تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     06-09-2020

اے پی سی اور سیاسی درجہ حرارت

پاکستان میں اگر ایک طرف موسم برسات کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی صورت حال ہے تو دوسری طرف سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ متحدہ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک کی نوعیت اور سمت کا تعین کرنے کے لئے 20 ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ایک حالیہ اجلاس میں کیا گیا‘ جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پاررٹی کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ اس سے قبل مذکورہ دونوں پارٹیوں نے رہبر کمیٹی کا تقریباً بائیکاٹ کر رکھا تھا‘ جس کی وجہ سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن کی کوششوں میں کوئی پیش رفت مشاہدے میں نہیں آ رہی تھی‘ لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے رہنما شہباز شریف کے حالیہ دورہ کراچی کے دوران ان کی سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات کے بعد اپوزیشن کی سیاست میں اچانک تیزی آ گئی ہے۔ کراچی میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات میں شہباز شریف کے ہمراہ احسن اقبال اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنما بھی شریک تھے۔ ملاقات کے بعد ان رہنمائوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے خلاف ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لئے نون لیگ اور پیپلز پارٹی اے پی سی منعقد کرنے پر متفق ہو گئی ہیں۔ 3 ستمبر کو رہبر کمیٹی کے اجلاس کا انعقاد بھی اسی ملاقات کا نتیجہ تھا۔ 
رہبر کمیٹی نے اے پی سی کے اجلاس کے لئے 20 ستمبر کی تاریخ تو مقرر کر دی ہے‘ لیکن اے پی سی کا کیا ایجنڈا ہو گا اور اس ایجنڈے کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کون سا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا‘ رہبر کمیٹی نے اس کا فیصلہ 20 ستمبر کی اے پی سی پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے باوجود نون لیگ کی دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ہمراہ اے پی سی میں شرکت پر رضا مندی اپوزیشن کی سیاست میں ایک اہم پیش رفت ہے کیونکہ اس سے قبل نون لیگ اے پی سی کی کسی حتمی تاریخ پر رضا مند نہیں ہو رہی تھی‘ حالانکہ اس مقصد کے لئے بلاول بھٹو نے متعدد بار ٹیلی فون رابطے کے علاوہ جولائی میں شہباز شریف سے ان کی ماڈل ٹائون لاہور میں رہائش گاہ پر ملاقات بھی کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد بلاول بھٹو نے شہباز شریف کی موجودگی میں کہا تھا کہ ان کی پارٹی نون لیگ کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام کے لئے کھڑی ہو گی‘ مگر تب اے پی سی کی حتمی تاریخ پر دونوں پارٹیوں کے مابین اتفاق نہ ہو سکا تھا کیونکہ شہباز شریف اور ان کی پارٹی اس کے لئے تیار نہ تھی۔ اس صورت حال پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے نون لیگ پر حکومت سے ڈیل کرنے کا الزام عائد کیا تھا‘ مگر اب کراچی میں زرداری صاحب نے علالت کے باوجود گھر سے باہر آ کر شہباز شریف کا استقبال کیا اور پونے دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد دونوں پارٹیوں کے مابین نہ صرف اے پی سی بلانے پر اتفاق ہو گیا بلکہ اس کی تاریخ اور ایجنڈا طے کرنے کے لئے اگلے ہی روز رہبر کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا۔ 
اس ساری صورتحال پر سیاسی حلقوں میں خاصا تجسس پایا جاتا ہے اور وہ دو سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں۔ پہلا‘ وہ کون سے عوامل ہیں‘ جنہوں نے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے کے قریب ہو کر‘ سیاسی جماعتوں سے مل کر حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے پر آمادہ کیا‘ اور دوسرا یہ کہ اس تحریک کا ہدف کیا ہو گا؟ اور اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کون سا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟ کراچی ملاقات سے پہلے اور اس کے بعد بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کا ان امور پر موقف واضح نہیں ہے؛ اگرچہ دونوں پارٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ میں جتنی جلدی تبدیلی ہو بہتر ہے‘ مگر اس کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے‘ اس پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی سوچ مختلف ہے۔ پیپلز پارٹی کو جلدی ہے کیونکہ جعلی کرنسی اکائونٹس کیس میں فرد جرم عائد ہونے کے بعد نیب کی طرف سے آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ شروع ہو گیا ہے۔ اس مقدمے میں ملزمان کو سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پیپلز پارٹی کے لئے پریشان کن مسئلہ کراچی میں حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں اور 18ویں آئینی ترمیم کا ہر قیمت پر دفاع کرنے کے سبب سندھ حکومت کی رٹ کمزور کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی طرف سے ممکنہ اقدامات ہیں‘ مگر نون لیگ اور شہباز شریف کو جلدی نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جن قوتوں نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا تھا‘ وہ کپتان کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور اس مایوسی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے‘ کیونکہ غالباً ان قوتوں کا خیال تھا کہ جس طرح شوکت خانم ہسپتال کے لئے اندرون اور بیرونِ ملک لوگوں نے دل کھول کر کپتان کو چندہ دیا تھا‘ ایک دیانت دار شخص کے وزیر اعظم بننے کے بعد نہ صرف بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بلکہ 'کرپشن فری اور شفاف‘ گورننس کے دلدادہ ملک اور امداد دینے والے ادارے پاکستان پر ڈالروں کی بارش کر دیں گے‘ لیکن ان کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت کے دو سال مکمل کرنے کے بعد بھی نہ تو قومی معیشت اور نہ ہی جارحانہ پالیسی کے محاذ پر کوئی پیش رفت کر سکی ہے۔ قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے ایسی صورت حال کا مزید جاری رہنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے وہ اب کسی آپشن کی تلاش میں ہیں‘ اور شہباز شریف اور ان کے ہم خیال نون لیگ کے رہنما اور ورکر اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان سے بہتر آپشن کیا ہو سکتا ہے؟
کبھی کبھی خبر چھوڑی جاتی ہے کہ ''مائنس ون‘‘ پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ انتہائی ''باخبر‘‘ حلقوں کے قریب ایک انویسٹی گیٹو جرنلسٹ نے سالِ رواں کے آغاز میں انکشاف کیا تھا کہ لندن میں علاج کی غرض سے مقیم نواز شریف کو پاور شیئرنگ کی پیشکش کی گئی ہے‘ مگر جن شرائط پر یہ پیشکش کی گئی نواز شریف نے ان کی بنا پر یہ پیشکش مسترد کر دی۔ ان شرائط پر شہباز شریف بھی شریک اقتدار ہونے کے لئے تیار نہیں‘ وہ غیر مشروط طور پر اقتدار کی منتقلی کے منتظر ہیں‘ مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ شہباز شریف نے 18ویں ترمیم پر مقتدر قوتوں کا ساتھ دینے کے بجائے صوبوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے‘ اور اب کراچی ملاقات کے بعد شہباز شریف اقتدار کی غیر مشروط منتقلی سے اور بھی دور ہو گئے ہیں۔ نون لیگ کے رہنمائوں کے تازہ بیانات کی روشنی میں پارٹی نہ صرف ''ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے حق میں نہیں بلکہ مڈ ٹرم انتخابات کو بھی بے کار اور بے سود سمجھتی ہے‘ کیونکہ بقول احسن اقبال اگر مڈ ٹرم انتخابات ویسے ہی ہوئے جیسے 2018 کے پارلیمانی انتخابات تھے تو اس سے کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آئے گی‘ بلکہ ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ میری نظر میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے تازہ ترین موقف پر حکومت کی طرف سے احتساب کے نام پر جن کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ہے‘ ان کے جواب میں دونوں پارٹیوں نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 20 ستمبر کو اے پی سی کے اجلاس پر ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں میں اتفاق موجودہ سیاسی ہلچل کا باعث ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved