ایک لمبی سنسان سڑک۔ سڑک کے ایک طرف قطار میں دور تک لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھر۔ گھروں کی عقبی سیڑھیاں سنہری سفید ریت کے ساحل پر اترتی ہوئیں۔ وہ ساحل جو نیم سنسان ہے اور حدنظر تک لمبائی میں پھیلا ہوا۔ نرم ریت کے ساحل کی دوسری طرف گہرا نیلا سمندر ٹھاٹھیں مارتا، جھاگ اڑاتا، شور مچاتا فلوریڈا کے اس ساحل سے سر ٹکراتا رہتا ہے۔ وہ پُرہیبت سمندر جس کا نام بحر اوقیانوس ہے اور جو ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف یورپی ساحلوں پر سیپیاں بکھیرتا ہے۔ ایسا سمندر، جس کے راز آج تک پورے کھل نہیں سکے اور جس نے معلوم انسانی دنیا کو صدیوں تک نامعلوم دنیا یعنی امریکہ سے بے خبر رکھا۔
میزبان اگر پُرخلوص، مہمان نواز، خوش اخلاق اور ایک نایاب صفت سے بھی متصف ہو یعنی کم گو ہو تو ہمیشہ کیلئے حافظے میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ جیکسن ویل میں ہمارے میزبان، نیّر آپا کے داماد برادرم شکیل کے گھر جناب طاہر کاہلوں سے ملاقات ہوئی تھی تو ان کی متنوع صفات کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہ عمدہ شاعر، اعلیٰ سخن فہم اور پیارے انسان ہیں۔ دو دن جو اُن کے ساتھ سیر سپاٹے میں گزرے ان میں برادرم طاہر کاہلوں نے میرے دل میں گھر کرلیا تھا۔
اب اس وقت ہم ان کے ساتھ ولانو بیچ پر کھڑے تھے۔ ریاست فلوریڈا اپنے دھوپ بھرے ساحلوں کے لیے مشہور ہے اور ولانو بیچ ایسا ہی ایک خوبصورت ساحل ہے۔ ایک نظر میں دل میں گھر کرلینے والی جگہ۔ جسے دیکھ کر دل میں آرزو پیدا ہوتی ہے کہ ان گھروں میں کسی ایک گھر میں مستقل وقت بسرہو۔ خیر یہ خواہش تو اتنی جگہوں کے ساتھ منسلک ہے کہ اب تعداد بھی یاد نہیں لیکن یہ کھلتا ہوا منظر اپنی مثال آپ تھا۔ ہم پہلے سڑک کے ساتھ بنے لکڑی کے اس پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے، جہاں سے نیچے ساحل اور سمندر دور تک ہم آغوش ہوتے نظر آتے تھے۔ کچھ دیر بعد سیڑھیاں اتر کے نیچے پہنچے اور پاؤں تلے دبتی اور پھسلتی ریت پر قدم دھرے۔ بھیگی ریت پر قدم جما کر چلنا اور لہروں کی موسیقی سننا کیسا عجیب تجربہ ہوتا ہے اور زندگی نے ایسے بہت سے تجربات میری جھولی میں ڈال رکھے ہیں۔
میری ایوارڈز، شیلڈز، مومنٹوز وغیرہ کی الماری میں چار چھوٹی چھوٹی پیاری سیپیاں بھی رکھی ہیں۔ ایک گہری سیاہ سیپی جس میں کہیں کہیں سرمئی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ ایک سنہری سیپ۔ ایک زرد صدف اور ایک سفید اور کریم رنگوں کا امتزاج۔ چاروں اتنی چھوٹی کہ ایک ہاتھ کی ہتھیلی پر آجائیں۔ یہ تحفے مجھے 6نومبر 2018 کو ولانو بیچ فلوریڈا نے دئیے تھے۔ بے حد قیمتی تحفے۔ یہ تو خیر ہیں ہی یادگار لیکن اس ساحل سے چنی ہوئی ایک ادھیڑ عمر امریکی کی باتیں بھی ساتھ رہیں گی۔ لگ بھگ ستر سال کے اس شخص نے دو ہفتے پہلے کلیولینڈ ہسپتال سے مصنوعی کولہا لگوایا تھا اور شاکی تھاکہ اتنے پیسے ٹھگ لینے اور بہت سی یقین دہانیوں کے باوجود ہسپتال والوں نے ٹھیک علاج نہیں کیا۔ اس نے بتایاکہ وہ جو کاروبار کرتا تھا وہ اس نے چار لاکھ ڈالرز میں اپنے بیٹے کو فروخت کردیا ہے ''اب دیکھیں وہ پیسے دیتا ہے یا نہیں؟ کچھ پتہ نہیں‘‘ اس نے ایک طویل سانس کھینچ کر کہا۔ حیران کیا ہوا جائے۔ اس لیے کہ مغرب تو مغرب مشرق میں بھی یہ انسانی دکھ اور ان کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ انسان، انسانی دکھ سکھ، رشتوں کی بے اعتباری شاید سب جگہ ایک سی ہے۔ مغرب ہو یا مشرق۔ مسائل کی صرف نوعیت بدلتی ہے۔
ہم فلوریڈا کے تاریخی قصبے سینٹ آگسٹائن کے ساحل پر کھڑے تھے۔ ہمارے سامنے دور تک سمندر تھا۔ ایک طرف پتھر کا وہ تاریخی قلعہ تھا جس نے معلوم نہیں کتنے معرکے اور کتنے نشیب و فراز دیکھے تھے۔ پیچھے سینٹ آگسٹائن کا بازار اور قصبہ تھا۔ یہ بڑی تاریخی جگہ ہے۔ یورپ سے آنے والے ہسپانوی آبادکاروں نے ستمبر1565 میں جب فلوریڈا کے ساحل پر اترکر یہ بستی بسائی تو امریکہ دریافت ہوئے 73 سال ہوئے تھے‘ لیکن مستقل اور تسلسل کے ساتھ کوئی ایک جگہ آباد نہیں ہوئی تھی۔ سینٹ آگسٹائن شمالی امریکہ میں پہلی مستقل اور صدیوں تک آباد رہنے والی آبادی اس مقام کو ایک منفرد تاریخی حیثیت دیتی ہے۔
میں نے چشم تصور سے ہسپانیہ کے ساحلوں سے اٹھ کر فلوریڈا آنے والے ہسپانوی جہاز ساحل کی طرف آتے دیکھے۔ یہی منظر ان ریڈ انڈینز نے چشم تصور کے بغیر دیکھا ہوگا جو اس جگہ آباد تھے۔ ہسپانوی جہاز ران پیڈرو میننڈیز کے ملاحوں کو 28اگست 1565 کے دن اس زمین کی پہلی جھلک دکھائی دی تھی۔ یہ سینٹ آگسٹائن کا دن تھا‘ اس لیے اس آبادی کا نام یہی رکھا گیا۔ میننڈیز فرانسیسی آبادکاروں سے مسابقت میں یہاں پہنچا تھا اور ایک ہسپانیہ اور فرانس ہی کیا‘ تمام یورپی آبادکار اپنی لڑائیاں اور اپنی بیماریاں لے کر امریکہ پہنچ گئے تھے۔ میں نے سوچا‘ ہسپانویوں کو فلوریڈا کا معتدل، دھوپ بھرا، سرسبز موسم پسند آیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہاں مستقل رہائش قائم کرلی اور کیسٹیلو ڈی سان مارکوز نامی پتھر کا مضبوط قلعہ بھی تعمیر کرلیا۔ اس قلعے نے کتنے معرکے دیکھے ہوں گے۔
قصبہ اب قدیم طرز پر سیاحوں کیلئے دلچسپی کی کافی چیزیں رکھتا ہے۔ ہم اس کے بازاروں، گلیوں اور سڑکوں پر پھرتے تھے، دائیں بائیں گھروں کی تعمیر قدیم مسکنوں کی یادیں زندہ کرتی تھی۔ میں ایک دروازے میں داخل ہوا‘ چھوٹا سا آنگن جس میں ایک فوارا نصب تھا‘ آگے ایک ڈیوڑھی‘ جس میں کمروں کے دروزے کھلتے تھے۔ قدیم ہسپانوی گھروں کے جو نقشے اور تصویریں دیکھی تھیں انہی کا عکس۔ گلیوں میں کسی معقول ریسٹورنٹ کی تلاش میں پھرتے ہوئے میں نے سوچا‘ یہاں جو سیاح گلیوں اور دکانوں میں سووینیرز ڈھونڈتے پھرتے تھے، کیا عجب، انہیں میں سے کچھ کے ساڑھے چار سو سال پرانے اجداد سینٹ آگسٹائن کے پہلے مکین رہے ہوں۔
ریسٹورنٹ کا نام یاد نہیں لیکن وہ بھی ایک ہسپانوی طرز کی حویلی کے اندر بنا ہوا تھا۔ داخلے کے ساتھ بڑا سا ایوان جس کے درمیان میں ایک بڑا سا فوارا اور دائیں بائیں دیواروں کے ساتھ اونچی اونچی نشستیں تھیں۔ ہم نے بھنی ہوئی مچھلی اور آلو کے چپس کے ساتھ بھرپور انصاف کیا اور اس کے بعد تصویریں کھنچوانے سے زیادہ کوئی اور کام کرنے کی ہمت رہ نہیں گئی تھی۔
لیکن اس علاقے کے اصلی باشندوں کا کیا بنا؟ وہ ریڈ انڈین جن کے مجسمے قصبے میں کئی جگہ لگے ہوئے ہیں۔ شاید وہی بنا ہوگا جو باقی ریڈ انڈین قبائل کا بنا تھا‘ یعنی شروع میں یورپی قوموں کا استقبال کرنا اور بالآخر ان کے ہاتھوں قتل ہونا۔ شمالی امریکہ میں یہی تو ہوا تھا خیرمقدم کرنے اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے والوں کے ساتھ‘ اور شمالی امریکہ ہی کیا‘ دنیا کے بے شمار ممالک اور براعظموں میں یہی تو ہوا۔ صدیوں بعد جب آسٹریلیا کے وزیراعظم نے مقامی ابورجینیز سے اپنی قوم کے مظالم کی معافی مانگی تو یہ لفظ سننے اور ان پرخوش ہونے والے بہت کم بچے تھے۔
سعود عثمانی! تم ہندوستانی خوش قسمت نکلے کہ انگریز، فرانسیسی، پرتگیز تمہاری زمین پر اترے لیکن جنگ کرنے، قتل کرنے، علاقے فتح کرنے، جیلوں میں ڈالنے، پھانسیوں پر لٹکانے‘ لوٹ مار کرنے اور تہذیب و تمدن تہس نہس کرنے پر ہی اکتفا کیا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک خالی بھی کرگئے۔ ان کی شرافت کو سراہو۔ ورنہ یہ غارت گر ملک کہاں خالی کرتے ہیں۔ تم لوگ اپنی قسمت پر ناز کرو کہ چار صدیوں اور بے شمار نسلوں کے بعد ہی سہی، اچھی خاصی تعداد میں زندہ بچ تو گئے۔ صدیوں کے بعد مقامی اقوام ابورجینیز اور ریڈ انڈینز کی طرح بن کر رہ جاتی ہیں۔ سانس لیتے عجوبے۔ زندہ میوزیم۔ تم ہندوستانی خوش قسمت ہو، خوش قسمت۔
میں نے سینٹ آگسٹائن کے ایک کوچے میں کھڑے ہوکر اپنی خوش قسمتی پر ناز کیا۔ ریڈ انڈین سردار کے مجسمے کو ایک فاتحانہ غرور سے دیکھا۔ اس کے کاندھے پر اپنا دستِ خوش بخت رکھا اور آخری تصویر کھنچوائی۔