تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-09-2020

کاک ٹیل

عوام کی عدالت میں سرخرو ہیں‘ دامن صاف ہے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عوام کی عدالت میں سرخرو ہیں‘ دامن صاف ہے‘‘ جو اگر آلودہ بھی ہو جائے تو دوسرے دن دھلی ہوئی قمیص پہن کر نکلتا ہوں جس کا دامن بالکل صاف ہوتا ہے اور حالیہ کیس میں‘ یاددہانی کے باوجود جواب اس لیے نہیں دیا کہ جب میں نے ایک بار کہہ جو دیا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں تو اس پر مطمئن ہو جانا چاہیے جبکہ شریف برادران قانون کی عدالتوں سے سرخرو ہوتے تھے تو میں عوام کی عدالت سے سرخرو ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک خصوصی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت کو بھیجنے کیلئے تمام آپشنز استعمال کریں گے: احسن اقبال
سابق وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے تمام آپشنز استعمال کریں گے‘‘ اور اس سے پہلے جو آپشنز استعمال کیے جاتے تھے ان میں سے بھی کئی آپشنز استعمال کیے بغیر ہی رہ جاتے تھے، لہٰذا اب سب سے پہلے ممکنہ آپشنز کو ایک جگہ اکٹھا کریں گے تا کہ انہیں تھوک کے حساب سے استعمال کیا جا سکے جبکہ حالیہ ملاقات میں شہباز شریف نے زرداری صاحب کے سامنے یہ وضاحت پیش کر دی ہے کہ انہوں نے لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے لیے پیٹ پھاڑنے کی نہیں بلکہ ایک معمولی سے آپریشن کی بات کی تھی۔ آپ اگلے روز ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
کفایت شعاری سے ایوانِ وزیراعلیٰ 
کے اخراجات کم ہوئے: فیاض چوہان
وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''کفایت شعاری سے ایوانِ وزیراعلیٰ کے اخراجات کم ہوئے‘‘ کیونکہ جب سے ان کی آمدن میں اضافہ شروع ہوا ہے‘ ایوانِ وزیراعلیٰ نے کفایت شعاری سے بھی کچھ پیسے بچانا شروع کر دیے ہیں تا کہ برسات کے دنوں میں کام آئیں جبکہ موجودہ برسات کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں جو سب کی سب عوام کے لیے ہیں، حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا جبکہ برسات کا اصل موسم تو وہ ہو گا جو حکومت سے فراغت کے بعد آئے گا جس کے لیے بچت کرنا بے حد ضروری ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز ان کفایت شعاریوں کی تفصیلات سے میڈیا والوں کو آگاہ کر رہے تھے۔
وفاق نے کراچی کے لیے 162 ارب کا
اعلان کیا‘ ایک دھیلا بھی نہ دیا: شہبازشریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''وفاق نے کراچی کے لیے 162 ارب کا اعلان کیا‘ ایک دھیلا بھی نہ دیا‘‘ اور واضح رہے کہ میں محض اپنی عاجزی اور انکساری کی وجہ سے روپوں اور ڈالروں کے بجائے دھیلوں ہی میں بات کیا کرتا ہوں جیسا کہ میرے ایسے سینکڑوں بیانات موجود ہیں جن میں مَیں نے کہا ہے کہ میں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی، اگرچہ لوگ اس کا مطلب خوب سمجھتے ہیں؛ تاہم میں بھی عوام کو خوب سمجھتا ہوں اور دھیلوں میں ہی بات کرتا ہوں کیونکہ جب بات اس قدر تواتر سے کہی جائے تو عوام بالآخر اس کا یقین کر ہی لیتے ہیں حالانکہ اس 162 ارب میں سے حکومت اگر ایک دھیلا بھی دے دیتی تو مجھے یہ کہنے کا موقع نہ ملتا۔ آپ اگلے روز دورۂ کراچی کے دوران کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
شہباز شریف کراچی جاسکتے ہیں‘ عدالت
جاتے ہوئے بیمار ہو جاتے ہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کراچی جاسکتے ہیں‘ عدالت جاتے ہوئے بیمار ہو جاتے ہیں‘‘ جو واقعی ایک تشویش انگیز بات ہے اس لیے میرا انہیں مشورہ ہے کہ وہ آئندہ کراچی ہی آتے جاتے رہیں اور کورٹ سے مکمل پرہیز کریں کیونکہ جان ہے تو جہان ہے، انسان کو اپنی صحت کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے جبکہ یہی صورت حال میاں نواز شریف کی بھی ہے کیونکہ وہ بھی لندن میں تو ٹھیک ٹھاک رہتے ہیں، مگر وطن واپسی پر کوئی شدید بیماری ان پر حملہ آور ہو جاتی ہے، اس لیے وہ واپسی کا رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور دونوں بھائیوں کی بیماری کی نوعیت میں کچھ زیادہ فرق بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سالگرہ
ایک یہودی بچے کی دوسری سالگرہ پر اس کے باپ نے میز پر ایک چمکدار سکّہ اور ایک کرنسی نوٹ رکھ کر اس سے کہا: ان دونوں میں سے جو تمہیں پسند ہے‘ وہ لے لو۔ بچے نے سکّے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں یہ لوں گا، مگر نوٹ میں لپیٹ کر۔
اعتبار
ایک یہودی نے اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کو ڈائننگ ٹیبل پر کھڑا کر کے اسے نیچے کودنے کو کہا تو وہ بولا: میں گر جائوں گا اور مجھے چوٹ لگے گی۔ جس پر اس کے باپ نے کہا: میں تمہیں اُچک لوں گا اور گرنے نہیں دوں گا۔ بچے نے فرش پر چھلانگ لگا دی لیکن اس کا باپ پیچھے ہٹ گیا۔ بچے نے روتے ہوئے کہا: آپ پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ ''اس لیے کہ تمہیں اس بات کا سبق ملے کہ زندگی بھر کسی کا اعتبار نہ کرنا‘‘، باپ نے جواب دیا۔
اور‘ اب آخر میں حسین مجروح کی یہ نظم:
اکٹھے رہنے کی مجبوری
یہیں کہیں وہ زمانہ ہے
جس سے بنتی نہیں ہماری
اور ہمارے خمارِ ہستی کی 
خمارِ ہستی جسے ذوق ہے بکھرنے کا
کسی حساب میں ساگر کا رنگ بھرنے کا
مگر زمانہ
ہمیں ایک حریف جانتا ہے
قدم قدم پہ بچھاتا ہے عنکبوت کا دام
سند بھی چاہتا ہے
ہم سے اپنے ہونے کی
قصور وارِ کشا کش نہیں زمانہ فقط
ہمیں بھی خبط ہے
اُس کو مطیع کرنے کا
مآلِ غلبہ و ہم دشتگی کسے معلوم
یونہی رہے گی کہ ٹل جائے گی یہ آویزش
ازل سے جس نے عناصر کو خم کیا ہوا ہے
نہیں ہے صلح کا امکاں تو کشمکش کب تک
کہاں ہے ناظمِ تمثیل تُو
گرا پردہ
کہ اب تو ختم ہو
یہ روز روز کا ناٹک
آج کا مطلع
جھجکتی ہوئی مہربانی کے دن
وہ کیا تھے تری نوجوانی کے دن

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved