرچ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس پر ان کے اپنے سٹاف کے افسران ناراض ہوگئے جو خود بھی بابو تھے۔ نجم سیٹھی نے پانچ کروڑ روپے کو کم کیا اور گورنر احمد محمود مستقبل کے سول حکمرانوں کو لاکھوں روپے عطیہ دے کر تالیاں بجوا آئے۔ یوں تین ماہ سے شروع ہونے والی اس جدوجہد کا انجام ان استانیوں کو تین دن کی نوکری کی شکل میں نکلا ہے۔اس کے بعد اب میں اس کے علاوہ اور کیا کروں کہ ان بچیوں سے معافی ہی مانگ سکتا ہوں۔ پنجاب کو اس مالی سال میں این ایف سی شیئر سے پانچ سو ارب روپے ملے اور ڈیرہ غازی خان کی سات سو بچوں کے گونگے بہرے بچوں کے سکول کی گیارہ استانیوں کی قسمت دیکھیں کہ نجم سیٹھی کی بھرپور کوشش کے باجود بھی تخت لاہور کے حکمران ڈیڑھ لاکھ روپیہ ان کے لیے نہ نکال سکے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved