ایک نوجوان نے گاؤں کے ایک بزرگ سے سو روپے کی شرط لگائی کہ اگر وہ بزرگ بتا دے کہ پاکستان کب بنا تھا تو وہ اسے 100 روپے دے گا اور اگر بزرگ نہ بتا سکا تو وہ اس نوجوان کو 100 روپے دے گا۔ بزرگ نے کہا: یہ کونسی مشکل بات ہے پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا تھا۔ نوجوان نے ہنستے ہوئے بزرگ کے ہاتھ سے سو روپے کا نوٹ کھینچا اور کہا: میں نے نئے پاکستان کا پوچھا تھا‘ پرانے پاکستان کا نہیں‘‘۔
یہ تو خیر ایک لطیفہ تھا‘ لیکن وفاق اور وہ صوبے جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں نیا پاکستان بننا لازمی امر ہے۔ تحریک انصاف اپنے دعوے کے مطابق نیا خیبرپختونخوا بنا چکی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کے مخالفین اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب یہی سلوک وہ پنجاب کے ساتھ بھی کرنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ اور ہمارے ہردلعزیز وزیر اعظم جناب عمران خان نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے گوہر نایاب تلاش کیا اور ایسا ہیرا چنا جسے ابھی تراشنا باقی تھا۔ گوکہ بلحاظ آبادی پاکستان کا سب کا بڑا صوبہ ہونے کے ناتے اور وزارت عظمیٰ کے بعد سب سے طاقتور سمجھی جانے والی کرسی ہمیشہ سے اس بات کی متقاضی رہی ہے کہ اس پر سب سے قابل، تجربہ کار اور گھاگ سیاستدان براجمان ہو، لیکن چونکہ معاملہ تبدیلی کا تھا تو شاید مذکورہ بالا معیارات کا پورا ہونا ممکن نہیں تھا‘ اس لئے ایک نئے اور ناتجربہ کارکھلاڑی کو وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کیا گیا اور پچھلے دو برسوں میں تمام تر مخالفتوں کے باوجود اس کی غیرمتزلزل حمایت بھی جاری ہے۔ عثمان بزدار صاحب کی جو بنیادی صلاحیتیں وزیر اعظم نے بیان فرمائیں یہ ہیں کہ وہ پسماندہ علاقے سے ہیں اور جنوبی پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں‘ رہی کام کی بات تو وہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سیکھ لیں گے۔ لیکن ہمارے پیارے وزیر اعلیٰ آج بھی اتنے ہی شرمیلے ہیں جتنے وہ پہلے دن تھے؛ تاہم اس سے یہ تاثر نہیں ابھرنا چاہئے کہ وہ شاید بھولے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے‘ وہ ایک سمجھدار انسان ہیں‘ اپنے قبیلے کے سربراہ ہیں اور ''سیاست‘‘ کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں؛ البتہ ایک بڑے صوبے کو چلانے کے لیے جس وسعت نظری کی ضرورت ہوتی ہے وہ شاید ابھی کافی دور ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو مثبت کرلیں تو یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ 2023ء میں اگر دوبارہ تحریک انصاف کو پنجاب میں مینڈیٹ ملا تو شاید عثمان بزدار کام سیکھ چکے ہوں گے۔
اس طویل تمہید کا بنیادی محرک وہ رپورٹ ہے جو2 سالہ بیمثال کارکردگی کے بارے میں پنجاب حکومت نے جاری کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ انہوں نے 'شوبازی‘ کے بجائے کام پر توجہ دی۔ ان کاموں کی جو رپورٹ اس وقت میرے سامنے موجود ہے اس کی تفصیلات بڑی طویل ہیں‘ ایک کالم میں سموئی نہیں جا سکتیں لیکن چند بڑے کام جن کا دعویٰ بڑے فخر کے ساتھ کیا گیا ہے، ان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ، صحت کارڈ اور پرو بزنس اقدامات شامل ہیں‘ لیکن اگر رپورٹ کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تین بڑے کاموں سمیت باقی جتنے بھی اقدامات ہیں ان میں سے بیشتر کا یا توارادہ ظاہرکیا گیا ہے یا پھر ابھی پلاننگ کی فیز میں ہیں۔ یعنی ایسا کیا جائے گا، ایسا ہوگا، مختص کر دیا گیا ہے، بنائے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مجھے یہ کسی عملی حکومت کی رپورٹ کے بجائے کسی سوشل مضمون کی کتاب لگی، جس میں بہت سارے پوائنٹس بنا کر یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسا ہونا چاہئے ویسا ہونا چاہئے۔ وزیر اعلیٰ فخریہ انداز میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا کریڈٹ لیتے ہیں بلکہ پوری تحریک انصاف جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنانے پر پھولے نہیں سما رہی‘ لیکن وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا‘ اور جنوبی پنجاب کے باشعور طبقات اس سیکرٹریٹ کے قیام پر کچھ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ حکومت سیکرٹریٹ کے نام پر جو اقدامات کررہی ہے‘ وہ آئین اور قوانین کے مطابق ہیں؟ ابتدائی طور پر یہ کہا گیاکہ ایک سینئر پولیس افسر اور ایک سینئر بیوروکریٹ جنوبی پنجاب میں تعینات کیا جائے گا، لیکن بعداز تنقید 15 محکمے قائم کیے گئے ہیں۔ اب چونکہ جنوبی پنجاب الگ صوبہ نہیں‘ بلکہ موجودہ پنجاب کا حصہ ہے تو سوال یہ ہے کہ ایک ہی محکمے میں دو سیکرٹری کیسے تعینات کیے جائیں گے؟ ایک ہی صوبے میں داخلہ، تعلیم، زراعت وغیرہ کے کتنے محکمے ہوں گے؟ اور یہ سب کام کرنے کے اختیارات آئین اور قانون میں کہاں درج ہیں؟ جنوبی پنجاب والوں کے ساتھ وعدہ الگ صوبے کا تھا اور آئین میں صرف چار صوبوں کا ذکر ہے۔ اگر وعدہ واقعی پورا کرنا ہے تو پھر حکومت کو آئینی راستہ اختیار کرنا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکومت کو عددی صورتحال سے بے نیاز ہو کر ایوان میں آئینی ترمیم پیش کرنی چاہیے لیکن محسوس ہوتا ہے‘ وہ نیا صوبہ نہیں بنانا چاہتی بلکہ خوفزدہ ہے کہ اگر نیا صوبہ بنایا گیا تو دونوں صوبائی اسمبلیاں ان ارکان پر مشتمل ہوں گی جو 2018ء کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے لہٰذا نئے صوبوں میں عددی برتری کس جماعت کو حاصل ہو گی؟ یہی ایک سوال ہے جس کی وجہ سے نیا صوبہ بنانے کے بجائے وہ الگ سیکرٹریٹ سے ہی کام چلانا چاہتی ہے اور کسی طرح سے بھی موجودہ پنجاب کی تقسیم کی صورت میں حکومت ہاتھ سے نہیں کھونا چاہتی۔ پنجاب حکومت کی2 سالہ کارکردگی کے کتابچے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ''بابوؤں‘‘ نے ایک بار پھر ہمارے سادہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو سب اچھا کی رپورٹ پیش کردی ہے‘ جس کو بغیر زمینی حقائق جانچے من وعن شائع کردیا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران صوبے نے ترقیاتی بجٹ کا صرف 44 فیصد استعمال کیا۔ اس کا اظہار وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کیا‘ بلکہ فواد چوہدری نے تو وزیراعلیٰ پنجاب کی صلاحیتوں اور کارکردگی پر بھی نہایت تشویش کا اظہار کیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب بڑے فخرسے بتاتے ہیں کہ وہ عمران خان کے ویژن کے مطابق حکومت چلا رہے ہیں، لیکن اپنی اس 2 سالہ کارکردگی رپورٹ میں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکومت کے پارٹی منشور اور ایجنڈے میں درج اہداف میں کون کون سے حاصل کر لیے گئے۔ عمران خان صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں جو 100روزہ تبدیلی کا وعدہ کیا تھا اس میں سے کون کون سے وعدے پایا تکمیل تک پہنچے ہیں؟ دو سالہ کارکردگی رپورٹ میں ان سوالوں کا جواب نہیں دیا جا سکا۔ کہ ان برسوں میں تعلیمی میدان، ہسپتالوں کی بہتری، پینے کے صاف پانی، جرائم کو روکنے، پولیس ریفارمز، آلودگی کے خاتمے اور لیبر ریفارمز کے لئے کیا کچھ ممکن تھا جو نہیں کیا جا سکا؟ کتنی قانون سازی کی گئی؟ کیا پنجاب میں سرکاری دفاتر‘ سکولوں، ہسپتالوں میں کوئی تبدیلی لائی گئی؟ کیا یہاں کا کلچر بدل دیا گیا؟ کیا آج والدین بچوں کو ہنسی خوشی سرکاری سکول میں داخل کرانے کے لئے راضی ہو چکے ہیں؟ کیا آج بھی کوئی اپنا مریض پرائیویٹ ہسپتال کے بجائے سرکاری ہسپتال لے جانے کو ترجیح دیتا ہے؟ کیا سرکاری دفاتر سے کرپشن کو ختم کردیا گیا ہے؟ اقربا پروری کی جگہ میرٹ نے لے لی ہے؟ کیا سرکاری کاموں میں سیاسی مداخلت بند کردی گئی ہے؟ حالت تو یہ ہے کہ عام آدمی پہلے سے زیادہ غریب ہوگیا ہے، اشیائے ضروریہ آٹا، چینی، دالیں، پٹرول، بجلی، گیس سب مہنگا اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں، ایسے میں کیسے پنجاب حکومت یہ دعوی کر سکتی ہے کہ اس نے بازی پلٹ دی ہے؟ رپورٹ سے ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اڑ رہا ہے۔ اسے ترقی کے پر لگ چکے ہیں لیکن حقیقت بہت مختلف ہے‘ اس کے لیے حکومت کو اپنے دعوے اور وعدے حقیقی طور پر پورے کرنا ہوں گے۔ زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی میدان میں اترنا ہو گا۔