تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     05-09-2020

سرگزشت…(2)

امر تسر میں اُس دن میلے کاسماں تھا‘ اس کی وجہ انڈین نیشنل کانگریس ‘مسلم لیگ اور خلافت کانفرنس کے سالانہ اجلاس تھے جو امر تسر میں ہو رہے تھے۔سالک مسلم لیگ کے پنڈال میں پہنچے تو انہوں لوگوں میں ایک نیا جذبہ دیکھا ۔اُس روز حکیم اجمل کا خطبہ سننے سے تعلق رکھتا تھا‘لیکن جلسے میں اصل رونق علی برادران سے تھی۔علی برادران کی ہمت‘جرأت اور بہادری ہی ان کا امتیاز تھی۔گرفتاری اور نظر بندی ان کے لیے معمول کی بات تھی۔فرنگی حکومت کا کوئی حربہ ان کے جذبے کو سرد نہ کر سکا تھا۔جلسے کی کارروائی جاری تھی کہ سالک نے دیکھا علامہ اقبال اور نواب ذوالفقار علی خان پنڈال میں داخل ہوئے۔انہیں دیکھتے ہی جلسے کی فضا بدل گئی۔تالیوں کا شور تھا کہ تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔سالک کو اچھی طرح یاد ہے جب علامہ اقبال سٹیج پر پہنچے تو علی برادران کو گلے سے لگا لیااور پھر علی برادران کی طرف اشارہ کر کے اپنی نظم پڑھی جس کا ایک شعر تھا:؎
ہے اسیری اعتبار افزا جو فطرت ہو بلند
قطرۂ نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند
جلسے میں لوگوں کا جوش دیدنی تھا۔ اُس روز سالک کو یقین ہو گیاکہ فرنگی حکومت کے دن اب گِنے جا چکے ہیں۔ امرتسر سے لاہور واپسی کے کئی روز بعد تک سالک کے ذہن میں آزادی کے نعرے گونجتے رہے۔سالک اب آزادی کی جدوجہد میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔لیکن کیسے؟ اس کا جواب انہیں جلد ہی مل گیا۔ ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ انہیں پیغام ملا ظفر علی خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔اُس وقت ظفر علی خان کا صحافت ‘سیاست اور شاعری میں طوطی بول رہا تھا۔زمیندار اُردو کاسب سے کثیر الاشاعت اخبار تھا۔اگلے روز سالک زمیندار کے دفتر پہنچے تو مولانا نے کہا: آپ اپنی صلاحیتوں کا محدود استعمال کر رہے ہیں۔آپ زمیندار اخبار میں آجائیں اور پوری آزادی سے لکھیں۔زمیندار اخبار کی ادارت ایک بہت بڑا اعزاز تھا اور سالک کی صلاحیتوں کا بھر پور اعتراف تھا۔یوں سالک دارالاشاعت چھوڑ کر زمیندار اخبار کے مدیر بن گئے۔
زمیندار اخبار فرنگی اقتدار کے خلاف ایک مضبوط مورچہ تھا۔جب یکم اپریل 1920ء کو سالک نے زمیندار اخبار کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا تو انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ یہ صحافت برائے صحافت نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے۔وہ ایک ایسی ٹیم کا حصہ بننے جا رہے تھے جس کی قیادت نڈر اور جری ظفر علی خان کر رہے تھے۔سالک کا ما ہا نہ مشاہرہ 80 روپے مقرر ہوا لیکن پندرہ دن بعد ہی یہ مشاہرہ 125روپے کر دیا گیا۔جو اس زمانے میں ایک معقول رقم تھی۔تنخواہ اپنی جگہ لیکن زمیندار اخبار سے وابستگی خود ایک بڑا اعزاز تھی ۔وہ ظفر علی خان کے قافلے کا ہراول دستہ بن گئے تھے ۔سالک کی صلاحیتوں میں نکھار آگیا تھا‘ان کے قلم کی کاٹ اور تیز ہو گئی تھی۔ تب ایک دن جب وہ اپنے گھر پر تھے‘ دروازے پر دستک ہوئی‘ باہرنکل کر دیکھا تو پو لیس ان کی گرفتاری کے لیے موجود تھی ان کو ''نقضِ امن‘‘ پر مبنی تحریروں کی پاداش میں ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔جیل کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے‘یہاں سالک کی ملاقات بہت سے کرداروں سے ہوئی جن کا ذکر ان کی آپ بیتی ''سرگزشت ‘‘ میں ملتا ہے۔یہیں انکی ملاقات عطا اللہ شاہ بخاری ‘ڈاکٹر گوپی چند اور بابا گور و دت سنگھ سے ہوئی۔یہ سب فرنگی حکومت کے باغی تھے۔ان کا واحد جرم اپنے وطن کی آزادی کا مطالبہ تھا ۔ ہر شخص اپنی ذات میں انجمن تھا۔ سالک کو بابا گورودت سنگھ ایک دلچسپ کردار لگا ۔ بابا گورودت فرنگی حکومت کا سخت مخالفت تھا ۔اُن دنوں پنجاب کے بہت سے حریت پسند کینیڈا میں آباد اوروطن کی آزادی کیلئے سرگرداں تھے۔یوں کینیڈا ہندوستان کی آزادی کیلئے سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا جہاں ہندوستانی نوجوانوں کو ٹریننگ دی جا رہی تھی۔بابا گورو دت نے جاپانی بحری جہاز کاما گاٹا مارو کو چارٹر کیا جس میں بڑی تعداد میں پنجابی نو جوانوں کو کینیڈا لے جانا تھا لیکن فرنگی حکومت نے کینیڈا کی حکومت کو خبردار کر دیا تھاکہ اس جہاز کو کینیڈا کی بندرگاہ پر لنگر انداز نہیں ہونے دینا۔ جہاز کو کینیڈا سے واپس ہندوستان بھیج دیا گیا۔ ہندوستان پہنچنے پر فرنگی سپاہیوں نے مسافروں پر فائرنگ شروع کر دی۔ بہت سے ہلاک ہو گئے‘کچھ کو زندہ گرفتار کر لیا گیا‘کچھ فرار ہو گئے۔ فرار ہونے والوں میں باباگورودت بھی شامل تھاجو سات سال تک فرنگی خفیہ ایجنسیوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر شہر شہر پھرتا رہا۔ پھر گاندھی سے ملاقات میں طے ہوا کہ وہ گرفتاری دے اور سامنے آکر ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کرے۔جیل کے شب وروز سالک کبھی نہیں بھولے۔ ایک سال کی قید کے بعد رہا ہو کر گھر پہنچے تو مفلسی نے اس کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ سالک نے ہمت نہ ہاری اور زمیندار اخبار کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز پھر سے کر دیا۔
رہائی کے بعد زمیندار اخبار کے دفتر آمد پر ان کی ملاقات غلام رسول مہر سے ہوئی‘ معلوم ہوا کہ اب وہ بھی زمیندار اخبار کا حصہ بن گئے ہیں۔غلام رسول مہر سے پہلی ملاقات میں ہی ان کی دوستی ہو گئی جو آخر دم تک رہی۔ اب کام تقسیم ہو گیالہٰذا سالک کو اپنے کالم ''افکارو حوادث‘‘ پر زیادہ توجہ کو موقع ‘ملا یہ کالم سالک کے شگفتہ اسلوب کی وجہ سے زمیندار اخبار کی پہچان بن گیاتھا۔سالک کا کالم ادب اور سیاست کا خوب صورت امتزاج ہوتا۔کبھی کبھی انہیں وہ دن یاد آتے جب ان کی ساری دنیاصرف ادب اور شاعری تھی۔ادب سے یہی تعلق ِ خاطر تھا کہ انہوں نے بیس سال کی عمر میں اپنا ادبی رسالہ ''فانوس ِ خیال‘‘ شروع کیا تھا‘پھر مولوی ممتاز علی کے دارالاشاعت میں ادبی رسالہ ''کہکشاں ‘‘ شروع کیا ‘لیکن ذاتی طور پر وہ حکیم یوسف حسن کے ''نیرنگِ خیال‘‘ کے پرستار تھے۔یوں تو اس دور میں اور بھی ادبی رسالے شائع ہو رہے تھے جن میں عالمگیر‘جہاں گیر‘ادبی دنیا اور ہمایوں شامل تھے‘لیکن سالک کے خیال میں ''نیرنگِ خیال‘‘ سے ان کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ادب سے ان کی محبت انہیں علامہ اقبال کے پاس لے جاتی جہاں وہ اقبال سے مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ سالک کے مطابق‘ اقبال زندگی میں عمل کے قائل تھے اور ایسے ادب پر یقین رکھتے تھے جو زندگی کے دھڑکتے مسائل سے جڑا ہوا ہو اور جو معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکے ۔سالک کو ایک اور دلچسپ واقعہ یاد ہے جب دارالاشاعت میں مولوی ممتاز علی نے حقوقِ نسواں پر ایک کتاب لکھی تھی اور اس کا مسودہ لے کر سر سید احمد خان کی رائے لینے گئے تھے۔مولوی ممتاز کا کہنا تھا کہ سرسید جوں جوں یہ مسودہ پڑھتے جاتے ان کے چہرے کا رنگ بدلتا جاتا‘آخرغصے کے عالم میں انہوں نے وہ مسودہ پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور مولوی ممتاز پر اپنی ناراضی ظاہر کی۔ مولوی ممتاز علی ردی کی ٹوکری سے مسودے کے ٹکڑے لے آئے اور کتاب چھاپ دی۔ سالک کہتے ہیں کہ اس کتاب کو پڑھیں تو تعجب ہوتا ہے کہ اس میں ایسی کونسی بات تھی جسے سرسید جیسے جدید ذہن کے شخص نے رد کر دیا تھا۔
سالک کو وہ دن بھی یاد ہے جب وہ اور غلام رسول مہر زمیندار اخبار سے علیحدہ ہوئے اور پندرہ دن کے اندر ایک نیا اخبار ''انقلاب ‘‘ شروع کیا۔ سالک کو ابوالکلام آزاد سے ایک ملاقات بھی یاد ہے اور آزاد کا وہ خط تو انہوںنے ایک قیمتی دستاویز کی طرح سنبھال کر رکھا ہوا ہے جس میں اُنہوں نے سالک کو ''الہلال‘‘ میں کام کرنے کی دعوت دی تھی۔ سالک کی''سرگزشت‘‘ قیامِ پاکستان تک کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد کے واقعات پر وہ ''سرگزشت‘‘ کا دوسرا حصہ لکھنا چاہتے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔اگر ایس ہوتا تو یقینا ''سرگزشت‘‘ کا دوسرا حصہ ایک اہم تاریخی دستاویز ہوتی۔ دلچسپ‘ معلومات افزا اور عبرت انگیز۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved