تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     12-06-2013

جدید صوفی

تصوف کی ایک روایت تو وہ ہے جس کا تعلق خانقاہی نظام سے ہے۔ چند معلوم سلاسل ہیں، جن سے وابستہ لوگ خانقاہوں کو اپنا مرکز بناتے اور اپنے تئیں تزکیہ اور اصلاحِ اخلاق کا کام کرتے ہیں۔ان سلسلسوں میں بالعموم خلافت توفیقی نہیں ہوتی۔ ایک شیخ کسی کوخلیفہ مقرر کرتا اور وہی مجاز ہوتا ہے کہ مرشد کے بعد تزکیہ و اصلاح کی ذمہ داری نبھائے۔ اس روایت میں شیخ اور خلیفہ، مرید کی اصلاح کے لیے چند متعین امور کے پابند ہوتے ہیں۔ وظائف کی تکرار ہو یامنازلِ سلوک کے مراحل، اجتہاد کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ تقلیدی رجحان کے سبب ہی سے، روایت کا یہ تسلسل برقرار ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ہمارے ہاں ایک نئی روایت مقبول ہوئی ہے۔اب ’’صوفیا‘‘ کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا ہے جس کا تصوف کی قدیم روایت سے تعلق نہیں ہے۔ انہیں کسی نے خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ وہ خود روایت ساز ہیں اور روایت شکن بھی۔یہ ان معنوں میں کہ ان کا’’سلسلہ‘‘ ان کی ذات سے شروع ہوتا ہے اور ان ہی پر تمام ہو جاتا ہے۔ ان کا حلیہ بھی جدید ہے ۔ اکثر کلین شیوہونے کے ساتھ، سگریٹ نوشی اور دیگر عصری مشاغل میں ایک عام آدمی سے مختلف نہیں۔ان کی خانقاہ، ان کی بیٹھک یا گھر کا ڈرائنگ روم ہے۔ اکثر کا حلقۂ اثر اہلِ سیاست، بیوروکریٹ، فوجی افسران یا بالعموم متمول تاجر ہیں۔عوام کا گزر ان کی مجالس سے کم ہی ہو تا ہے۔ رائے ساز طبقات جن میں کالم نگار سرِ فہرست ہیں، ان کے حلقۂ ارادت میں نمایاں ہیں جو ان کی شہرت کو چند دنوں میں ملک گیر بلکہ عالم گیر بنا دیتے ہیں۔ یہ ’’صوفیا‘‘ لوگوں کی روحانی بالیدگی ہی کا اہتمام نہیںکرتے، ان کے فکری مغالطے دور کرتے اور اس کے ساتھ مریدوں کی دنیاوی ترقی میں بھی اہم کردار کرتے ہیں۔ان میںسب سے اہم تر کام، جو ان کے ہاتھوں سرانجام پاتا ہے، وہ اُن لوگوں کی نفسیاتی آسودگی ہے۔ صوفی روایتی ہو یا غیر روایتی، اصلاً ماہرِ نفسیات ہوتا ہے۔ اگر نہ ہو تو وہ کامیاب صوفی نہیں ہو سکتا۔ ان صوفیوں کے پاس لوگ اپنی نفسیاتی الجھنوں کے ساتھ آتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے اطوار تبدیل نہ ہوں۔ وہ دنیاوی ترقی کی منازل طے کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ ان کچوکوں سے بھی بچ جائیں جو انسان کے اندر’ضمیر‘ نام کا ایک شریر مسلسل لگاتا رہتا ہے۔ انہیں کوئی وظیفہ کوئی تسبیح مل جائے اور یوں ان کی نفسیاتی خلش دور ہو جائے۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ان جدید صوفیاکے پاس آنے والے نوے فی صد لوگ اُسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے ’’مرشد‘‘ کے فکری کمالات یا ذہنی رحجانات سے زیادہ غرض نہیں ہوتی۔ وہ ان کے خطبات پر سر دھنتے ہیں اور پہلے ہی سے قائل ہوتے ہیں کہ جو نکتہ آفرینی مرشد نے کر دی وہ حرفِ آخر ہے۔آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے جو روحانی بالیدگی کے لیے آتے ہیں۔ چونکہ اہلِ اقتدار اور سول و ملٹری افسر شاہی میں بھی ان لوگوں کا بہت اثر رسوخ ہوتا ہے، اس لیے لوگ ایک دنیاوی ایجنڈے کے ساتھ بھی ان کے پاس آتے اور کبھی مایوس واپس نہیں جاتے۔ مثال کے طور پر اگر کسی سیاست دان کو ووٹوں کی ضرورت ہے یا کسی افسر کو تبدیلی کا مسئلہ درپیش ہے یا کوئی فوجی افسر تبدیل ہوتے سیاسی نظام میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہتا ہے تو وہ یہاں آتا اور اپنی مراد پاتا ہے۔ سیاسی پیش گوئیاں بھی اُن کا ایک امتیاز اور ایک بڑی وجہ شہرت ہے۔نواز شریف صاحب کے سیاسی مستقبل کے بارے میں یہ پیش گوئیاںبڑی دلچسپ تھیں۔ 12 اکتوبر1999ء کی شب میں ایک معروف جدید صوفی سے ملا ۔ تین دن میں نے ان کے ساتھ گزارے۔ میں اُن کے حسنِ طبیعت،حسنِ خلق،بے نیازی اور دوسری شخصی خوبیوں کا ہمیشہ سے معترف ہوں۔ان کا تصوف البتہ ایک دوسرا موضوع ہے جس کا تعلق ان کے فکر سے ہے، ذات سے نہیں۔ انہوں نے تیقن کے ساتھ کہا کہ نواز شریف کی اقتدار سے دوری محض دنوں کی بات ہے۔پرویز مشرف ہوا کا ایک جھونکا ہے جس کا کوئی مستقل وجود نہیں۔ بعد میں ایک آدھ ملاقات ہوئی تو اپنی بات پر انہیں مصرپایا۔چودہ برس بعد میں پلٹ کر دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہوا کا کیسا جھونکاتھا جو بادِ سموم میں ڈھل گیا اور جس نے آباد بستیوں کو صحرا میں بدل دیا۔ پھر خیال ہوتا ہے کہ میں تو اپنے ماہ و سال کا اسیرہوں۔ اہلِ نظر کی اپنی تقویم ہے جو مجھ جیسے عامیوں کے فہم سے بالا تر ہے۔ ایک اور معروف صوفی ہیں، جن کا ذکر اخباری کالموں میں اب تواتر سے ہونے لگا ہے۔ جی ٹی روڈ پر آباد ایک شہر کے مقیم ہیں۔ پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں ان سے ملاقات ہوئی۔ یہ چند برس پہلے کی بات ہے۔پسِ پردہ گفتگو سے منکشف ہوا کہ وہ ایک صوفی ہیں اور مستقبل بین بھی۔ان دنوں جسٹس افتخار چوہدری صاحب کی بحالی کے لیے تحریک چل رہی تھی۔مستقبل کے سیاسی منظر پر ان کی رائے جاننا چاہی۔ ان کے جواب چونکا دینے والے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم بننا تو دور کی بات ہے،نواز شریف صاحب تو اب قومی اسمبلی کے رکن نہیں بن سکیں گے۔ان کی بات کا حاصل یہ تھا کہ نواز شریف صاحب ایک قصۂ پارینہ ہیں۔آج جب نواز شریف صاحب تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بن چکے ہیں تو میں دونوں جدید صوفیوں کی پیش گوئیوں پہ غور کرتا ہوں اور سچ پوچھیے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔اس لیے مجھ جیسے کم فہموں کو یہی جواب ملتا ہے کہ تم اس دنیا کے آدمی نہیں ہو۔عقل و خرد کے قیدی کیا جانیں کہ دل و نظر کی دنیا کیا ہے۔ظاہر ہے اِس استدلال کا کوئی جواب نہیں۔الاّ یہ کہ میں اپنی عقل اور حواس کسی کے پاس گروی رکھ دوں۔ یہ حضرات معالج بھی ہیں۔پیچیدہ امراض کا علاج کرتے ہیںاور دوا سے نہیں،کسی متبادل ذریعہ سے۔جن صاحب سے میری ٹیلی وژن پر ملاقات ہوئی،میں چند احباب کے ساتھ ان سے ملنے ان کے آستانے پر بھی گیا۔میری موجودگی میں،ان کے پاس دل کا ایک مریض آیا۔اس نے بتایا کہ ڈاکٹروں کے بقول اس کے دل کی شریانیں بند ہو چکی ہیںاور اوپن ہارٹ سرجری ناگزیر ہو چکی۔انہوں نے نصیحت کی:اس نسخے کو ایک طرف رکھو،ڈاکٹروں کی بات کھیل تماشہ ہے۔تمہیں دوا کی ضرورت نہیں۔میں تمہیں یہ وظیفہ(یاد عا) بتا رہا ہوں۔اس کا اہتمام کرو،صحت ہو جائے گی۔میں آج تک سوچتا ہوں کہ اُس مریض کا انجام کیا ہوا ہو گا؟سچی بات ہے کہ اس کے ایسے ایسے جواب ذہن میں آتے ہیں کہ خوف زدہ ہو جاتا ہوں۔خود کو تسلی دیتا ہوں کہ یہ کمزور ایمان کی نشانی ہو سکتی ہے۔مجھے اس کو طاقت ور بنانا ہو گا تاکہ میں یہ اسرار و رموز جان سکوں۔ اس دنیا کا کاروبار شاید اسی طرح چلنا ہے۔اﷲ نے آزمائش کاجو قانون دیا ہے،اس کا تقاضا یہی ہے کہ انسان پر پیغمبروں کے ذریعے حق واضح کر دیا جائے اور پھر اسے آزادچھوڑ دیا جائے۔ انسان کو عقل کا چراغ بھی ساتھ دے دیاتا کہ وہ اپنے لیے راستہ تلاش کرے۔اس کا فیصلہ تو آخرت میں وہ خود ہی کرے گا کہ کون صراط مستقیم پر تھا اور کون تھا جو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ اس دنیا کا حسن شاید اسی تنوع کے دم سے ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved