تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     06-09-2020

میری زمین میرا آخری حوالہ ہے

چھ ستمبر 1965ء کی پاک ‘ بھارت جنگ کے دوران لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ بھارت کی مغربی کمان کے سربراہ تھے۔فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہوں نے ''ان دی لائن آف ڈیوٹی‘‘کے نام سے اپنی یادداشتیں مرتب کیں ۔ ان یادداشتوں میں اُنہوں نے بہت تفصیل سے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا ذکر بھی کیا ۔ جنگِ ستمبر کو اگر دشمن کی نظر سے دیکھنا‘ پرکھنا اور سمجھنا ہو تو اس کتاب کا مطالعہ کافی مفید ہے۔ جنرل ہربخش سنگھ کی یادداشتوں کے مطابق‘ پاک بھارت کھلی جنگ شروع ہونے کے بعد اُنہیں لاہور پر حملہ کرنے والے 15ویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل نرنجن پرسا د کا ایک پیغام موصول ہوتا ہے‘اپنے پیغام میں جنرل نرنجن بتاتے ہیں کہ اُن کی ڈویژن پر پاک فوج کے دوڈویژنز نے حملہ کرکے اُنہیں اچھوگل نہر سے سات کلومیٹر پیچھے گوسلگیال تک دھکیل دیا ہے۔ یہ پیغام ہربخش سنگھ کے لیے کافی اچنبھے کا باعث تھی کیونکہ اُن کی معلومات کے مطابق لاہور کے محاذ پر پاکستان کے پاس اتنی فوج تھی ہی نہیں۔ تبھی ہربخش سنگھ خود صورتحال کا جائزہ لینے واہگہ کی طرف آتے ہیں اور یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیںکہ جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ بھارتی ٹینک اور گاڑیاں جل رہی ہیں۔ زمین پر پاکستان کی بری فوج دشمن پر بجلیاں گرا رہی تھی تو فضا سے پاک فضائیہ کے شاہین آگ برسا رہے تھے۔ ملٹری پولیس کی قیادت میں گاڑی کا ڈرائیور جنرل ہر بخش سنگھ کو کماد کے ایک کھیت تک لے جاتا ہے جہاں بھارت کے 15ویں ڈویژن کے کمانڈر جنرل نرنجن پرساد چھپے ہوئے تھے۔ بقول جنرل ہربخش سنگھ ‘ اُن کے میجر جنرل کا چہرہ خوف سے سفید پڑ چکا تھا۔ صورتحال اس قدر خراب تھی کہ جنرل نرنجن پرساد کو استعفیٰ دینے کا کہا گیا جس کے بعد جنرل موہندر سنگھ کو 15ویں ڈویژن کا نیا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ 
یہ دشمن کے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر کی بیان کی گئی وہ مختصر سی کہانی ہے جو جنگِ ستمبر 1965ء کی تمام صورتحال کا مختصراحاطہ کرتی ہے۔تب میجرجنرل سرفراز احمد خان بھارت کے خلاف پاکستان کے ڈویژن کی کمان کررہے تھے۔ اُن کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے شادمان‘ لاہور میں اُن کے گھر پر ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تھی‘تب وہ کافی کمزور ہوچکے تھے لیکن جیسے ہی جنگِ ستمبر کا ذکر شروع ہوا تو گویا ایک توانا جنرل سرفراز ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنی تعریف میں تو اُنہوں نے شاید ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا لیکن اپنے جوانوں کی بہادری کا ذکر وہ انتہائی والہانہ انداز میں کررہے تھے۔ دورانِ گفتگو اُنہوں نے اپنے کتنے ہی افسران اور جوانوں کا نام لے کر اُن کی تعریف کی کہ کس طرح وہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے تھے۔ اسی دوران ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ یہ صحیح ہے کہ ابتدائی طور پر دشمن کو اچھی کامیابیاں حاصل ہوئیں تھیں ‘ وہ بی آربی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن اُس کے بعد اُسے جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘ اُس کے بارے میں تو اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ہمارے اس مرحوم ہیرو کے مطابق افسروں اور جوانوں نے طے کرلیا تھا کہ چاہے جتنی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے‘ہرقیمت پر وطنِ عزیز کا تحفظ کیا جائے گا۔ بس پھر جوجہاں تھا وہاں سے تبھی ہلا جب وہ شہید ہوگیا یا اُسے کسی حکمت عملی کے تحت وہاں سے ہٹنے کے لیے کہا گیا۔ جنرل سرفراز کی گفتگو کا پرجوش انداز اور آنکھوں کی چمک دیکھ کر بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ گفتگو تو ہمارے ساتھ کررہے تھے لیکن دراصل وہ لاہور کے محاذ پر پہنچ چکے تھے‘ پھر ہمیں بھی وقت کا اندازہ نہ رہا اور جب گفتگو کا سلسلہ ختم ہوا تو کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ 
لاہور کے محاذ پر بھارتی آرمی چیف جنرل چوہدری کا خواب دم توڑ چکا تھا‘ اب تو معلوم نہیں جی ٹی روڈ پر وہ سنگِ میل موجود ہے یا نہیں‘ لیکن کچھ عرصہ پہلے تک وہ ضرور موجود تھا۔ واہگہ بارڈر سے لاہور کی طرف آتے ہوئے اس سنگ میل پر لاہور 14میل لکھا ہوا تھا۔ دورانِ جنگ کسی جوان یا افسر نے تحریر کے نیچے اپنے خون سے لکھ دیا(Lahore 14 Bloody Miles) گویا لاہور تک پہنچنے کے لیے دشمن کو خون کا دریا عبور کرنا ہوگا۔‘یہ تھا وہ جوش اور جذبہ جس نے لاہور پر دشمن کے حملے کو بری طرح ناکام بنا دیا ۔ دشمن کا منصوبہ تھا کہ 7ستمبر کو وہ سیالکوٹ کے محاذ سے آرمرڈ حملہ کرے گا اور آرمرڈ ڈویژن گوجرانوالہ پہنچ کر جی ٹی روڈ کو کاٹ دے گا۔ اس دوران اگر لاہور پر حملہ کرنے والی بھارتی فوج لاہور کا دفاع نہ توڑ سکی تو آرمرڈ ڈویژن پاکستانی فوج کو پیچھے سے دبوچ کر جنگ کا خاتمہ کردے گا۔ آپریشن نیپال کے نام سے کیا جانے والا آمرڈ حملہ سات ستمبر کی بجائے آٹھ ستمبر کو شروع ہوا۔ ٹینکوں کی یہ جنگ دوسری عالمی جنگ کے دوران ''العلمین‘‘ کے معرکے کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کہلائی۔ حملے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ہماری فرنٹئیرفورس کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا۔ گڈگور کے قریب حملہ بڑی حد تک روک لیا گیا۔اس دوران ایک مرحلے پر یہ تجویز بھی زیرغور آئی کہ یہاں سے پیچھے ہٹ کر گوجرانوالہ کے قریب دوسری ڈیفنس لائن پر جاکر دفاع کیا جائے۔ پھر اعلیٰ کمان نے فیصلہ کیا کہ حملے کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اگر ہمارے قدم ایک مرتبہ اُکھڑ گئے تو پھر ہمارے لیے کہیں بھی قدم جمانا ممکن نہیں رہے گا۔ پھر لاہور کی طرح یہاں بھی یہی فیصلہ ہوا کہ جو جہاں ہے وہ وہاں سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ پاکستانی ٹینک بھی مقابلے کے لیے پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد تووہ گھمسان کا رن پڑا کہ ہرطرف سوائے باروداور مٹی کے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ قطاریں باندھ کر آتے ہوئے بھارتی ٹینک ایک کے بعد ایک تباہ ہورہے تھے ‘لیکن تباہی سے پہلے خراج بھی وصول کررہے تھے۔ بالآخر پہلے حملے کی شدت کو توڑ دیا گیا جس کے بعد بھی حملے ہوئے لیکن دشمن آگے بڑھنے میں ناکام رہا۔ 
لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر دشمن کے انتہائی شدت کے حملوںکو روک دینے کے بعد آنے والے دنوں کے لیے جنگ کا رخ متعین ہوگیا تھا۔ اس دوران ایک تاثر یہ بھی اُبھرا کہ شاید دشمن کی طرف سے اتنی طاقت کے باوجود بزدلی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ یہی سوال ہم نے ایک مرتبہ جنگِ ستمبر کے ایک اور ہیرومیجرشفقت بلوچ سے کیا تھا۔ شادمان‘ لاہور ہی میں اُن کے گھر پر ہونے والی گفتگو کے دوران پوچھا۔یہ سوال پوچھے جانے پر وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر گویا ہوئے:نہیں یہ تاثر غلط ہے ‘ دشمن کی طرف سے ہرگز بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا ‘ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دشمن کے فوجیوںکو اپنے ہی ساتھیوں کی لاشوں پر آگے بڑھتے ہوئے دیکھا ‘ وہ جانتے تھے کہ جس طرح اُن سے پہلے والے مر گئے ہیں تو موت اُنہیں بھی اُچک سکتی ہے لیکن وہ کسی بھی قیمت پر آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ میجرشفقت بلوچ کے مطابق‘ یہ تو نوجوان فوجی افسروں اور جوانوں کا جوش اور جذبہ ایسا تھا کہ اُنہوں نے دشمن کی ایک نہ چلنے دی اور دفاعِ وطن کی ذمہ داری کو بھرپورطریقے سے انجام دیا۔بلا شبہ دشمن پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا جس کیلئے اُس نے اپنی پوری فوجی قوت کو میدان میں جھونک دیا تھا۔ دیکھا جائے تو تب بھارتی فوج کے چیف جنرل چوہدری کا یہ کہنا کچھ غلط بھی نہ تھا کہ وہ چھ ستمبر 1965کو شام کی چائے لاہور جمخانہ میں پئیں گے۔ اس کی وجہ بہت صاف تھی کہ بھارت نے جس بھرپورقوت کے ساتھ حملہ کیا تھا‘ اُس کے بعد وہ یہ توقع کرسکتے تھے ۔ یہ الگ بات کہ ہماری مسلح افواج نے وطن سے وفا کا حق اس انداز میں ادا کیا کہ بقول افتخار عارف ؎
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے
سومیں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کردے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved